تم ہی بتائو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے!
حفیظ نعمانی
ہمیں نہیں معلوم کہ مودی جی اپنی وزارت میں جب کسی کو شامل کرتے ہیں تو اس کے اندر کون کون سی خوبی دیکھتے ہیں ۔ کیا یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ چلتا کیسے ہے، بیٹھتا کیسے ہے، کام خود کیسے کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کیسے کراتا ہے؟ یا یہ بھی دیکھتے کہ وہ بولتا کیسے ہے اور اپنی بات دوسروں تک پہونچاتا کیسے ہے؟
سیاحت کے وزیر کے بارے میں ہم بتا نہیں سکتے کہ وہ پہلے سے وزیر تھے یا اب جو ردّو بدل ہوا ہے اس کا تحفہ ہیں ۔ بہرحال وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ایسے محکمہ کے وزیر رہیں جس کا تعلق پوری دنیا کے ہر ملک اور ان ملکوں میں بسنے والے مختلف طبقوں سے ہو۔ وہ جس لٹھ مار انداز میں جواب دیتے ہیں وہ تیسرے درجہ کے کلرکوں کا انداز ہے وزیر کا نہیں ۔ جب پورے ملک میں شور ہوا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی آج بھی وہی قیمت ہے جو 2014 ء میں وقت تھی جب مہنگائی سے پریشان ہوکر کانگریس کو ہٹایا تھا اور مودی سرکار بنائی تھی تو فرق کیا ہوا؟ اور اس سے زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ 2014 ء کے مقابلہ میں عالمی مارکیٹ میں کچے تیل کی قیمت آدھی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے آج ملک کے اندر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت آدھی ہونا چاہئے تھی۔
عام آدمی کو شکایت وزیر اعظم سے تھی اور تیل کی وزارت کو اس کا جواب دینا تھا لیکن وزیر سیاحت کا جواب کہ ’’کار اور بائیک والے بھوک سے نہیں مرے جارہے ہیں ‘‘ اتنا اوندھا جواب ہے کہ اگر کوئی سخن فہم وزیراعظم ہوتا تو انہیں وزارت سے ہی نہیں پارلیمنٹ سے بھی باہر کردیتا۔ بہت پرانی بات ہے کہ فرانس میں کبھی قحط پڑگیا تھا ننگے بھوکے عوام نے رانی کے محل پر چڑھائی کردی رانی نے معلوم کیا کہ کیا پریشانی ہے؟ عوام نے کہا روٹی نہیں ملتی تو بھولی رانی نے جواب دیا تھا کہ تو پھر کیک کھائو۔ بچپن میں جب یہ سنتے تھے تو ہنسی آتی تھی اور یہ جواب اس وقت دیا تھا جب سیاست اور جمہوریت نہیں تھی۔
وزیر سیاحت سے پہلے پیٹرولیم کے وزیر دھرمیندر پردھان بھی کہہ چکے ہیں کہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے لئے حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ شری پردھان ہوں یا کناتھم سوال یا شکایت ان سے نہیں کی گئی تھی اور نہ ان کے کہنے سے کسی نے ووٹ دیا تھا۔ ان دونوں وزیروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مطالبہ اور شکایت اس سے کی جاتی ہے جس نے مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے اسی وعدہ پر سب نے ووٹ دیئے تھے۔ اب مودی جی کی خاموشی اور للو پنجو کے جواب کی قیمت مودی جی کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔
وزیراعظم کا یہ تو اپنا اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے وزیر بنائیں لیکن پارلیمنٹ کا ایک کمرہ ایسا بھی ہونا چاہئے جس میں مسز سوشما سوراج اور وزیر اطلاعات و نشریات اسمرتی ایرانی اور نقوی ایسے وزیروں کو بات کرنا سکھائیں ۔ ہوسکتا ہے وزیروں میں کوئی ایسا ہو جس نے پڑھا ہو کہ ایک زمانہ میں بڑے گھرانے کے بچوں کو تمیز اور تہذیب سیکھنے کے لئے مشہور طوائفوں کے گھروں میں بھیجا جاتا تھا اور یہ تو جو زبان کی شیرینی اور اس کی نزاکتوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ زبان پر کتنی بحث ہوتی تھی دہلی اسکول، لاہور اسکول، لکھنؤ اسکول اور دکن اسکول اپنے اپنے لہجہ اور زبان پر فخر کرتے تھے اور بحث اس پر ہوتی تھی کہ یہ لفظ کیسے بدلا جائے اور کس سوال کا جواب کون دے؟
وزیر اعظم پر وزیر سیاحت کا یہ جواب سن کر کیا گذری یہ تو وہ جانیں لیکن جو زبان سے واقف ہیں وہ یہ ضرور معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ 2022 ء سے پہلے پہلے ہر سر کے اوپر اپنی چھت اور ہر گھر میں شوچالیہ اور ہر پیٹ کو دونوں وقت روٹی کا وعدہ کرتے وقت نریندر مودی نام کے اُمیدوار نے یہ ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ ان کا خرچ ملک کے کار اور بائیک والوں سے لوں گا۔ آج وہ مودی خاموش ہیں اور دوسرے بول رہے ہیں کہ کار اور بائیک رکھنے والے لوگ ہی پیٹرول خریدتے ہیں وہ اگر سہولت چاہتے ہیں تو انہیں پیسے دیتے ہوں گے۔ اگر یہ حکومت کی پالیسی ہے تو ذرا وزیر اعظم یہ کہہ کر 2019 ء میں ووٹ مانگیں ؟ تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ تیل کی قیمت کیا ہوتی ہے؟
وہ گنوار ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر کام اور بائیک رکھنے والا دولتمند ہوتا ہے۔ وہ زمانے گئے جب یہ دولتمندوں کا شوق تھا اب یہ ضرورت ہے۔ مودی سرکار میں ٹرینوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا ٹکٹ آپ وقت پر حاصل کرسکیں یہ ناممکن ہے۔ آج نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو ٹرین سے سفر کو اچھا سمجھتے تھے وہ اب اپنی گاڑی پر جانے پر مجبور ہیں ۔ مغربی یوپی ہریانہ اور پنجاب میں ہر کسان کے دروازہ پر بائیک کھڑی ہے۔ اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ہر گلی میں ٹیکسی کھڑی ہے جس کی اپنی کار نہیں ہے وہ ٹیکسی سے جاتا ہے اور ہر بڑے کسان کے پاس ٹریکٹر ہے۔ تعلیم کے عام ہونے کے نتیجہ میں ہر اچھے اسکول کی اپنی بسیں ہیں لیکن ڈگری کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیاں ہر شہر میں ہزاروں کی تعداد میں اسکوٹی سے جاتی ہیں ۔ یہ احمقانہ سوچ ہے کہ کار اور بائیک والا مالدار ہی نہیں چور بھی ہوتا ہے اور اس کے پاس کالا دھن بھی ہوتا ہے۔ ہمارے گھر میں کاریں اور اسکوٹی دونوں ہیں اور ضرورت کے وقت کام آتی ہیں ہم کیوں مہنگا تیل خریدیں ہمیں اپنے گھر کی چھت بھی بنوانا ہے اور فلش بھی۔ ہم نے تو حکومت سے مدد نہیں مانگی۔ گھر گھر بجلی کھیت کھیت پانی اور گجرات ماڈل لے کر مودی جی 2014 ء میں جب آئے تھے تو ایک بار بھی نہیں کہا تھا کہ یہ سب کام ڈیزل اور پیٹرول پر ٹیکس لگاکر اور تمہاری جیب سے روپئے نکال کر ہوگا۔
آج پورا ملک رُک کر کھڑا ہوگیا ہے ہر کاروباری سر پکڑے بیٹھا ہے اب تک ہندوتوا (fgUnqRo) کے جنون والے اس میں سست تھے کہ مودی رام راج لائیں گے۔ لیکن اب آدھے زبان کھولتے ڈرتے ہیں لیکن آدھوں نے زبان کھول دی اور سیاست میں ایک وقت وہ آتا ہے کہ سوچنے والا یہ سوچنے لگتا ہے کہ جو ہیں انہیں ہٹائو یہ بعد میں سوچیں گے کہ پھر کسے بٹھائیں ؟ اور اس کا اشارہ اس سے مل رہا ہے کہ اب لوگوں نے بولنا شروع کردیا اور اُسی کو اُلٹی گنتی کہتے ہیں ۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔