تم ہی بتاؤ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
حفیظ نعمانی
ایک بزرگ رشتہ میں بہت بڑے مگر دوسری ماں کے آنے کے بعد باپ کی نگاہ سے ایسے اُترے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ دوسری بیوی کے آنے کے بعد پہلی بیوی کی اولاد سامنے کھڑی ہونے کے باوجود باپ کو نظر نہیں آتی۔ اس کی تکلیف اس لئے زیادہ تھی کہ باپ دنیا دار نہیں دیندار تھے اور پھر انہوں نے جہاں بھی ایسے رشتے دیکھے وہاں یہی حالت دیکھی۔
لکھنؤ میں ہمارے ایک محترم دوست جن کے بڑے بیٹے ہم سے کافی چھوٹے ہونے کے باوجود ہمارے دوستوں میں سے ایک تھے وہاں بھی دوسری ماں اور ان کی اولادوں کا مسئلہ تھا۔ چھوٹی بیگم کی اولاد جب بڑی ہوگئی تو ترقی کرکے ایک ڈاکٹر بھی ہوگیا۔ دوسرے کا مستقبل بھی سنور گیا۔ جس مکان میں سب رہتے تھے وہ دادا کا تھا اور سب سے قیمتی بازار میں لب سڑک تھا جس کے نیچے بڑی بڑی دکانیں تھیں۔ پہلی بیوی کی اولاد جب بال بچوں والی ہوئی تو مسئلہ رہائش کا پیش آیا۔ سب سے بڑے بیٹے نے ایک کرایہ کا مکان لے لیا پھر کالونی میں ایک چھوٹا مکان خریدنے کی خواہش کی اور ان کی نظر ہمارے اوپر پڑی جو اُن کا دوست بھی تھا اور ان کے باپ کا بھی۔
ہم نے بہت سنجیدگی سے مسئلہ کو سامنے رکھا۔ ہمارے محترم دوست کو خوشی ہوئی کہ درمیان میں ہم ہیں۔ انہوں نے مختصر سی گفتگو کے بعد کہا کہ میں ایک لاکھ روپئے تمہیں دے رہا ہوں یہ تم ان کو دے دو۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا مکان کی قیمت میں اس کا حصہ ایک لاکھ ہی بنتا ہے؟ اور کیا کالونی میں کوئی بھی مکان ایک لاکھ میں مل سکتا ہے؟ ان کا جواب تھا کہ باقی انتظام وہ کہیں اور سے کرلیں۔ ہم نے عرض کیا کہ کسی ماہر سے معلوم کرانا چاہئے کہ اس مکان کی قیمت کیا ہے؟ اس کے بعد چار بیٹوں اور دو بیٹیوں میں تقسیم کرکے جو ایک بیٹے کا حصہ بنتا ہو وہ دینا چاہئے۔ بہت لمبی چوڑی بات کے بعد حاصل وہی تھا کہ پہلی بیوی کی اولاد سامنے ہونے کے باوجود نظر نہیں آتی۔ وہ ایک لاکھ سے آگے سوچنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔
اور یہ بچوں کی بدنصیبی تھی کہ بڑے بیٹے کا جوانی میں ہی انتقال ہوگیا اور پوتے ناحق ہوگئے۔ اور جب جنازہ اٹھانے کے لئے ہم اور ہمارے محترم دوست دوسرے دوستوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے تو مکان کہے جانے والے اس دربے کو دیکھ کر ہر کوئی مرحوم کے باپ کو دیکھ رہا تھا جو 50 لاکھ کے مکان میں رہتے ہیں۔ اور وہ کسی سے آنکھ نہیں ملا پارہے تھے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی مثالیں ڈھونڈنے کے لئے موٹے شیشوں کا چشمہ لگانا پڑے۔ بس دور کے بجائے قریب جاکر دیکھنا پڑے گا۔
سماج وادی پارٹی کے بارے میں چار دن پہلے تک یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ صرف ملائم سنگھ کی شخصیت کے بل پر میدان میں اُترے گی۔ ہر کسی کو یقین تھا کہ اکھلیش یادو ضرور سامنے ہوں گے کہ انہوں نے ساڑھے چار سال میں کتنا وکاس کیا ہے؟ رہی بات قومی ایکتا دل کی تو ملائم سنگھ کا یہ انداز بالکل سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر قومی ایکتا دل کا انضمام ہورہا تھا تو وزیر اعلیٰ کو پہلے باخبر کیوں نہیں رکھا گیا؟ اور جب انضمام ہوگیا تو اکھلیش کے کہنے سے اسے ختم کیوں کردیا؟ اور جب ساری تلخ باتیں ختم ہوگئیں تو پھر انضمام کیوں ہوا؟ اور جن دو وزیروں کو بدعنوانیوں کے الزام میں نکالا گیا تھا تو ان کو واپس لینے کے لئے کیوں دباؤ ڈالا گیا؟ ان باتوں سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اکھلیش یادو کو قدم قدم پر دکھایا جارہا تھا کہ تم اپنے بل پر نہیں ملائم سنگھ کے بنائے ہوئے وزیر اعلیٰ ہو۔
یہ بات شاید ہی کسی صحافی نے لکھی ہو کہ اکھلیش اپنے بل پر وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ ہم نے بھی جب لکھا یہی لکھا کہ 2012 ء میں ووٹ ملائم سنگھ کو ملا تھا اور مس مایاوتی سے مسلمانوں کو تو یہ شکایت تھی کہ ان کی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے جس مسلمان کو چاہا اور جیسے چاہا اٹھا لیا۔ ڈاکٹر طارق، مولوی خالد شہید اور نہ جانے کتنے لڑکوں کو اٹھایا۔ اور کئی کئی دن غائب رکھا پھر دکھایا بارہ بنکی کے اسٹیشن پر اور ان کے پاس تباہی کا وہ سامان دکھایا جس کا وہ غریب نام بھی شاید نہ جانتے ہوں۔ اور ان کی زندگی برباد کردی لیکن مس مایاوتی صرف اور صرف پیسے کمانے میں لگی رہیں۔ کسی سے یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ یہ پکڑے اگر 5تاریخ کو ہیں تو 12 تاریخ کو عدالت میں کیوں پیش کرتے ہیں؟ درمیان میں انہیں کہاں رکھتے ہیں؟ اور ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟
2012ء میں ملائم سنگھ کو معلوم تھا کہ صوبائی حکومت ایسی دفعات میں بند لوگوں کو رہا نہیں کراسکتی۔ اور مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ مولوی خالد کا انتقال ہوگیا۔ اور کوئی رہا نہیں ہوسکا۔ لیکن مسلمانوں کو یہ بھی یاد ہے کہ ملائم سنگھ کی حکومت میں مرکزی حکومت کی کسی خفیہ ایجنسی کے بیج نے ندوہ میں چھاپہ مارا تھا اور گولی بھی چلی تھی۔ حضرت مولانا علی میاں نے ملائم سنگھ سے رابطہ کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ دہلی جارہے ہیں اور اس وقت ایئرپورٹ پر ہیں۔ مولانا کا خط لے کر ایک آدمی ایئرپورٹ گیا۔ ملائم سنگھ نے اپنے ڈی. جی. کو حکم دیا کہ فوراً دیکھیں کہ کیا بات ہے؟ اور جو بھی ہو سب کو بند کردیں۔ ملائم سنگھ کا ایک کردار یہ بھی ہے اور اسی کا اثر ہے کہ 2012 ء سے اب تک اگر کوئی چھوٹا نہیں تو کوئی گرفتار بھی نہیں ہوا۔
ملائم سنگھ اگر الیکشن کے بعد یہ فیصلہ کرتے کہ وزیر اعلیٰ اکھلیش نہیں ہوں گے تو پارٹی کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔ اب شیوپال کا یہ کہنا کہ پارٹی جیتی تو میں نام پیش کروں گا۔ راجندر چودھری کا یہ کہنا کہ اکھلیش پارٹی کو مافیا سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ رام گوپال یادو کا ملائم سنگھ کو لکھنا کہ اکھلیش تک وزیر اعلیٰ کا چہرہ اکھلیش کا ہی رہنے دیا جائے اور اکھلیش یادو کا یہ فیصلہ کہ وہ پارٹی کے دفتر میں قدم بھی نہیں رکھیں گے۔ اور چوراہوں پر یہ چرچے کہ الیکشن اپنی پارٹی الگ بناسکتے ہیں۔ پورے صوبہ میں ایک بحران پیدا کررہا ہے۔
اگر باپ بیٹوں کا موازنہ کیا جائے تو ملائم سنگھ تو ساکشی مہاراج، کلیان سنگھ اور اقتدار کے لئے نہ جانے کس کس سے مدد لے چکے ہیں اور اکھلیش یادو نے ڈی پی یادو کو اس وقت نہیں آنے دیا جب وہ بھی ایک طاقت تھے اور اب مختار انصاری کے نام پر سب سے لڑلئے جبکہ مختار انصاری مافیا ڈان ہیں نہیں انہیں ملائم سنگھ نے ہی بنایا ہے۔ اور مؤ کے فساد کے بارے میں ملائم سنگھ کا کردار اور ان کے افسروں کا رویہ مسلمانوں کو خون کے آنسو رلا چکا ہے۔ ہم اپنی رائے کو نہ حرفِ آخر کہہ سکتے ہیں نہ سب سے زیادہ معتبر لیکن اگر مسلمانوں کو باپ بیٹے میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ شاید بیٹے کی طرف جائیں گے۔ کیونکہ بہار میں جاکر بھی ملائم سنگھ نے جو ڈرامہ کیا اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ نتیش کمار اور لالو یادو اجیت سنگھ جیسے کمزور گھوڑے پر بھی داؤ لگانے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اگر انہیں اکھلیش جیسا ڈربی ریس کا گھوڑا مل گیا تو وہ تو جان لڑا دیں گے۔ اور انہیں وہ بھی مل سکتا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور ملائم سنگھ پر جس طاقت کا دباؤ ہے وہ طاقت حکومت کا جانا بھی برداشت کرسکتی ہے اور پارٹی کا ٹوٹنا بھی۔ مگر اکھلیش کو مزید پانچ سال وزیر اعلیٰ بنا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ اور ملائم سنگھ اپنے وقت میں چاہے کتنے ہی بڑے پہلوان رہے ہوں اس وقت جس پہلوان سے مقابلہ ہے اس سے وہ کچھ بھی کرلیں جیت نہیں سکتے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔