جے.این.یو کو دادری بنانے کی کوشش

عزیر احمد

وہ سائنس کا اسٹوڈنٹ ہے, کمرے میں بیٹھ کے کتابوں میں سر کھپائے ہوئے اپنی پڑھائی میں مشغول ہے, ہاسٹل میں الیکشن کی سرگرمیاں عروج پہ ہیں, امیدوار بار بار کمرے میں آکے اپنا پرچار کر رہے ہیں, اس کی پڑھائی ڈسٹرب ہورہی ہے, اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے, آخرکار اس کا فرسٹریشن ایک امیدوار پہ نکل جاتا ہے, غصہ کے ساتھ پوچھتا ہے, کیا ہے یہ, اور اس کے ہاتھ میں موجود مینفیسٹو کی طرف اشارہ کرتا ہے, امیدوار کو لگتا ہے کہ یہ اس کے ہاتھ میں پہنے ہوئے دھاگے کی طرف اشارہ کرکے اس کے مذہب پہ اٹیک کر رہا ہے, وہ اس کو گالی دینا شروع کرتا ہے, اسے ملا, پاکستانی اور غدار کہتا ہے, اتنے ہی پہ بس نہیں کرتا, وہ اپنا فون اٹھاتا ہے, اور تیس پینتیس غنڈوں کو بلاتا ہے, سب اس کو مل کے مارنے لگتے ہیں, ہاسٹل کے دیگر افراد کو اس کی بھنک لگتی ہے, بھاگ کے اس کو بھیڑ کے چنگل سے بچاتے ہیں, ہاسٹل وارڈن اور چیف سیکورٹی کو فون کرتے ہیں, اور ان کے آنے تک اس کو کمرے میں بند کردیتے ہیں, باہر جمع بھیڑ بار بار دروازہ توڑنے کی کوشش کرتی ہے, پھر وارڈن آتا ہے, اور لڑکے کو کمرے سے نکال کر اس کے آفس تک پہونچانے کے لئے کہتا ہے, لڑکے کے کمرے سے وارڈن کے آفس تک تقریبا 100 میٹر یا اس سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہوگا, کمرے سے نکالتے ہی سیکورٹی کے ذمہ داران, اور وارڈن کی موجودگی میں غنڈے اس پہ حملہ کرتے ہیں, راستے کی لائٹ بند کردیتے ہیں, اسے لاتوں سے, گھونسوں سے, ہتھیاروں, اور ڈنڈوں سے مارتے ہیں, اور اسے جان سے مار دینے کی کوشش کرتے ہیں, کسی طرح سے گرتا پڑتا وارڈن کے آفس تک پہونچتا ہے, وہاں پہونچ کے یہ غنڈے وارڈن سے کہتے ہیں, صرف پانچ منٹ دیدو, ہم اس کا خاتمہ کردیں گے, اسے گالیاں دیتے ہیں, بار بار جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں, پھر کسی طرح اس دن معاملہ سلجھ جاتا ہے.

دوسرے دن تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ اپنی ماں کو فون کرتا ہے, اور ان سے ملنے کے لئے کہتا ہے, پھر اس کے آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے روم سے غائب ہوجاتا ہے, اس کا لیپ ٹاپ آن ہوتا ہے, اس کی موبائل, اس کا والیٹ, اس کا چپل, جوتا, سب کچھ کمرے میں موجود ہوتا ہے, صرف وہ کمرے سے غائب ہوتا ہے, آج تین دن ہونے کو ہیں, ابھی تک اس کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے, اس کی ماں روتے روتے بے حال ہوچکی ہے, ان گنت مرتبہ بے ہوشی کی سرحد میں داخل ہو چکی ہے, اس کے بھائی کے چہرے پہ لاچاری اور بے بسی ثبت ہوکے رہ گئی ہے, اس بندے کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا, کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے.
پھر شام کو اسی ہاسٹل کے کامن روم میں ایک خون سے لکھی ہوئی تحریر ملتی ہے, "All Muslims Are Terrorist” سارے مسلمان دہشت گرد ہیں, اور اسی ہاسٹل کے باتھ روم میں بھی یہ تحریر ملتی ہے کہ سارے مسلمان, غدار اور پاکستانی ہیں.

یہ کہانی ہے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سائنس کے اسٹوڈنٹ نجیب کی, یونیورسٹی کے ماہی مانڈوی ہاسٹل میں وہ سکونت پذیر تھے, ABVP کے غنڈوں سے بحث ہوتی ہے, وہ لوگ جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں, اور پھر سب کے سامنے جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں, اور جو لوگ ساتھ دیتے ہیں ان کو بھی دیکھ لینے کی دھمکی دیتے ہیں, پھر فائنلی وہ روم سے پر اسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں.

جے.این.یو میں ایسا ہوجائیگا کبھی سوچا نہ تھا, ایسی یونیورسٹی جو اخلاق کے قاتلوں کے خلاف لڑائی لڑتی ہے, روہت ویمولا پہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچاتی ہے, جہاں سوشل جسٹس اور ایکوالٹی کی ہوائیں چلتی ہیں, جہاں لوگ مذہب نہیں دیکھتے, صرف انسانیت کی بات کرتے ہیں, جہاں ڈیبیٹ اور بحث و مباحثہ کا رواج ہے, سیاسی اختلاف ہونے کے باوجود لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں, ماحول کتنا ہی گرم کیوں نہ ہوجائے, کوئی کسی پہ ہاتھ نہیں چھوڑتا, اسی یونیورسٹی میں یہ حادثہ وقوع پذیر ہوجائیگا, کسی اسٹوڈینٹ کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا.

یہ حکومت جب سے منظر عام پہ آئی ہے, غنڈوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے, کبھی اخلاق کو قتل کرتے ہیں, کبھی گجرات میں دلتوں کی پٹائی کرتے ہیں, کبھی ٹرک ڈرائیوروں کو مارتے ہیں, کبھی ٹرینوں میں, کبھی اسٹیشنوں پہ, سیدھے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ جب سے یہ حکومت بنی ہے, ملک میں لڑائی, جھگڑا اور فساد برپا ہے, عام لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے, لوگوں کے توقعات خاک میں مل چکے ہیں, لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہیں, ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کب, کہاں, کس وقت بھیڑ جمع ہوجائے اور ماردے, ابھی تک تو یونیورسٹیاں محفوظ سمجھی جاتیں تھیں, اب وہ بھی محفوظ نہ رہیں, اور وہ بھی جے.این.یو جیسی یونیورسٹی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے, اگر ہندوستان میں کہیں اصل جمہوریت موجود ہے تو وہ جے.این.یو میں ہے, جہاں حکومت کے خلاف بولنے کی آزادی ہے, لکھنے کی آزادی ہے, جہاں پوچھنے کی آزادی ہے, جہاں لڑنے کی آزادی ہے, اس میں اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے.

واقعی جے.این.یو میں اس طرح کے واقعہ کا پیش آنا نہایت ہی تکلیف کی بات ہے, اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اس کے ایڈمنسٹریشن کا رویہ ہے, تین گزر گئے, ابھی تک انہوں نے ایف.آئی.آر نہیں درج کرائی ہے, اور نہ ہی کسی اس کی بازیابی کی سیرئس کوشش کی ہے.

اس کے علاوہ میڈیا کا رویہ بھی کافی تکلیف دہ ہے, جس میڈیا نے 9 فروری کے حادثے کی ایک ایک پل رپورٹنگ کی تھی, جن کے کیمرے چوبیس گھنٹے آن رہتے تھے, ہر ایرو غیرو نتھو خیرو سے بحث کراتے پھرتے تھے, ان کو حادثے کی ابھی تک بھنک نہیں لگی, اور لگے بھی کیسے, اس معاملے میں حکومت کے پروردہ غنڈوں کا جو ہاتھ ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔