رقیبوں نے دیدی مجھے مات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

رقیبوں نے دیدی مجھے مات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
کروں کس سے میں دل کی اب بات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

مُسلّط ہیں جیسے ہوں جنّات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
لگائے ہیں وہ راہ میں گھات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

کیا اُس نے ترکِ ملاقات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
ملی عشق کی ایسی سوغات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ ے

نہیں اب ہیں قابو میں جذبات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
مجھے کاٹتی ہے یہ اب رات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

وہ کرتا ہے مُجھ سے حجابات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
ہیں غیروں پہ اُس کی عنایات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

بتادی مجھے اپنی اوقات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
مری دشمنِ جاں ہے برسات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

دئے اُس نے ایسے بیانات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
ہوا شہر نذرِ فسادات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

بہت سے ہیں برقیؔ سوالات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے
کہاں تک دوں اُن کے جوابات رے، ارے باپ رے باپ رے باپ رے

تبصرے بند ہیں۔