بیٹی

(اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے، کہ یہ کہانی بھی اُسی کے تصور سے پیدا ہوئی تھی)

مشرف عالم ذوقی

خوف

بیٹی باپ سے ڈرتی تھی، اس کے برخلاف ماں کو اپنا دوست سمجھتی تھی____

ماں بیٹی سے ڈرتی تھی، اس لئے کہ بیٹی دنوں دن تاڑجتنی لمبی ہوتی جارہی تھی…

باپ کو بیٹی سے بالکل ڈر نہیں لگتا تھا۔ اس لئے کہ باپ مصروف رہتا تھا____ اس لئے کہ باپ کا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے کاروباری قسم کے لوگوں کے پاس گزرتا تھا… اور اس لئے کہ بہت تھوڑے سے وقت میں ، جو باپ اکثر اپنی بیٹی کے لئے چرالیا کرتا تھا، اور باپ یہ لمحے اپنی بیٹی کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا تھا____ یہ اور بات تھی کہ یہ لمحے سال میں کبھی کبھی ہی باپ کو میسر آتے تھے…

ΟΟ

بیٹی کی مٹھیوں میں راتیں دبی ہوتی تھیں …

بیٹی کی مٹھیاں اکثر تنہائی میں کھل جایا کرتی تھیں … اور نیلے آسمان سے اتری راتیں خاموشی سے اس میں سما جایا کرتیں …

پھر یہ راتیں چپکے چپکے اسے چھیڑنے پر آمادہ ہوجاتیں …

سنو…

وہ جیسے نشے میں ڈوبی آنکھیں لئے کسی اور دنیا میں گم ہوجاتی…

نیلے آسمان سے اتری راتوں میں شوخیاں سما جاتیں …

…اب تم ویسے نہیں ہنستی ہو جیسے…

…جیسے؟

ہاں ، اب تم ویسے، پہلے کی طرح نہیں رہتی، جیسے…

تم بدل رہی ہو…

سُبک مسکراہٹ، فلک سے عربی نغموں کی سواریاں لے کر آجاتیں …

تم بہت بدل گئی ہو… کیا نہیں ۔ ذرا اپنے آس کی ہوائوں کو یکھوں … باغوں کو___ دریا کو____ دریا میں ہولے ہولے تیرتی کشتیوں کو… کشتیوں کے کھلے، ہوا میں لہراتے بادبان کو____ پھولوں کو، خوشبو کو… اپنے اطراف اٹھی ہوئی عمارتوں کو____ اور اپنے اردگرد منڈلاتے بھونروں کو…

’بھونروں کو…‘ وہ چونک گئی۔

نیلے آسمان میں اترتی راتیں اچانک سہم گئی تھیں ____ سب کچھ نیا، ہے نا۔ بالکل تمہاری عمر کے گھوڑے جیسا____ ایرانی گھوڑے جیسا____ شکر کرو کہ ابھی اس بارے میں تمہارے گھر والوں کو پتہ نہیں ہے۔

پھر کیا ہوگا…؟

وہاں ایک سویا، سویا سا ڈر جاگ جائے گا اور…

اور کیا؟

گھر کی آنکھوں نے ابھی تمہارے جسم کی سرگوشیاں نہیں سنی ہیں ____ پھر… پھر وہ اچانک بے چین ہو جائیں گی… اور تم… قید کردی جائو گی۔

رات کا سناٹا… گہرا سناٹا…

بیٹی نے ہولے سے جھولتے ہوئے، جھولے پر سے ایک پھول توڑ لیا۔ پھول بالوں کے گچھے میں لگالیا، اور لہراتی ہوئی کسی خیال میں گم ہوگئی۔

تیزی سے آتے ہوئے باپ نے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔

باپ الٹے پائوں واپس لوٹ گیا تھا____

ΟΟ

باپ حیرانی سے آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔

باپ کو اپنا ’زمانہ‘ یاد تھا… باپ کو سب کچھ یاد تھا… لیکن دنیا، اسٹیٹس سمبل، پیسوں کے لئے بھاگ دوڑ میں الجھے باپ کے پاس سے جذباتی آنکھیں ، آہستہ آہستہ غائب ہونے لگی تھیں … پرانے منظر باپ کی یادوں سے پھسل کر غائب ہونے لگیتھے____  لیکن باپ اس لمحہ، اچانک، بیٹی، جوڑے اور پھول کو دیکھ کر چونک گیا تھا۔

برسوں پہلے اس منظر کی زد میں کوئی اور تھا۔

سرسراتی ہوا، ہلتے ہوئے پیڑ_____ جھولا____ جھولے پر بیٹھی ہوئی ایک لڑکی____ جھولتے جھولتے لڑکی کے ہاتھوں میں ایک پھول آجاتا ہے اور پھول…

باپ نے اس منظر کو وہیں فریز کرلیا۔

باپ پھر اس لڑکی کو گھر لے آیا… بیوی بناکر۔

پھر باپ، زمانہ، اسٹیٹس سمبل اور پیسہ کمانے والی مشین کا غلام بن گیا۔ باپ حیران تھا…

تو کیا بیٹی…؟

باپ کو تعجب تھا۔ لیکن ابھی تو… گیلی گیلی پھلیائوں ، کے منظر تو____ آنکھوں کو ابھی بھی سہانے ہیں ____ ننھے ننھے ہاتھ پائوں ۔ توتلی باتوں کی پچکاریاں ____ وہ گود میں اٹھالیتا… بھالو بن جاتا… اور کبھی گھوڑا… بیٹی کو جنگل پسند تھا اور جنگل میں رہنے والے۔

لیکن…باپ کے پاس جنگل میں گھومنے کا وقت ہی کہا تھا۔

ΟΟ

بھالو، گھوڑا… بیٹی رات رات، سارا سارا دن باپ کا انتظار کرتی____ باپ جب کبھی گھر لوٹتا، مصروفیت کے بوجھ سے کندھے جھکے ہوتے____ پھربھی وہ تازہ دم بنے رہنے کی کوشش میں مصروف رہتا۔

بھالو، گھوڑا، جنگل… باپ اچانک اس جنگل میں لوٹا تھا… اور حیرانیوں کی بارش لے کر وہ بیوی کے پاس آکھڑا ہوا۔

’تمہیں پتہ ہے‘ ہماری بیٹی اب…

ہاں پتہ ہے۔

پتہ ہے؟ باپ چونک گیا تھا۔

’’ڈرو مت…پچھلے چار برسوں سے… چار برسوں سے اس کا جسم میری آنکھوں کی دوربین میں ہے… غلط مت سمجھو… میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اسے کھلی ہوا میں سانس لینے کا موقع نہیں دیا ہے۔‘‘

’’مطلب؟‘‘

بیوی ہنسی… ’’مطلب وہ آدھا ہنستی ہے___ آدھا میں نے قبضہ کررکھا ہے___  وہ آدھا اڑتی ہے____ آدھی اڑان میرے قبضے میں ہے____ اڑان، ہنسی، مسکراہٹ، خواب… بڑے ہونے اور نافرمانی کرنے کے شک میں ____ میں نے ایک آدھا جسم اس کے پاس رہنے دیا ہے____ اور آدھا…‘‘

بیوی ہنس رہی تھی۔

بیوی اپنا زمانہ بھول گئی تھی۔

بیوی نے پھر پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ جیسے بیوی کو، اس کا جواب، اس کی دلیل، کسی کی بھی ضرورت نہ ہو…

ΟΟ

بیٹی حیران تھی… جیسے بہت سے پلاش کے پھول اس کی ننھی منی ہتھیلیوں میں سما کر رنگ بن گئے ہوں … رنگ… پھر اس نے آدھے رنگوں کو اپنی ہتھیلیوں سے کھرچ دیا …

تو اس کا مطلب؟

باپ برسوں بعد اپنی بیٹی سے شیئر کررہا تھا۔

ہاں ۔

تو تم آدھا ہنستی ہو اور آدھا تمہاری ماں کی تحویل میں ہے۔

ہاں ۔

اور تم آدھا اڑان بھرتی ہو۔

ہاں ۔

پھر تم مکمل کہاں رہ گئیں … آدھا آدھا…بڑے ہونے سے اڑنے تک____ بچپن سے جوانی اور جسم سے روح تک… گھر سے کالج اور کالج سے گھر تک____ آنکھوں سے مسکراہٹ اور مسکراہت سے خواب تک…

ہاں ۔

’’راتیں … پُراسرار راتیں …تمہیں پتہ ہے____ تم ایک حسین زندگی کا صرف آدھا لطف لے رہی ہو… ایک بے حد حسین کائنات کے صرف آدھے حصے کو تمہاری آنکھیں چھورہی ہیں ____ جب کہ…‘‘

باپ افسردہ تھا…

’’تم نے پریم کیا ہے…؟‘‘

واپس لوٹنے سے قبل باپ کا جملہ نپا تلا تھا… پریم آدھا نہیں ہوتا۔ پریم مکمل ہوتا ہے… اور بیشک تم عمر کے اس حصے میں ہو، جہاں تمہیں پریم کے احساس سے… یعنی میرا مطلب تو تم سمجھ رہی ہونا…

بیٹی ایک لمبی چپ لگاگئی تھی…

لیکن بیٹی کو باپ میں پہلی بار ایک دوست نظر آیا تھا۔

ΟΟ

باپ کی باتیں اس رات بہت دیر تک بیٹی کے کانوں میں گونجتی رہیں ۔ وہ حیرت زدہ کرنے والی باتیں تھیں … کسی بھی باپ کے منہ سے پہلی بار اس طرح کی باتیں اس کے کانوں میں گونجی تھیں ۔ وہ ان جملوں کا ذائقہ ابھی بھی محسوس کرسکتی تھی…

’تم سن رہی ہو،نا اور تمہیں احساس ہونا چاہئے____‘ باپ کا لہجہ کچھ کچھ برف جیسا سرد تھا۔ یعنی دنیا کہاں جارہی ہے ____اور دنیا کہاں تک جاسکتی ہے۔ خوف اور اینتھریکس سے الگ بھی ایک راستہ جاتا ہے… پریم کا راستہ… ہم ہر برس کے خاتمے کے بعد اپنے لئے ایک اینتھریکس کا خوف تلاش کرلیتے ہیں ____ ہے نا کتنی عجیب بات____ اس مہذب دنیا میں اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان ہمیں ڈرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے____ اور تم اپنے آپ کو دیکھو لڑکی… تمہارا چہرہ کیسے ہورہا ہے____ یعنی سچ پوچھو تو کتنی ڈری سہمی دکھائی دے رہی ہوتم____؟

’ہاں ‘ میں ڈر گئی ہوں ۔

باپ چپ تھے… باپ نے صرف اتنا پوچھا۔

اپنے آپ سے…؟

ہاں …

اپنی بڑھتی عمر سے؟

ہاں …

باپ کے ہاتھ کھلونوں کی طرح اپنی انگلیوں سے کھیلتے رہے…

’’کیوں ڈر جاتے ہیں ہم۔ اینتھریکس وہ نہیں ہے جو ہر بار ورلڈ وار کے خطرے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کچھ اور بھی ہے… باپ کے ہاتھ کھیلتے کھیلتے ٹھہر گئے تھے۔ لیکن نہیں … بیٹی! سن رہی ہو نا تم۔ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے… لیکن کیا کروگی… سب ڈر رہے ہیں … جیسے تمہارا چہرہ دیکھ کر لگتا ہے، تم اپنی ماں سے بھی ڈر رہی ہوگی۔ ماں ، جو بیوی بننے تک ایک خوبصورت دنیا میں جیتی ہے اور ماں بنتے ہی ایک Cruel اور ایک کروسیڈر____ اس کے وجود میں پناہ لینے لگتا ہے…‘‘

باپ نے نظر نہیں ملائی… صرف اتنا کہا…

’تمہیں اپنی ماں سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ اپنی ماں کو سمجھانا چاہئے۔‘

ماں

بیٹی اچانک بڑی ہونے لگی تھی____ اور اس بڑی ہونے کے خطرے کو ماں نے بھانپ لیا تھا____ ماں کمانڈوز کی طرح بیٹی کے پیچھے پڑ گئی تھی۔ کہاں جارہی ہو تم____ نہیں ۔ فون ہمیشہ نہیں سننا ہے… اتنی دیر تک کس سے باتیں کررہی تھی…ماں کبھی کبھی اسے شکاری کی طرح گھیر کر بیٹھ جاتی____ ماں ایک فلاسفر کی طرح نان اسٹاپ شروع ہوجاتی… اور اپنی ہر گفتگو میں ماں اتنی اوبائو، اتنی بوجھل باتیں کرتی نظر آتی کہ وہ اندر ہی اندر ایک عجیب سے دکھ کا شکار ہوجاتی۔ اسے، بس یہ الجھن گھیر لیتی کہ ماں اپنازمانہ بھول گئی ہے یا____ ماں … کبھی بیٹی تھی ہی نہیں ۔

’دیکھو تو ____بدن پر کتنا گوشت آگیا ہے۔‘

’زیادہ سونا، لڑکیوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے____ چربی چڑھ جاتی ہے۔‘

’ڈائٹنگ… ڈائٹ کنٹرول… بوائل… سب کچھ بوائل کھانا ہے تمہیں ۔‘

ماں کی ہر بات پر وہ اندر ہی اندر بوائلڈ ہوتی چلی گئی… کبھی ماں ایک چھتنار درخت کی طرح لگتی____ جس کے سایہ میں اس کی زندگی محفوظ ہے۔

لیکن کتنی محفوظ ہے؟

 ماں کیا چاہتی ہے، یہ آہستہ آہستہ اس پر منکشف ہورہا تھا… یعنی ماں اسے دنیا کی نظروں سے بچائے رکھنا چاہتی تھی۔ ایک بے حد خاص موقع کے لئے… بے حد خاص… جیسا کہ اس کی ماں نے سوچ رکھا تھا… ایک بڑی تپسیا اور… ایک دن اچانک اسی، ان چھوئے پودے کو نمائش گاہ میں رکھ دینا۔

یعنی ماں کے لئے، اس کے بڑے ہونے کا عمل، سب کچھ سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق ہورہا تھا… ماں ، اس میں اپنے ’مستقبل‘ کو تلاش کرسکتی تھی۔ یعنی ایک ایسے برائٹ فیوچر کو، جہاں اس کے ساتھ ماں کی تقدیر بھی کھل سکتی تھی۔

’آہ، تم نہیں جانتی!‘

یا پھر…آہ، تمہارے لئے میں نے کیا کیا سوچ رکھا ہے، نادان لڑکی… ماں کے ان جملوں کا مطلب تھا… دیکھتی رہو۔ تمہیں صرف اشارے سمجھنا ہے اور چلنا ہے۔ بس اس سے زیادہ نہیں ۔

ماں نے بہت زیادہ اس کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔ ماں اس سے کہیں زیادہ اس کے بارے میں سوچ سکتی تھی____ لیکن بیٹی____ جیسے ہر بار معصوم چڑیا کی طرح اڑتے اڑتے وہ کسی خوفناک گدھ کو دیکھ لیتی…

ڈائٹ کنٹرول… لیکن نتیجہ کے طور پر کیا برآمد ہوا تھا… آنکھوں میں پڑے گہرے حلقوں میں خواب کہیں گم ہوگئے تھے… کسی مخملی فرش پر کیٹ واک کرنے والے اس کے پائوں تھرتھرانے لگے تھے… ماں اسے لے کر انسٹی ٹیوٹ آف منٹل ہیلتھ اینڈ سروسز گئی تھی۔

ڈاکٹر موانا برا سامنہ بناکر بولی تھی۔ ’تم لڑکیاں … کھانے کو دشمن کیوں بنالیتی ہو…‘

اس نے ماں کو دیکھا۔ ماں نے بیٹی کا ہاتھ دبا دیا۔

’اینوریکسیا۔ وزن میں کمی… ڈاکٹر مونا نے برا سا منہ بنایا____ کیلشیم اور فاسفورس کی کمی سے کیا ہوتا ہے____ جانتی ہو… ہارمون، ڈس بیلنس ہوجاتے ہیں ____ اور امینوریا____ سمجھتی ہونا____ پھر کچھ بھی ہوسکتاہے____ عورتیں بانجھ ہوسکتی ہیں ۔

ΟΟ

’بانجھ ہارمون کا ڈس بیلنس ہونا… بیٹی دکھ گئی ہے۔ زندگی سے کیلشیم اور فاسفورس تو ماں نے لے لئے ہیں … وہ سچ مچ ڈس بیلنس ہوگئی ہے____ نہیں … اس نے توازن کھودیا ہے…وہ لڑکھڑا رہی ہے۔ وہ کبھی بھی گرسکتی ہے… وہ جیسے ایک ٹھونٹھ درخت ہے۔ بانجھ… امینوریا کی شکار…

’’ایک دن جب تم خود کو دیکھو گی تو… ڈاکٹر تو بولتے ہی رہتے ہیں ۔‘‘

اس نے دیکھا۔ ماں کی آنکھوں کی سوکھی پڑی جھیل کو۔ لیکن یہ کیا… اس جھیل میں کوئی ہے… کوئی ہے، جو کیٹ واک کررہا ہے…

کون ہے؟

وہ اس چہرے کو پہچان سکتی ہے۔

ارے، یہ چہرہ تو اس کے خود کا چہرہ ہے____ لیکن یہ چہرہ اتنا مرجھایا ہوا کیوں ہے؟

پہلی بار بیٹی نے اپنا جائزہ لیا تھا۔اپنے جسم میں وہ کتنی ہے… اپنی روح میں ____؟ اپنے وجود میں ____؟اور اپنے آپ میں ____؟

اس نے ماں اور باپ دونوں کو اپنے آپ میں رکھ کر دیکھا____ پھرمطمئن ہوگئی____ باپ کو وقت کہاں تھا اور ماں …  روح سے جسم اور جسم سے وجود تک ماں نے کسی بھی حصے کو____اس کی اپنی آزادی کے نام نہیں کیا تھا… آدھا بھی نہیں ۔ وہ مکمل ماں کے قبضہ میں تھی۔

اس لئے پہلی بار____ باپ کی باتوں میں اسے ایک دوست نظر آیا تھا۔ دوست، جس کے سہارے وہ اپنی جنگ لڑسکتی تھی۔

باپ

لیکن شاید بیٹی ابھی بھی مطمئن نہیں تھی۔ یا پھر بانجھ ہونے کاڈر اس کے اندر کچھ زیادہ ہی بیٹھ گیا تھا… بانجھ۔ عورت کے لئے سب سے بڑی گالی… ایک ایسی گالی، کم وبیش بیٹی جس کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھی… وزن کم کرنے کے لئے وہ امینوریا کی پیشنٹ بننے سے خود کو روکنا چاہتی تھی۔ دراصل بیٹی ، باپ کو آزمانا چاہتی تھی۔ شاید اسی لئے کسی ایک مضبوط لمحہ، وہ چپ چپ باپ کی آغوش میں سر چھپا کر بیٹھ گئی۔ باپ آہستہ آہستہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔

’’میں کچھ بھی کرسکتی ہوں ؟‘‘ ذرا دیر بعد بیٹی کے لب ہلے۔

…’ہاں ۔‘

…’کچھ بھی؟‘

…’تمہیں شک کیوں ہے؟‘

’شک نہیں … ماں کہتی ہے، لڑکی پیدا ہوتے ہی اپنا ایک پنجرہ لے آتی ہے۔‘

باپ ہنسا… ’لیکن تم سے پہلے تمہاری ماں اس پنجرے کو توڑ چکی تھی۔ اس نے لومیرج کی تھی____‘

ماں کہتی ہے ’اس کے باوجود ہم پنجرے میں رہتے ہیں ۔‘

باپ نے مزاحیہ انداز اپنایا____ ’پنجرے میں پنچھی بھی نہیں رہتے!‘

بیٹی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’تو میں کچھ بھی کرسکتی ہوں ۔ اڑ سکتی ہوں ۔ باہر جاسکتی ہوں ۔ ڈسکو۔ تھیٹر، اور…

باپ نے اسے غور سے دیکھا… بیٹی کے کندھے تھپتھپائے____ پھر بولا____ ’سنو بیٹی۔ غور سے سنو… تم پیدا ہوئیں ، ہم نے سکھ تلاش کرلیا… ڈھیر سارا سکھ____ جو تمہارے رونے سے ہنسنے تک____ کلکاری سے سوچنے سمجھنے تک____ بولنے سے شرارت تک____ کھڑے ہونے، گرنے سے انگلیاں تھامنے اور چلنے تک… یعنی تم نے جو دیا، یا جو تم ہر لمحہ دیتی رہی ہو، کسی خزانہ سے بھی زیادہ تھا… ہم تول مول نہیں کرسکتے تھے____ باپ کو تول مول کرنا بھی نہیں چاہئے____ کہ اس زندگی میں بچہ اپنے وجود کے احساس تک جو سکھ دیتاہے____ وہ امید کے خزانے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، ہے نا؟

باپ کو شاید اپنے باپ کی کہانی یاد آگئی تھی۔ یکلخت وہ ٹھہر گیا تھا۔ بیٹی کے ہونٹوں پر معصوم مسکراہٹ تھی۔

’اس لئے بیٹی‘… باپ نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ ’اس لئے جب تم اپنی جوانی کی زندگی شروع کرنے جارہی ہو۔ سمجھ رہی ہونا۔ اپنی اب کی زندگی… تو اس زندگی پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے۔ اپنے حصے کا سکھ ہم لے چکے ہیں اور اس کے بعد کے سکھ پر…‘

’تو پنجرہ…؟‘

باپ لڑکی کے بڑا ہونے کے احساس سے دکھ گیا تھا۔

’پنجرہ کوئی بھی اپنے ساتھ نہیں لایا تھا____ اور سنو بیٹی۔ اب تم بڑی ہوگئی ہو۔ اپنے حصے کے خواب، خوشیاں ____ عمر____ رونا، ہنسنا____ سب کچھ اپنی ممی سے واپس مانگ سکتی ہو____ اور بے شک تمہاری ممی کو تمہیں یہ سب واپس کردینا چاہئے۔‘

اس کے بعد باپ ٹھہرے نہیں ۔ باپ کو آنکھوں میں امڈ آئے قطرے دکھانا گوارہ نہیں تھا۔ باپ واپس لوٹ گئے تھے۔

حسین شامیں

پھر بیٹی نے اڑنا شروع کیا۔

بیٹی کو اب ماں کے پنجرے پر یقین نہیں تھا۔

بیٹی کو اب کسی بھی ایسے پنجرے پر یقین نہیں تھا____

بیٹی کو صرف اور صرف اڑنے پر یقین تھا____

پہلی بار جب وہ رات کو دیر تک ڈسکو تھے کلب سے گھر لوٹی تو ماں اس کے کمرے کے دروازے پر آکر کھڑی ہوگئی____ ماں کے ہاتھوں میں ایک ٹوٹا ہوا پنجرہ تھا۔

’آہ! تمہارے باپ جیت گئے۔‘

’اور اسی لئے تم نے پنجرہ توڑ دیا۔‘

’ہاں … اس پنجرے میں ایک Sea-gullتھا۔ اس ،سی گل کی کہانی سنو گی۔‘

’مجھے کہانیاں اچھی نہیں لگتیں ۔‘

ماں مطمئن تھی… ’کوئی بات نہیں ۔ تم نے اپنے لئے راتیں چُنیں ____ اور رات سے انٹرنیٹ اور ڈسکو تھیے بنالیا____ ہے نا۔ پھربھی تمہیں یہ کہانی سننی ہوگی۔

اس نے نائیٹی پہن لی۔

ماں کی کہانی جاری تھی۔ بے چارہ ننھا سا سی گل____ شام میں جب دوسرے پرندوں کے پر، اڑان سے خالی ہوجاتے تو وہ اپنی اڑان شروع کرتا____ پاگل کہیں کا____ تھوڑی تھوڑی اڑان اور ایک دن…

’تم یہ کہانی پہلے بھی سنا چکی ہو ماں ۔‘

ماں نے پہلے دھیان نہیں دیا… ایک دن جونا تھن، یہی اس سی گل کا نام تھا____ وہ اُڑا اور اپنے ننھے پروں سے آسمان ناپ لیا… اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی____ اتنی اڑان تو اس کے پروجوں میں سے بھی کسی نے آج تک نہیں بھری تھی… اسے یقین تھا۔ وہ واپس لوٹے گا اور اس کی تاجپوشی ہوگی۔ سرآنکھوں پر بیٹھایا جائے گا۔ انعام سے نوازا جائے گا۔

’پورفیلو‘ بیٹی آہستہ سے بولی۔

ماں کی آنکھیں بند تھیں … ’’لیکن اس غریب کو کیا معلوم تھا، دھرتی پر واپس لوٹتے ہی، ضرورت سے زیادہ اڑنے کے جرم میں اسے…‘‘

ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

بیٹی نے سر پر چادر کھینچنے سے پہلے کہا____ ’جواڑتے ہیں ، وہ کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔‘

ΟΟ

انٹرنیٹ پر Chattingسے برآمد لڑکے نے ڈسکو تھے میں ، اچانک اس کے سامنے آکر حیرت زدہ کردیا تھا۔

پھر بیٹی کی شاموں میں ٹوئٹرس کی لاطینی حسین شامیں لکھ دی گئیں … پہلی بار وہ اداس تھی۔

لڑکا زور سے چیخا تھا… ’Cry‘

وہ پھر ذرا سا ہنسا____’ چیخو، چلائو، ناچو۔ بھول جائو کہ عمر کے گھوڑے کی رفتار کیا ہے۔ آگے کیا ہے اور پیچھے کیا ہے۔‘

’بھول گئی۔‘

وہ دیر تک نائٹ اسپاٹ پر تھرکتے رہے۔ لانج میں کچھ دیر ’ڈام موریس‘ کی پوئٹری کا لطف لیا____ پھر کچھ دیر تک ٹوئٹرس کی آرٹ گیلری میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ٹہلتے رہے۔ بیٹی خاموشی سے کمرے کی پیلی چھتوں ، نیلی دیواروں اور پینٹنگس کی آڑی ترچھی لکھیروں کو گھورتی رہی۔ واپس آکر نائٹ اسپاٹ پر دونوں نے ایک ایک پیگ اور لیا۔ ریستوراں کی ڈم لائٹ میں ’چلڈ‘ یعنی ہر طرح کے پروگرام چل رہے تھے… بیٹی نے اپنے جسم کو پورا پورا لڑکے کے بدن پر ڈال رکھا تھا۔ اطالوی کھانے سے فارغ ہوکر دونوں نے ایک دوسرے کو ریستوراں کی ڈم روشنی میں ، چلنے والے چلڈ پروگرام کے حوالے کردیا۔

ΟΟ

رات گہری ہوگئی تھی۔ بیٹی ابھی تک گھر نہیں لوٹی تھی۔ ماں نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا۔

…’دنیا بدل رہی ہے۔‘

’دنیا ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔‘

…’ہمارے زمانے کی دنیا اور تھی؟‘

اس زمانے کی دنیا بھی وہی ہے۔‘

…’کیا ہم اس طرح رات گئے…؟‘

پہلے ہمارے شہر نے اس طرح رات پر قبضہ نہیں کیا تھا۔‘

ماں گھبراہٹ میں ٹہل رہی تھی۔‘

باپ مطمئن تھا۔ وہ اپنی فکر میں ڈوبا تھا۔ یعنی اس عمر میں … اس عمر میں جب کہ اس کی بیوی کو، کوئی بھی ٹینشن نہیں لینا چاہئے…‘ وہ آہستہ سے مسکرایا۔

’بیٹی کو اس کے حال پر چھوڑدو۔‘

’کیوں ؟‘

کیوں کہ اب اس کی آزادی کا دور شروع ہوگیا۔‘

’آزادی؟‘

 ’ہاں ، ایک عمر آتی ہے، جب ہمیں ایک دوسرے کو ازسرنو سمجھنا ہوتا ہے۔ ازسرنو____ سمجھ رہی ہونا… یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب بچے اپنی عمر کے رتھ پر سوار ہوجاتے ہیں … بیٹھو…‘

باپ نے اسے اپنے بانہوں کے حصار میں لیا… اب ہماری اپنی ایک نئی زندگی شروع ہورہی ہے۔ بیٹی کی اپنی… اس عمر کو سمجھنا بڑا کام ہے۔ نہیں سمجھوگی تو بوڑھی ہو جائو گی۔‘

ماں ڈر گئی تھی…

باپ ہنسے… ’’بچوں کی آزادی میں اپنا حصہ نہیں ہوتا____ ان کی عمر کا حصہ ہوتا ہے… بیٹی اپنی آزادی سے بندھی ہے۔ وہ سنبھلتی ہے یا گرتی ہے، یہ اس کا کام ہے۔ ہم نہیں سنبھلے تو؟ یا بچے اور اپنے بیچ ایک دیوار نہیں اٹھائی تو… ہم اچانک بوڑھے ہو جائیں گے۔‘‘

لیکن…وہ بیٹی ہے…

’ہمارا کام ختم…باپ کا لہجہ سخت تھا… ’جتنی خوشیاں ، جتنے سکھ اس سے حاصل کرنے تھے، کرچکے۔‘

’اور اب اسے گرنے کے لئے…‘

باپ مطمئن تھا…’یہ اس کی سمجھ داری پر منحصر ہے‘ باپ نے پھر موضو بدل دیا تھا… ’کل سے میں نے دفتر کا کام کم کردیا ہے۔ جلدی گھر آجایا کروں گا۔ صبح کی چائے ختم۔ ناشتے میں …‘

ماں اب کچھ بھی نہیں سن رہی تھی۔

کھلے دروازے سے بیٹی اندر آگئی تھی۔

بیٹی کی زلفیں بکھری ہوئی تھیں ۔

بیٹی کی آنکھیں …

بیٹی کے پائوں …

بیٹی کا جسم…

باپ نے ماں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا… ’’سوجائو۔ اس نے اپنی آزادی خرید لی ہے۔‘‘

ماں نے سہمے ہوئے میمنے کی طرح خود کو باپ کے حوالہ کردیا۔

خاتمہ

قارئین!

کہانی ختم ہوچکی ہے۔ یا آپ کہہ سکتے ہیں ۔ کہانی کو یہیں پر ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ ایسی کہانیوں کا کوئی خوشگوار انجام نہیں ہوتا ہے۔ ایسی کہانیاں ہر تبدیلی اور تاریخ کے جبر کے ساتھ پیدا ہوتی رہتی ہیں … زندگی نے اپنا دامن وسیع کیا تو لڑکیوں کے لئے سوچ اور فکر کے نئے دروازے بھی کھل گئے… یعنی تاریخ کے اس مقام پر جہاں لڑکیاں آزادانہ اپنے پائوں پر کھڑی ہیں ، ایسی کہانیوں کا انجام یہی ہونا چاہئے کہ…

µ  لڑکی نے اپنی ایک آزاد زندگی کا انتخاب کرلیا۔

µ  لڑکی پھسلتی چلی گئی اور بالآخر اس کی زندگی کا انت ہوگیا… یا

µ  لڑکااسے چھوڑ گیا اور لڑکی نے آتم ہتیا کرلی۔

قارئین!

ایسا کچھ بھی اس کہانی کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے____ جیسا کہ میں نے پہلے کہا____ تاریخ کے اس موڑ پر …اس بے حد اہم موڑ پر… بیٹی اچانک چونکتی ہے۔ جیسے کسی ڈرائونے خواب سے جاگتی ہے اور کئی دن گھر سے غائب رہنے، بدن کے جبر کو سمجھنے کے بعد____ ایک اندھیری صبح… جس وقت سڑک پر اِکا دُکا سواریاں بھی نہیں چل رہی تھیں ____ وہ اپنے گھر کے دروازے پر آپہنچتی ہے۔ اور… بیل پر انگلی رکھتی ہے۔

تو قارئین یہ اس کہانی کا انت ہے… اور اس انت کے لئے میں اپنے آپ کو کتنا مجبور محسوس کررہا ہوں ، یہ میں جانتا ہوں ۔

ΟΟ

بیٹی کی آنکھیں نیم غنودگی میں ڈوبی تھیں ۔ قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ باہر کہرا چھایا ہوا تھا۔ اس کا بدن ابھی بھی اطالوی جن کے دھویں سے بھرا تھا۔سردی بڑھ گئی تھی۔ بیل بجانے والے ہاتھ سردی سے ٹھٹھر گئے تھے۔ اسے غصہ آرہا تھا۔ سب کہاں مر گئے۔ بیل کی آواز سن کر کھولنے کے لئے کوئی آتا کیوں نہیں …

اس نے قدموں کی آہٹ سنی…

’آزادی…‘ اسے باپ کے لفظ اب بھی یاد تھے۔ اپنے حصے کا سکھ ہم لے چکے ہیں اور اس کے بعد کے سکھ پر…‘

وہ باپ سے لڑائی کرنے آئی تھی… نائٹ اسٹاپ کی رنگینیاں اچانک تھم گئی تھیں ۔ ڈسکوتھیے کے Cry,Cry نغموں نے اسے لہولہان کردیا تھا۔ Chattingسے برآمد لڑکے نے اس کے بدن پر ہزاروں خونی لکیریں کھینچ دیں ____ اور ایک نیپالی لڑکی کے ساتھ کسی دوسرے ٹوئٹرس کے چلڈ پروگرام میں کھوگیا تھا…

بیٹی نیند سے جاگی تو ماں کا پنجرہ ٹوٹا ہوا اس کے بازو میں پڑا تھا… وہ چیخنا چاہتی تھی… وہ لڑنا چاہتی تھی۔ پیسے ختم ہوگئے تھے…

وہ کئی دنوں سے گھر سے غائب تھی۔

اسے امید تھی۔ گھر پہنچتے ہی، جذباتی پاگل پن کے مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔ شاید باپ نے پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کی ہو____ ماں کی آنکھیں روتے روتے سوج گئی ہوں اور…

ایک بے حد سرد صبح، کہرے میں ڈوبی ہوئی صبح… وہ گھر پہنچے گی اور…

’کیلشیم فاسفورس… ماں بولے گی… وہ اسے ایک بے حد خاص موقع کے لئے تیار کررہی تھی…

باپ کہیں گے… تم کہاں چلی گئی تھیں بیٹی۔

اور ماں … وہ اس جذباتی لمحے کی منتظر ہوگی، جب وہ اس کے بازوئوں میں گم ہو جائے گی…

ΟΟ

کوئی آرہا ہے… قدموں کی آہٹ… بیٹی کا جسم سردی سے تھرتھرا رہا ہے۔ دروازہ کھولنے کی آواز… باپ نے لائٹ آن کردیا ہے۔ دروازہ کھولنے والی ماں ہے۔ لیکن…

وہ اچانک ٹھٹھک گئی ہے____

کیا یہ ماں ہے۔ سچ مچ ماں ہے۔ ماں ہے تو ماں جیسی کیوں نہیں لگ رہی۔ ماں اپنی عمر سے کتنی چھوٹی ہوگئی ہے۔ چھوئی موئی سی۔ اس کے چہرے پر، بیٹی کو لے کر مستقبل کے اندیشے یا فکر کی جھریاں نہیں ہیں ____یہ کوئی اور ہی ماں ہے____ تروتازہ____ ابھی ابھی جوان ہوئی اور لباس تو دیکھو… ریشمی ساڑی۔ چہرے پر اتنا نکھار…

پیچھے باپ کھڑے تھے… ہمیشہ کی طرح اسمارٹ… اس وقت کچھ زیادہ ہی جوان…

ماں کی آنکھوں میں حیرانی امڈتی ہے…

’کون؟‘

باپ کی آواز میں نشہ سا ہے…

’کون؟‘

’’  4؍اسکیم پارلے____ مائونٹ روڈ سے ذرا آگے____ تھرڈلین۔ مسٹر آئی جے کے… ریسیڈینس نمبر…‘ کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی ہے۔ ’’ایک زمانہ میں یہاں ان کی بیٹی رہتی تھی۔‘‘

 ماں نے پیار سے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا____

’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے… اب وہ یہاں نہیں رہتیں …‘

بیٹی نے انجانے راستوں پر ٹھٹھرتی ہوئی کہرے کی اس صبح، اپنے قدموں کو ڈالتے ہوئے ماں کا جملہ پورا کیا…

’کیوں کہ اس نے اپنی آزادی خریدلی ہے۔اب وہ کہیں اور رہتی ہے۔‘

تبصرے بند ہیں۔