پہلو خان: تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

عبدالعزیز

 ہندستان ایک ایسا ملک ہوتا جارہا ہے کہ قتل ہورہا ہے مگر قاتل کا پتہ نہیں چل رہا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ قاتل کو جان بوجھ کر پکڑا نہیں جارہا ہے۔ اسے کلین چٹ دی جارہی ہے۔ در اصل گجرات میں بڑے بڑوں کو کلین چٹ دی گئی جس کی وجہ سے آج وہ بڑے سے بڑے عہدہ پر فائز ہیں اور اگر کسی وجہ سے ان میں سے کسی کی دھڑ پکڑ ہوئی یا وہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں تو ان کو موجودہ حکومت کلین چٹ دے کر رہائی کرا رہی ہے۔ یعنی جو مجرم یا قاتل ہیں ان کی معصومیت اور بے گناہی کا ثبوت فراہم کیا جارہا ہے اور جو قاتل اور  ظالم ہیں ان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔

 پہلو خان کے قاتلوں کو راجستھان کی پولس نے کلین چٹ دے کر رہا کر دیا ہے۔ پہلو خان کو راجستھان کے اَلور میں سر عام قتل کیا گیا تھا اور قاتل گئو رکشکوں کے ایک گروپ نے پہلو خان کو اس وقت مار مار کر قتل کر دیا جب وہ جائز اور قانونی طریقہ سے دودھ دینے والی گائے اپنے گھر لے جارہا تھا۔ راجستھان کی تفتیشی ایجنسی ان چھ آدمیوں کی تفتیش کر رہی ہے جن کا ایف آئی آر میں نام ہی نہیں ہے بلکہ پہلو خان نے مرتے دم تک جن کے نام کو پولس کے سامنے بیان کیا آج وہ تفتیشی ٹیم کہہ رہی ہے کہ ان مجرموں اور قاتلوں کا پہلو خان کے قتل میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

 قانون شہادت میں مرتے دم کا اعلان (Dying Declaration) کی بڑی اہمیت ہے۔ تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ جب پہلو خان کو مارا جارہا تھا تو یہ چھ آدمی اس وقت بہت دور تھے۔ پہلو خان کے بیٹے چشم دید گواہ ہیں اور ان چھ آدمیوں کا نام بھی ایف آئی آرمیں لکھا ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پولس نے ان چھ آدمیوں کے نام کو ایف آئی آر سے ہٹا دیا ہے کیونکہ ایف آئی آر میں نام اگر ہوتا تو پولس کو اس قدر جرأت ہر گز نہیں ہوتی۔ یہ الور کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اچھے وکیل کرکے پولس کے خلاف بھی تھانے میں شکایت درج کرائے اور عدالت میں بھی راجستھان پولس کی مجرمانہ حرکت کو بتائے۔

 صحافی گوری لنکیش کے قاتلوں کو بھی ابھی تک پتہ نہیں چلا جبکہ 2015ء میں جس قسم کی بندوق سے دھرواد (بنگلور) میں ایم ایم کلبرگی کی جان لی گئی اسی بندوق یا ہتھیار سے گوری لنکیش کی جان لی گئی ہے۔ فارنسک کمپوریزنس (Forensic Comporisons) کا اشارہ ہے کہ اسی بندوق یا اسی قسم کی بندوق سے کولھا پور (مہاراشٹر) گوبند پنسارے کو ایک سال پہلے قتل کیا گیا۔ 2013ء میں نریندر دابھولکر پونا میں اسی قسم کی بندوق کا قتل کرنے میں استعمال کیا گیا۔ جن لوگوں کو مارا گیا ہے ان کا قصور بھی یکساں تھا کہ وہ ایک خاص نظریہ اور خاص کلچر کو ملک و قوم کیلئے خطرہ سمجھتے تھے اور قتل کرنے والے بھی ایک خاص ذہن یا ایک خاص گروپ کے تربیت یافتہ تھے مگر افسوسناک بات ہے کہ جس قدر بھی ثبوت اور شہادت مہیا ہیں ان سب کے باوجود کرناٹک کی سی آئی ڈی، مرکز کی سی بی آئی، مہاراشٹر کی ایس آئی ٹی کو قاتل کا پتہ آج تک نہیں چل رہا ہے۔ قتل پر اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ اندھیرے کو مٹانے کی نہ جرأت ہے نہ ہمت۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ جلد سے جلد قاتلوں کا پتہ لگایا جائے مگر سرکار اور پولس دونوں نکمی نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر قاتلوں کو بچانے یا حفاظت کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔

 پہلو خان کے قاتلوں کوبھی اسی طرح سے بچانے اور چھپانے کی کوشش ہورہی ہے جس طرح چار مذکورہ بڑی اور قابل قدر شخصیتوں کے قاتلوں کو بچانے اور تحفظ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات ہے کہ اگر قاتل آزاد ہوں اور ان کا تحفظ ہو تو پھر ملک کی کیا حالت ہوسکتی ہے۔ کلیم عاجز نے کہا تھا کہ   ؎

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

 تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

 یہاں تو قاتلوں کے دامن پر بھی چھینٹ ہے اور خنجر پہ بھی داغ ہے جب بھی مہاراشٹر، راجستھان اور کرناٹک کی پولس اور حکومت کرامات کر رہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ کرامات کب تک کرتی رہے گی؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔