ملّتِ اسلامیہ ہند کی اصلاحِ حال اور ہمارا کردار (دوسری قسط)

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ.ترتیب: عبدالعزیز

 اُمّت کی تعلیمی بہتری کا مقصد: امت مسلمہ ہند کی ناخواندگی کا ازالہ اور اس کی دینی و دنیوی تعلیم کی بہتری کا مقصد صرف اس کی کمزوری اور پسماندگی کو دور کرنا ہر گز نہیں ہے اور نہ کمپٹیشن کی دوڑ میں اس کو صرف حصہ لینے کے قابل بنانا مقصود ہے۔ علم کی روشنی راستہ بھی دکھاتی ہے، لیکن وہ راستہ ہمیشہ خیر کی طرف نہیں لے جاتا۔ فنی استعداد اور مہارت انسانیت کی خیر و فلاح کیلئے استعمال ہوتی ہے، لیکن وہ ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ظلم و استبداد کو مستحکم کرنے کے ذرائع بھی بن سکتی ہے۔ یہ بات دونوں طرح کے علم پر صادق آتی ہے۔ دینی تعلیم حاصل کرکے لوگ خرافات، بدعات اور بے معنی علم کلام اور فلسفے کو بھی جاری و ساری کرسکتے ہیں ۔ وہ اپنے علم کو مال تجارت بھی بنا سکتے ہیں اور خدا کے بجائے قیصر کے خدمت گار بھی بن سکتے ہیں ۔ دنیوی تعلیم تو ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے ذریعے مرض و جہالت کو دور کیا جاسکتا ہے اور قدرت کے سربستہ راز کھول کر زندگی کو وافر سامان عیش و عشرت فراہم کئے جاسکتے ہیں ؛ لیکن اس تعلیم کے ذریعے ’’فرد‘‘ دھوکا دہی، بددیانتی، گھوٹالہ اور خیانت کا بازار بھی گرم کرسکتا ہے۔ اور قوم و ملک دنیا کے بیشتر وسائل پر دست برد کے ذریعہ قبضہ بھی کرسکتے ہیں اور اپنی معاشی اور سیاسی چودھراہٹ کا سکہ بھی جماسکتے ہیں ، جس کی بین مثال امریکہ ہے۔ علم کو انصاف، جبر و استبداد کو معاشی ترقی اور ہوس پرستی کو عین علم و تہذیب بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ یہ محض نظریہ نہیں ہے بلکہ حقائق اس کی بھر پور تائید کرتے ہیں ۔

موجودہ دینی نظام تعلیم کی حالتِ زار: دینی تعلیم نے امت مسلمہ کی تاریخ میں درخشاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے فرد اور سماج کو صحت مند اور خدا شناس بنایا ہے۔ تقویٰ اور اخلاق کے چشمے جاری کئے ہیں اور دنیا کی تعمیر اور تشکیل کے نقشے بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے؛ لیکن دینی تعلیم کے انحطاط اور اس کے غلط رخ اختیار کرنے کی وجہ سے اس میں بعض اوقات فلسفہ، منطق اور کلام نے قرآن کریم اور حدیث کے گہرے مطالعے اور درس و تدریس کا مقام لے لیا ہے، جیسی کہ امام غزالیؒ کے دور سے متصل صورت حال تھی اور وہی یا اسی سے کچھ کم و بیش صورت حال مروج درس نظامی کی بھی ہے۔ اس نے امت مسلمہ کی حرکیت اور تعمیر و تشکیل معاشرہ کے عزم و حوصلہ کو کمزور کیا ہے۔ دینداری، معراج ترک دنیا اور ترکِ لذات قرار دیا ہے۔ دنیوی علوم اور فنی مہارت کو دین کے منافی قرار دیا ہے۔ اس نے تصوف کے غالی اور غیر اسلامی رخ کو تقویت بخشی ہے، یہاں تک کہ آج دینی تعلیم کے نام سے ایسی تعلیم دی جارہی ہے جو طالب علم کو ارضی حقیقتوں سے بے خبر رکھتی ہے؛ حال سے بے نیاز کرکے ماضی میں جینے اور سانس لینے کی عادت ڈالتی ہے اور دین و دنیا کی مصنوعی تقسیم کو بالواسطہ تقویت پہنچاتی ہے۔ عبادات کے رسوم پر اتنا زور دیتی ہے کہ معاملات کی اہمیت اوجھل ہوجاتی ہے؛ چنانچہ دینی مدارس سے فارغ طلباء کی اکثریت، جامعات سے فراغت کے بعد دنیا میں کوئی حرکی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہ جاتی۔ پھر مادی ضرورتوں کے دباؤ کے تحت وہ یا تو اس سیلاب میں بہہ جاتی ہے جس پر آج کا انسان عارضی کشتیوں کے سہارے تیر رہا ہے یا وہ مسجدوں میں امام اور موذ بن کر تنگدستی اور فقر و فاقہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ نہ امت مسلمہ ان کو قیادت اور رہنمائی کا منصب عطا کرتی ہے اور نہ وہ اس کے اہل ہی بن کر نکلتے ہیں ۔ دینی تعلیم تو امت مسلمہ کی نظریاتی اور اخلاقی زندگی کا حصار تھی اور اس ملت کی اجتماعی زندگی کی شہ رگ تھی مگر آج کے دینی مدارس تو اس طاغوت سے بے خبر ہیں ، جس نے پوری انسانیت کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔ وہ اس کے مقابلے میں جوابی سیلاب کیسے برپا کرسکتے ہیں ۔

دینی مدارس میں عصری تعلیم بطور ضمیمہ: دینی تعلیم کی اس ابتری اور عصری حقیقتوں سے اس کی بے خبری کی اصلاح، محض حاشیہ اور فٹ نوٹ لگانے سے ممکن نہیں ہے۔ ہندستان میں سادہ لوح حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس میں بعض عصری معاشرتی علوم کو درسیات میں داخل کرنے اور کمپیوٹر یا ابتدائی سائنس کی تعلیم دینے سے دینی مدارس کو ان کا قائدانہ کردار پھر سے عطا کیا جاسکتا ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ اول تو موجودہ تدریسی نصاب اس کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ دوسرے علوم کما حقہ پڑھائے جاسکیں ۔ دوسرے یہ کہ جب تک قرآن و سنت کی جامع تعلیم اور تدریس کو ان مدارس میں مرکزی اور کلیدی مقام نہیں دیا جاتا، نہ وہ زندگی پیدا ہوسکتی اور نہ ہی وہ حرکیت جو امت کی امتیازی انفرادیت کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ اس کیلئے پورا نظام درسیات بدلنا ہوگا۔ نظام تربیت میں انقلابی تغیر لانا ہوگا۔ تیسرے یہ کہ دین حق کی روشنی میں ایسی تخلیقی فکر، ایسی ناقدانہ بصیرت اور ایسی تجزیاتی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی جو عصری طاغوت کی حقیقت کو سمجھ سکے اور اس کی چالوں کو بھی پرکھ سکے۔

 دنیوی تعلیم کی اہمیت:

امت مسلمہ کی حقیقی طاقت اور اس کی صحت کی ضامن، اس کی دینی بصیرت اور اس کی اخلاقی اقدار ہیں ۔ اس طاقت کی تجدید، روایات اور فرسودہ طریق کار پر اصرار سے ممکن نہیں ؛ بلکہ اس کیلئے وہی مجتہدانہ بصیرت درکار ہے جس نے امت کو ماضی میں قیادت اور امامت پر فائز کیا تھا۔

 دنیوی تعلیم اور فنی مہارت کے لحاظ سے عصر حاضر نے جو معراج حاصل کی ہے، اس کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ سورج سے زیادہ روشن حقیقت ہے، ہمارے ملک میں بھی اس میدان میں نہایت تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ یونیورسٹیز، ریسرچ کے مراکز، فنی تربیت کے ادارے، ابتدائی تعلیم کے اسکول کا ایک وسیع و عریض نظام ہے جو دنیوی تعلیم کے ہمہ جہتی استحکام کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس کے تہذیبی اور ثقافتی فوائد سے پورا ملک مستفید ہورہا ہے، اس تعلیم کو ماہرین کی ایک بڑی تعداد ملک کی معاشی ترقی سے منسلک کرتی ہے۔ اب تعلیم کو پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ بہتر سائنسی اور فنی تعلیم فرد کی کسب معاش کی استعداد بڑھاتی ہے اور پورے سماج کی صنعتی اور زراعتی پیداوار میں اضافہ کرتی ہے۔ موجودہ زمانے میں کسی قوم اور ملک کی پیداواری صلاحیت اس کی سیاسی قوت کا اہم ترین عامل بھی ہے۔

 ملت کے افلاس اور کمزوری کا سدباب اور عصری تعلیم: اس لئے امت مسلمہ کی مادی قوت کے حصول کیلئے دنیوی تعلیم لازم ہے، اس کے ذریعے نہ صرف اس کے افلاس کا سد باب ہوگا بلکہ اس کی عمومی قوت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کی بے چارگی اور بے بسی دور ہوگی اور اس کی عزت و آبرو اور جان و مال سے کھیلنے کیلئے غیروں کو فراز کوہ کو ناپنا پڑے گا۔ اس تعلیم کے ذریعے وہ ایسی فنی مہارت اور ایسی سائنسی استعداد حاصل کرسکتے ہیں جس سے وہ اپنی مادی اہمیت کا سکہ بھی جماسکتے ہیں ۔

 یہ دورِ مسابقت ہے، یہاں جو تیز دوڑ سکتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔ جو وسائل کو استعمال کرنے میں سب سے زیادہ زیرک ہوتا ہے، وہ دولت بھی زیادہ کما سکتا ہے جو شماریات اور حساب و کتاب کے گورکھ دھندے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا ہنر جتنا زیادہ جانتا ہے وہ اسی کی بقدر سرخرو ہوتا ہے۔ اس دوڑ میں بقول ڈارون ’’زندہ وہی بچتا ہے جو سب سے توانا ہو‘‘۔ اس لئے ہندی ملت اسلامیہ کو صرف دنیوی تعلیم حاصل نہیں کرنا ہے بلکہ اس کو تعلیم اور فنی مہارت کی اس دوڑ میں مسابقت بھی کرنا ہے تاکہ وہ اپنے سے زیادہ توانا اور صحت مند گروہ کو اس اکھاڑے میں پچھاڑ سکے مگر جو اسکول اور کالج ہندستانی مسلمانوں کے زیر انتظام چل رہے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ ایسی دکانیں ہیں جہاں ضرورت کے سامان بہت کم ملتے ہیں ۔ نہ باصلاحیت استاد، نہ لائبریری اور نہ تربیت۔ جیسے کہ مفلوک الحال بنیا کی دکان جو اکثر غریب اور پسماندہ محلہ یا بستی میں نظر آتی ہے۔ رہی سہی کسر اسکول اور کالج کی مجالس منتظمہ پوری کر دیتی ہیں ۔ جن کا صدر یا رکن بننے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ تعلیم سے واقف ہوں بلکہ سیاسی یا معاشی چودھراہٹ کافی ہے۔ الغرض یہ کہ غیر معیاری اور مفلوک الحال اسکول اور کالجز مسلمانوں کی پہچان بن گئے ہیں ۔ ان کی اصلاح دنیوی تعلیم کی بہتری کا جزو لازم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے اسکول اور کالجز قائم کرنابھی ضروری ہے تاکہ وہ کمی دور کی جاسکے۔ معیاری اور اعلیٰ سطح کے مراکز تعلیم بھی ضروری ہیں ۔ یہ تمام باتیں وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔

 لیکن مسلمان دنیوی تعلیم اور فنی مہارت بھی محض اپنے پیٹ کی پوجا کیلئے نہیں حاصل کرتا، اس کا نصب العین جسم اور جان کی لذت کوشی نہیں بن سکتی۔ اگر ایسا ہوگا تو یہ امت اپنی شناخت کھو دے گی۔ اس کے دین کی نظر میں دنیوی تعلیم بھی ذاتی منفعت کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ اور عام انسانیت کی خدمت کیلئے حاصل کی جاتی ہے۔ مسلمان تعلیم حاصل کرکے مہذب اور مشقف جانور نہیں بننا چاہتا اور نہ علم کو جنس کا بازار سمجھتا ہے جس کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر بیچا جاسکے۔

 عصری تعلیم کے نقائص: جدید دور میں تعلیمی ادارے تجارتی معبد بن گئے ہیں ۔ اس ملک میں پبلک اسکول، نرسری تعلیم گاہیں اور انگلش میڈیم کے اسکول کا رواج بڑھ گیا ہے اور مسلمان بھی اس رجحان کی تقلید کرنے کو فخر مباہات کا سبب سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جہاں مغربی کلچر سکھایا جاتا ہے۔ فیس اور عطیات کا نظام ایسا ترتیب دیا جاتا ہے کہ صرف خوش حال اور اغنیا کے بچے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ پرائیوٹ میڈیکل کالجز اور دوسرے پروفیشنل کالجز قائم کئے گئے ہیں ، پرائیوٹ یونیورسٹیز کا بل پاس ہونے والا ہے، ان میں داخلے کیلئے لاکھوں کے عطیات لئے جاتے ہیں ۔ تعلیم ایک جنس بازار ہے، اگر آپ کے پاس حوصلہ اور وسائل ہیں تو اسے خرید لیجئے۔ بدقسمتی سے مسلمان بھی ایسے تعلیمی ادارے اور پروفیشنل کالجز قائم کر رہے ہیں جو کمرشیل بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں ۔ ایسے ادارے قائم کرتے وقت اعلان یہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانانِ ہند کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے بنائے جارہے ہیں ؛ مگر عطیات اور فیس کا نظام انھیں عام مسلمانوں کی پہنچ سے بہت دور کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ نفع کمانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔

 تعلیم ایک جنس بازار:

اگر تعلیم اور فنی مہارت فطری صلاحیت نہیں بلکہ مالی وسائل کی بنیاد پر حاصل کی جائے گی تو اس کے خریدنے والے اس کو بیچیں گے۔ جس میڈیکل تعلیم کو حاصل کرنے کیلئے طالب علم کے والدین کو پانچ سے لے کر بیس لاکھ کا عطیہ دینا ہو، وہ روزِ اول سے انسانیت کا خادم نہیں بلکہ تاجر بن جائے گا۔ وہ اپنے پیشے کو نظر تقدس سے نہیں بلکہ تاجرانہ نقطہ نظر سے دیکھے گا۔ اس کے مضرت رساں نتائج آپ ہر طرف دیکھ سکتے ہیں ۔ اس تاجرانہ کلچر کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ علم کے شعبہ کی اہمیت اس کی مالی منفعت اور مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پر جانچنے کا چلن ہوگیا ہے؛ چنانچہ تجارتی ڈگریاں (مثلاً ایم۔ اے، بی ۔اے وغیرہ) فیزکس، کیمسٹری اور ہندسہ جیسے علوم کے مقابلے میں باصلاحیت نوجوانوں کی مرکز توجہ بن گئی ہیں ۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔