ہندو مسلم اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت

محمد ظفر اقبال

ہندوستان جنوبی ایشیا کا ایک سر سبزو شاداب ملک ہے۔ قدرتی طور پر اس ملک میں بے شمار معدنیات ٬سر سبز و شاداب زمینی حصے٬ندیاں اور فلک بوس پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ اس ملک کی حفاظت کے لیے اس کے تین اطراف میں پانی ہی پانی ہے جبکہ اس کے شمال میں ہمالیہ جیسا پہاڑ نہ صرف اس ملک کی حفاظت کے لیے کھڑا ہے بلکہ اس ملک کے وسیع و عریض علاقے کو سیراب بھی کر رہا ہے۔ ہندوستان میں پائی جانے والی اکثر و بیشتر ندیوں کا سرا اسی پہاڑ سے جا ملتا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جزیرہ نمائے ہند میں مانسون کا ماحول پیدا کرنے میں بھی اس پہاڑ کا نہایت ہی اہم رول ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک جنگلات کی دولت سے بھی مالامال ہے۔اس ملک کے کل رقبہ کا تقریبا ۲۲ فی صد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔جہاں کثیر تعداد میں چرند پرند اور درند پائے جاتے ہیں ۔جو نہ صرف ہندوستان کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہیں بلکہ انسانی زندگی کو خوشگوا ر ماحو ل فراہم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں یہ ملک نہ صرف قدرتی وسائل سے مالامال ہے بلکہ صنعتی اور زرعی میدان میں بھی خود کفیل ہے۔اس پر مستزاد یہاں کی رنگارنگ تہذیب ٬ تنوع میں اتحاد٬ آپسی بھائی چارگی ٬ روحانیت کادرس ٬ اخلاقی اقدار ٬ اور انسانیت دوستی پوری دنیا میں معروف و مشہور ہے۔ اس ملک سے دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں بھی وابستہ ہیں۔
تاریخ کی مدد سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کے اصل باشندے یہاں کے جنگلی اور پہاڑی لوگ ہیں جو ابھی ملک کے مختلف خطوں پر بسے ہوئے ہیں ۔ باقی ساری قومیں اس کی زرخیزی سے متاثر ہو کر دنیا کے الگ الگ حصوں سے کوچ کر کے آ ئی ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے اس با ت کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے اس ملک میں قدم رکھا وہ آ ریائی قوم ہے جو مرکزی ایشیا سے کوچ کر کے یہاں آ ئی ۔ اس قوم نے پنجاب کے علاقے میں اپنا قبضہ جمایا اور بزور طاقت وہاں کے باشندوں کو ہندوستان کے نشیبی علاقے کی طرف ڈھکیل دیااور ہمیشہ کے لیے اس ملک کو اپنا وطن بنا لیا ۔ اسی طرح نویں صدی میں مسلمانو ں کے دور عروج میں کئی مسلم حکمرانوں نے اس کی طرف رخ کیا۔تقریبا سارے حکمرانوں نے اسی کو اپنا دائمی مسکن بنا لیا ۔اپنی ساری محنت اس ملک کی حفاظت اور اس کی ترقی میں لگا دیا اور ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو مضبوط سے مضبوط تر کیا ۔ اس کے بعدچودہویں صدی عیسوی سے مختلف یورپی اقوام نے اس ملک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا شروع کیا حتی کہ سولہویں صدی کی ابتدامیں برطانوی فوج تجارتی قافلے کے ساتھ داخل ہوئی ۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ نقصان اسی قو م سے ہوا۔ اس قو م نے تجارتی مراکز قائم کر نے کے بہانے اس ملک کے کئی حصوں میں اپنے فوجی اڈے قا ئم کئے اور دھیر ے دھیرے اس ملک کی زما م حکومت کو اپنے قبضے میں کر لیا ۔ حکومت پر قابض ہو تے ہی آ نا ً فاناً یہاں کی ساری دولت کو برطانیہ منتقل کر نا شروع کردیا ۔ نتیجةً دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک تباہی کی طرف جانے لگا ٬ یہا ں کی پیدا وا ر کم ہو گئی اور پورا ملک بے روزگاری اور قحط سالی سے دوچا ر ہو نے لگا۔ اس قو م نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ اس نے حیوانیت کے سارے حدوں کو پا ر کر تے ہوئے کسانو ں کو زرخیز زمین سے غلے کی کھیتی کر نے سے روک دیا اور اس کی جگہ ان غریب اور بدحال کسانوں سے تجارتی کاشت کرایا جانے لگا ۔ اس پر ستم یہ کہ ٹیکس کا ایسا جابرانہ نظام قائم کیاگیا کہ کسانوں کی کمر ٹوٹ گئی ۔ لہذاصرف بنگا ل میں ایسی قحط سالی آ ئی کہ لا کھو ں شہری بھو ک اور بیماری کی تاب نہ لا کر موت کے منہ میں چلے گئے ۔
ہندوستان کے لیے یہ سب سے بدترین دور تھا ۔ برطانوی حکومت کی ناپاک عزائم اور خونچکاں پالیسیوں نے اس ملک کو ہر میدان میں کئی سال پیچھے ڈھکیل دیا ۔ سما ج میں قتل و غارتگری ٬ لوٹ کھسوٹ ٬ ظلم و ستم ٬ ڈاکہ زنی ٬ فحاشی و بے حیائی پھیلنے لگی٬ ہندوو مسلم کے ما بین مذہبی نفرت کے بیج بو کر ہمیشہ ہمیش کے لئے اس ملک کو کمزور کر دیا گیااور مذہبی جذبات کا سہارا لے کر ایک کو دوسرے کے خلا ف لاکر کھڑا کردیا گیا ۔لہذا معا ملہ اس قدر پیچیدہ ہو تاگیا کہ اس ملک کے دو آ نکھ کہے جانے والے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو ملک کے لیے خطرہ اور اپنا جانی دشمن سمجھنے لگے ۔ انگریز اپنے شیطانی عزائم میں کا میاب ہوتا چلا گیا ۔ لہذا ہندوستانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ حکمرانوں نے عو ام کے مذہبی جذبات کا سہا را لے کر اور پروپیگنڈے کے ذریعے سما ج کو بانٹ کر سیاست کر نا شرو ع کر دیا ۔جو آ ج آزادی کے 68 سال بعد بھی جاری ہے۔ جس کی جھلک آئے دن ہندو مسلم فساد کی شکل میں سامنے د کھائی دیتی رہتی ہے جو ملک کو کمزو ر سے کمزور تر کر تا جا رہا ہے۔ آ پسی نفرت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔ غربت ‘ بے روزگاری ‘ فرقہ وارانہ تشدد‘ظلم ‘ نا انصافی اور برائی اپنی جڑیں مضبوط کر تی جارہی ہے ۔ ہر طبقہ اپنے علا وہ سب کو غدار وطن سمجھ رہا ہے ۔ لہذا تنوع میں اتحاد‘مختلف تہذیبو ں کا محافظ اور گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ کہا جا نے وا لا ملک اپنی ساری خوبیوں کو کھوتا جا رہا ہے ۔ سما ج میں امن و سکون کی بات کرنے والے لوگ خو د افواہوں او ر غلط فہمیوں کا شکا ر ہورہے ہیں۔
یعنی سماج میں و ہ سا ری کمزوریاں پیدا ہو تی جا رہی ہیں جو ایک آ زاد قو م کو غلا م بنا نے کے لیے درکار ہے ۔جبکہ اس ملک کی تعلیمی ‘ معاشی اور اقتصادی حالت کو مزیدبہتر بنانا ‘مساوات اور امن کی فضاقائم کر نا اور نوجوانوں میں اپنے ملک کے تئیں مثبت نظریہ اور اعتماد کی صورتحال پیدا کرناوقت کی سب سے بڑی ضرو رت ہے۔ کیونکہ نوجوان طبقہ میں مایوسی کی فضا بڑھتی جا رہی ہے ۔ بے روز گاری ملک کی پیشانی پر بدنما داغ بن چکا ہے ۔ اور ان تما م کمیو ں کا ذمہ دار کہیں نہ کہیں خود عوام ہے۔ اس لیے کہ حکومت بھی عوام ہی کی منتخب کردہ ہے ۔ لہذا اگر ہم حقیقتا ً اپنے ملک کے تئیں وفادار ہیں اور ہندوستانی قوم کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہم سب عوام کو اپنے ہاتھوں میں امن و شانتی کا چراغ لے کرآ گے آنا ہوگا اور پوری طاقت سے مذہب و ملت کے امتیاز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظلم ‘ تشدد‘ ناانصافی ‘غربت ‘ بے روزگاری‘ تعلیمی پسماندگی اور فرقہ واریت کے خلا ف علم بغاوت بلند کر نا ہوگا تاکہ پھر سے یہ ملک امن و آشتی کا گہوارہ اور سونے کی چڑیا بن سکے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔