کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

ہر آدمی یہ بات بہ خوبی جانتاہے کہ کوئی بھی اچھا یا بُراعمل اپنے اندر ایک تاثیر رکھتاہے اور سنت اللہ بھی یہی ہے کہ انسان کے جملہ اعمال اختلافِ نوعیت کے ساتھ ترتب ِ احوال کا ذریعہ ہوتے ہیں ؛ صحت ومرض، نفع ونقصان، کامیابی وناکامی، خوشی وغمی، بارش وخشک سالی، مہنگائی وارز انی، بدامنی ودہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ، یہ سب ہمارے نیک وبد اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔

اسلامی عبادات میں حج بھی ایک ایسی عظیم الشان عبادت ہے جوحاجی کے حالات کو بدلنے اور صاف ستھری پاکیزہ زندگی کا از سر نو آغاز کرنے کے لیے نہایت زرین موقع فراہم کرتی ہے، اس لئے کہ حج کے تمام مشاعر، مقامات اور ارکان اپنے گوناگوں تاثرات اور دیرپا تاثیرات کی بناء پر حاجی کی زندگی میں خیر و برکت کی نئی بہار لانے میں نمایاں کرداراداکرتے ہیں ۔ چونکہ ان مقامات کی اہمیت اور عظمت ایک سچے مسلمان کے دل میں اچھی طرح پیوست ہوتی ہے، اس لیے لازماََ اس کا نفسیاتی اثر دل پر بہت گہرا پڑتا ہے، شب وروزبرکتوں اور رحمتوں کا نزول، انوار الٰہی کی مسلسل بارش، نورانی ماحول، مقدس فضاء، گناہوں پر ندامت وپشیمانی کے ساتھ توبہ واستغفار، دعاء و زاری، فریاد و بکاء، آہ و نالہ پھر آثار رسول ؐ کے دل کش نظارے، روضہء اقدس کے حسین مناظر، صحابہ کامدفن، مدینے کے کوچے، بطحاء کی وادی، احد کی پہاڑی اور بھی بے شمار حالات ومقامات ؛جو قدم بہ قدم لوح دل پر ایسے ان مٹ نقوش ثبت کرجاتے ہیں جن کی برکت سے پتھر سے پتھر دل بھی ان کے درمیان موم بن جاتے ہیں اور حاجی اس ابر کرم کے چھینٹوں سے گناہوں کی تپش کو دورکرتاہے ؛ جوبہ طور خاص اس موقع پر مہمانان خدا کے لئے عرش الٰہی سے برستے ہیں ۔ لہٰذا فریضہ حج انسان کی گزشتہ اور آئندہ زندگی کے درمیان ایک حد فاصل قائم کردیتا ہے اور اصلاح و تربیت کی جانب اپنی زندگی کو پھیر دینے کا موقع بہم پہونچاتا ہے یہاں سے انسان اپنی پچھلی زندگی بھول کرایک نئی زندگی شروع کردیتا ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺنے فرمایا:جس نے خدا کے لئے حج کیا اور اس میں ہوس آرائی نہ کی اور گناہ نہ کیا تو وہ ایسا ہو کر لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو پیدا کیا، اسی حج کو نبوت کی زبان حق شناس نے  حج مبرور سے تعبیرکیا اور یہی حج دراصل ان تمام برکات اور رحمتوں کا خزانہ ہے ۔

دنیا میں اس وقت سات بڑے عجائب مشہور ہیں، ان کے علاوہ مختلف تاریخی مقامات، خوبصورت مناظراورآثار قدیمہ ان پر مستزادہیں ؛لیکن ان سب کا حال یہ ہے کہ انسان اگر ان کو پانچ، دس مرتبہ بھی دیکھ لے تو ان سے اس کا جی بھر جاتا ہے اور مزید انہیں دیکھنے کا دل نہیں کرتا:مگر ایک بیت اﷲ شریف دنیا میں ایسی مقناطیسی عمارت ہے کہ جس کو دیکھتے ہی انسان کا دل اس کی طرف کھنچا چلاجاتا ہے اور وہ انسان کے دل کو موہ لیتا ہے اور اس کو دیکھتے رہنے سے آنکھیں کبھی سیر نہیں ہوتیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان خود حج کرنے نہ جائے  محض حج کے فوائد و ثمرات سننے سے وہ اس کے فوائد و برکات کو کما حقہ سمجھ ہی نہیں سکتا ۔ انسان جب خود حج کرنے جاتا ہے  تب اسے اس کے حقیقی منافع ا و ر اس کی برکات سمجھ میں آنے لگتی ہیں اور پھر اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ اس کے اندر انقلاب آرہا ہے، اس کے کردار میں تبدیلی آرہی ہے، اس کی سوچ تبدیل ہورہی ہے، اس کے جذبات بدل رہے ہیں ۔ چنانچہ بیت اﷲ شریف جاکر انسان خود محسوس کرنے لگتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو اپنے وطن میں تھا بلکہ یہاں آکر میں کچھ اور ہوگیا ہوں، یہ سب حج بیت اﷲ کے حیرت انگیز اثرات کا نتیجہ ہے ۔

حجاج کرام اس فرق کو ملحوظ رکھیں ! ایک ہے حج کا قبول ہونا اور ایک ہے حج کا ادا ہونا ۔ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں ۔ حج ادا تو اسی وقت ہوجاتا ہے جب آدمی اس کے تمام اعمال قاعدے کے مطابق ادا کرلے ۔ حج کے دو ہی رکن ہیں : ایک وقوف عرفہ، خواہ ایک منٹ کے لئے ہی ہو اور دوسرے طواف زیارت ۔ باقی کچھ واجبات ہیں، کچھ شرائط ہیں اور کچھ سنن و مستحبات ہیں ۔ لہٰذا اگر حج شرعی طریقہ کار کے مطابق ادا کیا جائے تووہ ادا تو ہوجاتا، لیکن کیا مقبول بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس بات کو معلوم کرنے کے لئے علمائے کرام نے چند علامتیں لکھی ہیں :

 پہلی علامت جو حدیث شریف میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا حج قبول ہوجاتا ہے ان کی کنکریاں اٹھالی جاتی ہیں اور جو کنکریاں پڑی رہ جاتی ہیں یہ ان لوگوں کی ہوتی ہیں جن کا حج مقبول نہیں ہوتا؛اسی وجہ سے علماء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ وہاں کی کنکریاں اٹھا کر رمی نہ کی جائے کیوں کہ یہ ان لوگوں کی کنکریاں ہوتی ہیں جن کا حج مقبول نہیں ہوتا ۔

دوسری علامت یہ ہے کہ حج سے واپس آنے کے بعد آدمی کے اعمال میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نیکی کے فوراً قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے بعد آدمی کو دوسری نیکی کی توفیق مل جاتی ہے ۔ اس لئے ہر آدمی اس بات کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں پہلے وہ جتنا اہتمام کرتا تھا اب اس سے زیادہ کرنے لگا ہے یا نہیں ؟ گناہوں سے بچنے کی پہلی جتنی کوشش کرتا تھا، اب اس سے زیادہ کرنے لگا ہے یا نہیں ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا حج اﷲ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوچکاہے ۔

تیسری علامت یہ ہے کہ وہاں کی محبت اور عقیدت اس قدر دل میں رچ بس جائے کہ گویا آدمی اپنا دل ہی وہاں چھوڑ کر آجائے اور بار بار وہاں جانے کا شوق اس کے دل کے آنگن میں انگڑائیاں لینا شروع کردے ۔

اس میں شک نہیں کہ آدمی جب حج پر جاتا ہے تو اس کے ماحول کے نورانی اثرات و برکات اس پر لازمی پڑتے ہیں ۔ اس لئے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر دیکھے کہ وہاں کے ماحول کے نورانی اثرات ابھی تک اس پر موجود ہیں یا نہیں ؟ اگر موجود ہیں تو ان کے ماند پڑجانے سے پہلے ان کی حفاظت کرے ۔

اس دورکا سب سے بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی فرض کی ادائیگی کے لئے خشوع وخضوع، انابت الی اللہ، تقویٰ وبندگی اوررجوعِ الٰہی کی صفات حسنہ سے دور رَہ کر محض ارکان کی ادائیگی پر ہمار ازیادہ ترانحصار اورمدار رہ گیا ہے، ریانے خلوص کی جگہ پر قبضہ کرلیا، نفاق جڑ پکڑگیا، خوف وخشیت کو ہم نے سلام کرلیا، نتیجہ یہ ہو اکہ اپنی عبادات پر عُجب، غرور، تکبراوردکھاوا جیسی بری صفات پیدا ہوگئیں، ایک آدمی زندگی بھرنماز پڑھتا رہے پھر بھی اس کو ’’نماز ی ‘‘کہہ کر نہیں پکار ا جاتا، ایک آدمی تاحیات روزہ رکھتا رہے پھر بھی اس کو’’ روزہ دار‘‘ نہیں کہاجاتا، ایک شخص ہمیشہ زکوۃ اداکرتے رہے مگر اسے بھی ’’زکوتی‘‘ نہیں کہاجاتا لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک بارحج کرلے تووہ اپنے نام کے ساتھ’’ الحاج ‘‘، ’’زائر حرم‘‘ اور’’حاجی ‘‘جیسے القاب لگانا ضروری سمجھتا ہیں حالانکہ شریعت میں حج سے زیادہ نماز کی تاکید اوراس کو ادا نہ کرنے پر سخت ترین وعیدیں سنائی گئی ہیں، لیکن لوگوں نے اپنے قول وعمل سے حج ہی کو اشرف العبادات بنادیا ہے ؟ فیا للعجب

حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ نے فضائل حج میں یہ واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ایک بزرگ کی خدمت میں ایک حاجی صاحب حاضر ہوئے، انہوں نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ عرض کیا’’حج سے واپس آرہا ہوں ‘‘پوچھا حج کرچکے ؟عرض کیا’’کرچکا‘‘فرمایاجس وقت گھر سے روانہ ہوئے اورعزیزوں سے جدا ہوئے تھے، اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی ؟کہا ’’نہیں یہ تو نہیں کیاتھا ‘‘ فرمایابس پھرتم سفر حج پر روانہ ہی نہیں ہوئے پھرفرمایاکہ راہ ِ حق میں جوں جوں تمہاراجسم منزلیں طے کررہا تھاتمہارا قلب بھی قرب حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟جواب دیا کہ ’’یہ تو نہیں ہوا ‘‘ارشاد ہوا کہ پھر تم نے سفر حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں، پھرپوچھا کہ جس وقت احرام کے لئے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتاراتھا ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں ہواتھا‘‘ارشاد ہوا پھر تم نے احرام ہی نہیں باندھا، پھر پوچھا عرفات میں وقوف کیا تو کچھ معرفت بھی حاصل ہوئی ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں ہوا‘‘ارشاد ہوا پھر عرفات میں وقوف ہی نہیں کیا پھرپوچھا کہ جب مزدلفہ میں اپنی مرا د کو پہنچ چکے تو اپنی ہر مراد نفسانی کے ترک کا بھی عہدکیاتھا؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں کیاتھا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر طواف ہی نہیں ہوا، پھر جب پوچھا کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو مقام صفا اوردرجۂ مروہ کا بھی کچھ ادراک ہوا تھا ؟کہا ’’نہیں !یہ تو نہیں ہوا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر تم نے سعی بھی نہ کی، پھر پوچھا کہ جب منیٰ آئے تو اپنی ساری آرزؤں کو تم نے فنا کیا؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں کیاتھا‘‘ارشاد ہو ا کہ پھر تمہارا منیٰ جانا لا حاصل رہا، پھر پوچھا کہ قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پربھی چھری چلائی تھی ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیں کیاتھا‘‘ارشاد ہوا کہ پھر تم نے قربانی ہی نہیں کی، پھر پوچھا کہ جب کنکریاں ماری تھیں تو اپنے جہل ونفسانیت پربھی ماری تھیں ؟کہا ’’نہیں !یہ تو نہیں کیاتھا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر تم نے رمی بھی نہ کی اوراس ساری گفتگو کے بعد آخر میں فرمایا کہ تمہارا حج کرنا نہ کرنا برابر رہا اب پھر جاؤ ! اور صحیح طریقہ پر حج کرو‘‘۔

الحاصل: حج کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی کے دل کے اندر اﷲ تعالیٰ کاتقرب اور اس کا خوف پیدا ہو ۔ لیکن جب آدمی حج کے بعد دوبارہ اپنے معاشرے میں قدم رکھتا ہے تو اس کے لئے گناہوں سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوتا، جتنا عموماََ سمجھ لیاجاتاہے ؛ لہٰذا ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ قدم قدم پر اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے آپ کو اس گندے معاشرے کی نحوست سے اپنے آپ کو حتی الامکان بچانے کی کوشش اور فکر میں لگا رہے ۔اسی مضمون کو اقبال مرحوم نے صرف ایک شعر میں اس طرح ادا کیا ہے   ؎

زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی!

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں

تبصرے بند ہیں۔