بیج ڈالے بغیر فصل کاٹنے کی تیاری

حفیظ نعمانی

آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں یاد نہیں کہ کبھی الیکشن سے ایک سال پہلے حکومت کے سربراہ اور ہر وزیر نے ہر کام چھوڑکر صرف الیکشن کی تیاری شروع کردی ہو۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ ایک سال پہلے سے حکومت ان مطالبات میں سے جو چار سال تک اٹھتے رہے ہوں ان میں سے بے ضرر مطالبات کو منظور کرکے اپنے لئے ماحول بنانا شروع کرتی رہی ہے۔ یا ریل کے کرایہ میں اضافہ ٹیکس میں اضافہ یا وہ تمام قدم اس وقت تک روک دیتی رہی ہے جس سے عوام ناراض ہوجائیں۔ لیکن موجودہ مودی سرکار نے سب کام چھوڑکر صرف 2019 ء مشن شروع کردیا ہے اس کے لئے لاکھوں پوسٹر بینر اور ہزاروں ہورڈنگ یا ٹی وی چینل کے اشتہاروں پر کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے علاوہ ہر ووٹر سے دوبدو ملاقات کرنے کا پروگرام بنایا ہے جس کے لئے leFkZu vkSj lEidZ یعنی ملنا اور مدد مانگنا کا پروگرام بنایا ہے جس میں پارلیمنٹ کا ہر ممبر اب صرف اپنے حلقہ میں ووٹر سے ملے گا اور مدد مانگے گا اور ہر کسی کو مل کر بتائے گا کہ حکومت نے آپ کے اور آپ کے بچوں کیلئے کیا کیا ہے؟ فارسی کی ایک مشہور مثل ہے ’’مشک آنست کہ خود بگوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ مشک وہ اصلی ہوتا ہے جو خود بولتا ہے وہ نہیں جسے فروخت کرنے والا عطار (دُکاندار) اصلی بتائے۔ ہم نے اپنی اتنی عمر میں صرف ایک بار مشک دیکھنا چاہا وہ جن صاحب کے پاس تھا وہ اندر سے لائے اور اس کے اوپر لپٹا ہوا کاغذ اتارنا شروع کیا اور جب پندرہ بیس کاغذ اتار دیئے تو پورے ماحول میں خوشبو پھیل گئی بعد میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ خالص مشک کو ہاتھ میں لے کر سونگھ لیں گے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے انہیں روک دیا کہ بس اسے لپیٹ دیجئے۔

مودی جی کی سرکار کا ہر آدمی اور پارلیمنٹ کا ہر ممبر صرف ایک سال یہ بتائے گا کہ حکومت نے چار سال میں آپ کے لئے کیا کیا ہے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ جسے بتایا جائے گا اسے خود نظر کیوں نہیں آیا؟ اگر اس کے گاؤں میں نہیں ہوا تو ان میں سے کسی ایک گاؤں میں جہاں ان کی رشتہ داریاں ہیں وہاں سے خبر کیوں نہیں آئی؟ اگر کوئی میرے پاس آیا تو اس کو بتاؤں گا کہ نوٹ بندی کے بعد ہمارے پریس کا کام آدھا رہ گیا تھا اس لئے کہ ہر نیتا کے پاس ایک رقم ایسی ضرور ہوتی تھی جس کا حساب صرف اس کے پاس ہوتا تھا اور وہ آنے والے الیکشن سے پہلے اپنے حلقہ میں پڑنے والی عیدگاہوں اور ان مسجدوں میں جہاں عید کی نماز ہوتی ہے وہ اپنی طرف سے دل کی گہرائیوں سے ہر بھائی کو عید مبارک کے پرچے لاکھوں کی تعداد میں بٹواتے تھے اور ہندو بھائیوں کو ہولی اور دیوالی کی مبارکباد کے اشتہار چھپواکر بانٹتے تھے۔

ان کے علاوہ اور نہ جانے کتنے کام ہوتے تھے جس میں لمبی رقم خرچ ہوتی تھی اور ان کے پوسٹر دعوت نامے اور خطبہ استقبالیہ اور خطبہ صدارت چھپتے تھے۔ نوٹ بندی نے سب بند کردیا۔ اس کے بعد جی ایس ٹی نے وہ مار ماری کہ جو کچھ بچا تھا وہ اس نے لے لیا۔ ہمارا وہ بیٹا جو پریس کا مالک ہے وہ نوٹ بندی سے پہلے صبح 9 بجے سلام کرکے جاتا تھا اور رات کو اکثر ملاقات نہیں ہوتی تھی کیونکہ ہم گیارہ بجے ضرور سوجاتے ہیں ۔ مودی جی نے اپنی حکومت میں یہ کیا ہے کہ وہ بیٹا اب دوپہر بارہ بجے تک گھر رہتا ہے اور جب پریس جاتا ہے تو شام کو عام طور پر 6 بجے گھر آجاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دوسرے پریسوں کا اس سے بھی برا حال ہے۔ ہمارے نواسوں کی دُکانوں کا بھی یہی حال ہے کہ پہلے وہ صرف اتوار کے دن ہم سے ملنے آتے تھے۔ اور خوش تھے کہ صبح دس بجے دُکان کھولنا مشکل ہوجاتا ہے ٹھیک سے دُکان کھل بھی نہیں پاتی کہ خریدار کہنے لگتے ہیں کہ بھیا ہمارا مال پہلے نکلوا دیجئے۔ اور اتوار کے دن بھی ہم حساب کتاب کرنے کے لئے دُکان جاتے ہیں تو خریدار آجاتے ہیں اور شام ہوجاتی ہے۔

مرکزی حکومت کے وزیر پارلیمنٹ کے ممبر آر ایس ایس کے منجھے ہوئے جادوگر غریب اور جاہل کسانوں کو کیا بتائیں گے اور کیا دکھائیں گے؟ 2014 ء میں مودی جی نے سمپرک (lEidZ) کیا تھا اور نہ سمرتھن (leFkZu) مانگا تھا۔ بس یہ دکھایا تھا کہ کانگریس نے کیا کیا نہیں کیا۔ اور ہم سب کو معلوم تھا کہ مودی جی سچ کہہ رہے ہیں تو سب نے ووٹ دے دیا اور اب راہل گاندھی، شرد پوار، شرد یادو، اکھلیش یادو، مایاوتی اور تمام بی جے پی کے مخالف لیڈر جب بتائیں گے کہ 2014 ء میں مہنگائی کتنی تھی جس کے خلاف تم نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا اس وقت پیٹرول، ڈیزل اور پکوان گیس کا سلنڈر کتنے کا تھا اور اب کتنے کا ہے؟ یا پانچ سال پہلے کتنے روپئے میں ایک ڈالر ملتا تھا جس کے لئے مودی جی نے کہا تھا کہ روپئے کی عزت گرادی اور اب کتنے کا ہے جو ملک کی عزت بڑھ گئی۔ مودی جی کو جب ووٹ دیا تھا تو اس سال یا اس سے پہلے سال کتنے نوجوانوں کو سرکاری نوکری ملی تھی اور کتنوں کو روزگار اور مودی جی نے نعرہ دیا تھا کہ ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دوں گا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پکوڑے بناکر بیچو یہ بھی روزگار ہے اور ان کی پارٹی کے ایک وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ لاکھوں کمانا ہے تو پان کی دُکان کھولو۔ حیرت ہے کہ مودی جی نے خود ہی اپنے لئے الیکشن کو مشکل بنایا ہے اور اب سمپرک (lEidZ) اور سمرتھن (leFkZu) کرنے چلے ہیں ۔ اگر انہوں نے جو کچھ 2014 ء میں کہا تھا اس کا چوتھائی بھی کردیا ہوتا تو مارچ میں کھڑے ہوتے اور اپریل میں موٹے موٹے ہار پہن کر کرسی پر آکر بیٹھ جاتے۔ اب وہ راہل کے ان ہتھیاروں کا مقابلہ بھی نہیں کرپائیں گے جنہیں مودی جی اب تک کھلونہ کہتے آئے ہیں۔

بی جے پی کا یہ پرانا ہتھیار ہے کہ جب آگے کا راستہ بند نظر آتا ہے تو وہ ایک گنوار لڑکی کی طرح روتی ہوئی آر ایس ایس کے گھر کی کنڈی بجاتی ہے اور روتی ہے کہ مجھے بچاؤ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ وہاں سے فوج آتی ہے اور وہ ہندو ہندو گاتی بجاتی گاؤں گاؤں گھومتی ہے کم عقل عورتوں پر اس کا اثر بھی ہوتا ہے لیکن جب آندھی چلتی ہے تو وہ بھی کچھ نہیں کرپاتے۔ اگر نوٹ بندی نے گاؤں کو چھوڑ دیا ہوتا تو مودی جی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی مگر انہوں نے تو لہنگے کے نیفے میں اپنے پتی اور بیٹوں سے چھپائے ہوئے روپئے بھی نکلوا دیئے تو اب وہ کس منھ سے سمرتھن (leFkZu) مانگنے جارہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ یہ ہندوستان ہے جس کی رگوں میں آج بھی غلامی دوڑ رہی ہے ورنہ ان کے ساتھ جو حکومت نے کیا ہے دوسرا ملک ہوتا تو سمرتھن (leFkZu) مانگنے والوں کو گنڈاسہ لے کر گاؤں کی سرحد تک دوڑاتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔