حقائق کے سائے میں بٹلہ ہائوس انکائونٹر پر تبصرہ

ذاکر حسین

بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی نویں برسی پر اس سانحہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑنے لگا ہے، لیکن حکومت کا عدالتی تحقیقات سے راہِ فرار نہ صرف ملک کے مسلمانوں بلکہ ملک کے انصاف پسند طبقوں کیلئے بھی باعث تشویش ہے۔ بٹلہ ہائوس انکائو نٹر کو ملک کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات کے انصاف پسند افراد غلط مانتے ہیں اور ان کی جانب سے مسلسل اس پولیس آپریشن کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ ہوتا آرہاہے۔لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری کا کوئی واضح موقف پیش نہیں کیاجا سکا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں غم و غصے کا احساس پایا جا رہاہے۔

واضح رہے کہ 19 ستمبر2008میں دہلی کے جامعہ نگرمیں دہلی پولس نے اعظم گڑھ کے دو مسلم نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کو مبینہ تنظیم سیمی کا رکن بتا کر ہلاک کر دیاتھا۔اس کے بعد سے حقوق علمبردار کی تنظیموں اور راشٹریہ علماء کونسل کی جانب سے اس پولس آپریشن کو لیکر مسلسل شک وشبہے کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔انکائونٹر میں ہلاک محمد ساجد کی انکائونٹرکے وقت عمر تقریباً14,15کے آس پاس تھی۔ مرحوم ساجد کی عمر کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہیکہ ساجد نے اتنی کم عمر میں دہشت گردی کی دنیا سے کتنا واسطہ رہاہوگا۔۔انکائونٹر سے متعلق ایسے بہت سے سوال ہیں ، جن کے جواب تلاش کرنے کی کوشش میں اس انکائونٹر کو لیکر ذہن میں بہت سے سوال گردش کرنے لگتے ہیں ۔ جیسے دہلی پولس کا کہنا تھا کہ جامعہ نگر کے L-18میں مقیم دہشت گردوں نے دروازہ کھولتے ہی پولس اہلکاروں پر گولیاں برسانے لگے ۔ اب سوال یہ ہیکہ اگردروازہ کھولتے ہی فلیٹ کے اندر سے گولیاں چلائی گیں تو آپریشن کی رہنمائی کر رہے موہن چند شرما کے پیچھے کیوں گولی لگی ـ ؟

ہمارا ماننا ہیکہ موہن چند شرما کو عاطف امین اور محمد ساجد نے نہیں مارا، بلکہ بھیڑ میں شامل پولس اہلکاروں میں سے ہی کسی نے موہن چند شرما پر گولی چلائی ۔جہاں تک ہمارے علم میں ہیکہ موہن چند شرما کی انکائونٹر اسپیشلسٹ راج ویر شرماسے دشمنی چل رہی تھی اور ایسا کہاجا تاہیکہ موہن  چند شرما کے لوگوں نے راج ویرشرما کو قتل کیاتھا۔ بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے وقت راج ویر شرما کے لوگوں نے موہن چند شرما پر پیچھے سے گولی چلا کر انہیں ہلاک کر دیاتھا ۔محمد ساجد مرحوم کے والد محترم اپنے نوجوان بیٹے کی موت پر رنج وغم کی چادر سے ایسا لپٹے کہ موت کے بعد بھی ان کے چہرے سے رنج و غم کااحساس ان کے عزیز اقارب کو مسلسل پریشان کرتارہا۔ان کے چہرے پر چھائی درد کی پرچھائیں جیسے ہر وقت یہی سوال پوچھتی ہو ں کہ ہمیں کب انصاف ملے گا؟ لیکن ان کاانتظارانتظار ہی رہا اور وہ بھی درد کے سایے میں جیتے جیتے زندگی سے ہار بیٹھے ۔شاید اپنے بیٹے کی اچانک موت سے وہ دنیا سے بیزار ہو گئے تھے یا پھر شاید انہیں اپنے بیٹے سے ملنے کی جلدی تھی۔

بٹلہ ہائوس انکائونٹر میں ہلاک عاطف امین کے والد محترم کے چہرے پر بھی اپنے جوان بیٹے کی موت کے درد کے سائے ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں ۔محترم امین مسلسل راشٹریہ علماء کونسل کے ساتھ اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کیلئے جدوجہد کی راہوں میں سرگرداں ہیں ۔محترم امین کی دردناک کہانی کچھ یوں ہیکہ ان کا ایک بیٹابٹلہ ہائوس انکائونٹر میں میں زندگی کی دہلیز عبور کر موت کی وادیوں میں کہیں کھو گیا تو دوسرا بیٹابھی امسال دنیائے فانی سے کوچ کر گیاعاطف امین مرحوم اور محمد ساجد مرحوم کے اہل خانہ انکائونٹر کے بعد سے ہی احساسِ محرومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔اب سوال یہ ہیکہ جناب امین صاحب محمد ساجد کے اہلِ خانہ کی احساسِ محرومی کا صلہ کون دے گا۔؟حکومت یاپھر دہلی پولس۔خیال رہے کہ آئین ہندکی مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ(ضابطہ مجموعہ فوجداری )کی دفعہ 176کے مطابق کسی بھی پولس ٹکرائو کی مجسٹریٹ جانچ کروانا لازمی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکوت مسلمانوں اور انصاف کا احترام نہ صحیح آئین ہند کا احترام کرتے ہوئے اس پولس آپریشن کی جانچ کرواتے ہوئے انکائونٹر سے جڑے شکو شبہات کو دور کرے ۔

 اربابِ اقتدار کاکہنا ہیکہ بٹلہ ہائوس انکائو نٹر کی جوڈیشیل انکوائری سے دہلی پولس کا مورل ڈائون ہوگا ۔جنابِ عالی گستاخی معاف ہو مٹھی بھر  پولس کے مورل ڈائون کے چکرمیں ملک کے کروڑوں مسلمانوں اور لاکھوں انصاف کے متلاشی لوگوں کے مورل کو آپ کچل رہے ہیں ۔بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جوڈیشیل انکوائری کی مانگ اور اس معاملے میں انصاف کی مانگ کر رہے راشٹریہ علماء کونسل کے سربراہ مولانا عامررشادی، دیگر لیڈران اور کارکنان قابلِ مبارکباد ہیں کہ مسلسل ان کی جانب سے  بلا خوف حکومت سے جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔

بٹلہ ہائوس انکائونٹر نہ صرف ایک انکائونٹر نہیں تھا بلکہ یہ حادثہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بد ترین دن تھا جب دہلی پولس نے د ونوجوانوں کو آئین اور حقوق انسانی کی تمام حدود کو عبور کرتے ہوئے قتل کر دیا۔انکائونٹر میں ہلاک محمد ساجد کے بارے میں کہاکہ جاتا ہیکہ وہ ایک نا بالغ لڑکا تھا اورانکائونٹر سے قبل وہ اعظم گڑھ کے اپنے آبائی وطن سنجر پور میں رسوئی گیس بھرنے کی دوکان چلایا کرتا تھااور میڈیانے اسی سے جوڑ کر اسے  بغیر کسی تحقیق کے بم بنانے کا ماہر بتا دیاتھا۔حالانکہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے انکائونٹر میں ہلاکت کے وقت ساجد کی عمر 13،14تھی ۔

اب اس بات پر غور کرنے کی ضروت ہیکہ ایک تیرہ، چودہ سال کے بچے کو بم بنانے کی اتنی مہارت کہاں سے حاصل ہوئی ہوگی ؟انکائونٹر کے بعد گرفتاریوں کا لامتنا سلسلہ چلا، جس میں سنجر پور باشندہ محمد سیف، اعظم گڑھ باشندہ محمد شہزاد، اعظم گڑ ھ کے ہی موضع بینا پارہ باشندہ ابوالخیر سمیت انگنت تعلیم یافتہ مسلم نوجوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے ۔بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے بعد پولس کی گرفت میں آئے خالص پور باشندہ اعظم گڑھ کے شہزاد احمد کو دہلی کی نچلی عدالت ساکیت کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا ئی ہے  ۔حالانکہ شہزاد احمد کے معاملے میں ایسے بہت سے شواہد ہیں ، جو شہزاد احمد کی عمر قید کی سزا پر بہت سے سوال اٹھاتے ہیں ۔ جس دن ساکیت کورٹ میں شہزاد احمد کی مقدمے کی سماعت ہورہی تھی تو شہزاد احمد نے ساکیت کورٹ سے مانگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاضل جج ایک بار L-18 کو دورہ کر کے وہاں کا جائز لے لیں کہ کیا اس عمارت کی ا وپری منزل سے کوئی چلانگ لگا کر زندہ بچ سکتا ہے ؟

لیکن ساکیت کورٹ نے شہزادا حمد کی مانگ کو رد کرتے ہوئے اسے عمر قید کی سزا سنا دی تھی ۔ واضح رہے کہ جامعہ نگر میں واقع L-18چار منزلہ عمارت ہے اور جس فلیٹ سے سے کود کر بھاگنے کا الزام ہے وہ عمارت کی چوتھی منزل ہے۔ اب غو کرنے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص چار منزلہ عمارت سے کودتا ہے تو وہ کیسے زندہ بچ سکتا ہے؟ حکومت کو چاہئے کہ اس انکائونٹر کی عدالتی تحقیقات کروائے، تاکہ اس انکائونٹر کو لیکر ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں میں جو شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں ۔ اس کا خاتمہ کیا جاسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔