جام وحدت ضروری پر کیوں اورکیسے؟

  اشفاق و آزاد کےملک ہندوستان میں جب بھی مسلمانوں کے زوال و پسماندگی کی بات ہوتی ہےتوچہار جانب سے اس کی وجہ باہمی انتشارونااتفاقی ہی بتلائی جاتی ہے، کیونکہ قرون اولی کے لوگوں نےوحدت کا جام پیا تھا اس لئے وہ فوزوفلاح کےمعراج کمندیں ڈالنے میں کامیاب ہوئے تھے اور قرون اولی کےبعد جب امت میں فروعی مسائل کو سمجھنے اور ان پر سہولت سے عمل درآمد کرنے کے لئےاجماع امت سے مسالک ومشارب کی تقسیم ہوئی تو اسلام دشمنوں نے کچھ مفادپرست کذابوں کو مال و زر سے خرید کر ان کی اپنی اپنی دیڑھ ہاتھ کی مسجد ضرار بنوادی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملت متحدہ کو ہزار خانوں میں بانٹ دیا اور پہر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹاجانےلگا۔ دشمنان اسلام نے ملت اسلامیہ کو کبھی بھی متحد ہونے نہیں دیا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس دن ایک ہی صف میں محمود و ایازآگئےتودنیا کی کوئی طاقت ان کابال بھی بیکا نہیں کرسکتی،تو خلاصہ یہ نکلا کہ اتحاد وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے، پر سوال یہ پیداہوتا ہےکہ اتحاد کا پیمانہ کیا ہو؟ کس نقطےپرپہونچ کرسبھی مسالک ایک ہوسکتے ہیں؟ تو اس کے لئے سب کے پاس الگ الگ جواب ہیں، کوئی کہتا ہےکہ مسائل کا اختلاف ختم کردیاجائے، کوئی کہتا ہے کہ مسلک و مشرب کچھ نہیں، اصل وہی ہے جو نبی رحمت نے چھوڑا ہے، یوں تواس سلسلےمیں قول فیصل کلام اللہ کی آیت "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا”ہے جس کا خلاصہ یہ ھے کہ "حبل اللہ”(اللہ کی رسی) ہی مرکزاتحاد ہے اور اللہ کی رسی سے مرادباجماع مفسرین قرآن و سنت ہے،یعنی”کلام اللہ،سنت رسول اللہ، طریقہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین”  اب اس سے ایک ضابطہ یہ متفرع ہوتا ہے کہ اصول اسلام یعنی عقائد اسلام میں اختلاف قابل قبول نہیں ہوگا. یعنی جن فرقوں کی جانب سےعقائد اسلام میں قرآن و سنت کی صریح مخالفت ہے انہیں اہل اسلام میں شمارنہیں کیاجائےگا.البتہ جن مسالک میں آپس میں فروعی اختلافات ہیں ان کو باہمی مفاہمت سے سلجھایا جائےگا. انہیں ہی یعنی "اصول اسلام پر متفق فروعات میں مختلف”فرقوں کواہل اسلام میں سےگرداناجائے گا،لیکن اتحادکاپیمانہ طےکرنےسے پہلےانتشار و اختلاف کےسبھی پہلؤوں پرغورکرناضروری ہے،واضح رہے کہ عصر حاضر میں ملت اسلامیہ میں باہمی انتشارکو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے،
1- مسلک و مشرب کا انتشار

2- ملی انتشار

3- سیاسی انتشار،جہاں تک بات مسالک ومشارب کےالگ الگ ہونے کی ہے،تواس کی بنیادی وجہ فروعی ونظریاتی اختلافات ہیں،جن کوختم کرپاناناممکن ہے،کیونکہ ہرایک مسلک ومشرب اپنی اپنی جگہ اپنے دلائل کی روشنی میں برحق ہے،البتہ بعض فرقوں کاباطل ہوناعقل ونقل اور اجماع امت سے مفہوم ہوتاہے،اس لئے اتحاد بین المسالک والفرق کاخواب شاید ان حالات میں شرمندہ تعبیر ناہوسکے،البتہ تمام مسالک میں وحدت کامزاج برقرار رکھنے کےلئےباہمی مفاہمت و معاونت کاماحول بناناہر ایک عقل مند کادینی وقومی فریضہ ہےاور ملت  کے حق میں مسلمانوں کےباہمی عقائدونظریات کے اختلاف کو بندہ اور خدا کے مابین معاملہ سمجھ کر خریدنا چھوردینا چاہیے،لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ تقابل ادیان اور دفاع اسلام  کاکام چھوڑدیاجائے، رہی بات  ملی و ملکی مسائل میں اتحاد کی  تو اس کا پیمانہ یہ ھیکہ جو مسائل مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں مثلاً تحفظ کتاب و سنت تحفظ مساجد و مدارس، احیائےاذان ونماز،قیام نکاح وطلاق،نشر تعلیم وغیرہ تو ان کے لئے متحد ہوکر آواز اٹھانا ہر کلمہ گو کے لئےضروری ہے.نیزمسلم پرسنل لاءومسلمانوں کےعائلی مسائل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں لہذا ان کی بازیابی کےلئےمتحد ہونابھی فریضہ شرعی ہے. اس لئےموجودہ دشوار ترین حالات میں ضرورت اس بات کی ھیکہ مسالک ومشارب کا اختلاف بھلاکر مسلمانوں کے ملی وعائلی مشترکہ مسائل پر متحدہوکرسبھی کلمہ گو مسلمان، خواص و عوام،علماء و دانشوران، جماعت و تنظیمیں مل کر آگےبڑھیں اور ملت کو ان کےحقوق دلانے کے لئے حتی المقدور کوشش کریں. بغیرروڈ میپ وحکمت عملی کے بڑی بڑی کانفرنسوں و سیمیناروں میں قوم کو نا جھونک کرملی رہنماؤوں کوچندخطوط پر متحدہونا ہوگا۔ انہیں متحد ہوناہوگا نونہالان قوم کی تعلیم و تربیت کےلئے،انہیں مل کر قدم اٹھانا ہوگا معاشرتی جرائم وبرائیوں کےخاتمہ کےلئے،انہیں ایک ہوکرمظلوموں کےلئے،جیل میں بند بےگناہوں کےلئے انصاف وقانون کی لڑائی لڑنی ہوگی،اسلام اورمسلمانوں کےحوالےسےزوروں پرجاری میڈیائی پروپیگنڈوں کاقلع قمع کرنے کےلئےانہیں خود اپنی میڈیا،اپناقانونی سیل بناناہوگا،
یہ وہ مسائل ہیں جن کےلئے ملت کے دردمندوں و مسیحاؤوں کااتحاد  وقت کی ضرورت ہے اورخودساختہ مصلحتوں کےجال کوتوڑ کردفاعی پوزیشن سےاٹھ کر اقدامی پہل کرنا ہی اس ملک کےمسلمانوں کےلئےان کی عبادت گاہوں کےلئے،انفرادی  و اجتماعی زندگیوں کےلئے،سماجی،معاشرتی واقتصادی شعبوں کےلئےخوش کن اور حوصلہ افزا ہی نہیں بلکہ تحفظ کاضامن ہوگا،رہامسئلہ سیاسی اتحادکاتو یہ موجودہ وقت میں نہایت اہم اور قابل غور لائق فکر امر ہے.جس کےسبھی اسراررموزپرغائرانہ نظر ڈال کرکوئی حتمی لائحہ عمل طےکرکے عملی اقدام ہی اس ملک میں مسلمانوں کےمحفوظ مستقبل کی ضمانت ہوگی،کیونکہ ملک جس ڈھرےپرجارہاہے،مسلمانوں کو بالکل کاٹھ کاالوبنادیاگیاہے،ہم نابول سکتے ہیں،ناآہ کرسکتے ہیں اور ناہی اپنی رائے کھل کردےسکتےہیں، ہندوستان کی جیلیں مسلمانوں کے دم سےہی آباد ہیں،میڈیاسے لےکر حکومتی اہلکار مسلم نام سن کرآگ اگلنےلگتےہیں،اگر یہی حالات چلتے رہے تو حق رائے دہی بھی ہم سے چھن جائےگی اور اف تک کرنے کے مجاز نہیں ہونگے،اسی لئے ہم سب کو مل کر سیاسی مستقبل کےبارےمیں سوچناپڑےگا،تو آئیے آزادی کے بعد سے اب تک کامنظر نامہ دیکھتے ہیں،آزادی کےمعاًبعد سےآج تک سیکولرزم کو نہرو گھرانے نے اپنی property  بنائی ہوئی ہے، ہندوتو کو بی جے پی نے اغواءکرکےقید کر لیاہے،سوشلزم پر ملائم خاندان نے قبضہ کرلیا، بہوجن وادکو مایاوتی نےگروی رکھ دیا ہے، لیفٹ نےمارکسزم کوستیہ کاغلام بنادیا. کبھی بنگلہ دیشی کےنام پر، کبھی پاکستان کےنام پر، کبھی دہشت گردی کےنام پر، کبھی دنگا، فساد کی وجہ سے، کبھی بم دھماکے کےنام پر، کبھی فرضی تنظیموں کےنام پر، کبھی مسلم بچوں کو بے جا طریقے سے گرفتار کرکے اورمتعددطریقےسےڈرانے، دبانے اور بھڑکانے کا کام  پورے ملک میں منظم طریقہ پرہو رہا ہے۔ بھارت کی پوری آبادی کےفیصد کےاعتبار سےصرف 2٪ برہمن ہیں،جن کےباہمی اتحاد کی وجہ سے ان کی حکمت عملی کامیاب ہو جاتی ہے اوروہ حکومت میں ہیں،جبکہ ۱۵ فیصد مسلم ہونےکےباوجود حکمت عملی ناہونے اورباہمی انتشار کےسبب آج تک غلامی کی زندگی گزاررہےہیں. ہمارے بزرگوں نےلامتناہی قربانیوں کےذریعہ گورے فرنگیوں سےملک کوآزادکرایا، مگر آزادی اغواء ہو کر سیاہ فرنگیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی پسماندگی کی بنیادی وجہ گندی اور استحصال کرنےوالی  سیاست  ہےاورسیاسی لوگوں نے ہی پیدا کی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی طریقے سے ہی ڈھوندھنا ہوگا. آج تک کئی بار پارٹیاں بدلی،راہ نمابدلے،پرچم بدلہ مگر سیاسی نظام وہی رہا ہے اس لئے ملک میں کوئی بدلاؤ نہیں ہو پا رہا ہے. کانگریس نےساٹھ سال تک دوست بن استحصال کیاہے، بی.جے.پی اور آر.ایس .ایس دشمن بن کرنشیمن کوآگ لگارہےہیں اوران سب کی بنیادی وجہ نام نہادملی قائدین کی مفادپرستی اور سیاسی لیڈران کی ضمیر فروشی ہے،لیکن سوال یہ پیدا ہوتاھے کہ کیامسلمانوں کے مابین سیاسی اتحاد ممکن ہے؟ کیامسلم سیاسی اتحاد مسلمانوں کےحق میں اکسیر ثابت ہوسکتی ہے؟؟اس کے فوائد ومضرات کیاہیں؟ یہ توحالات بتلائیں گے کہ کیاسیاسی قائدین مسلمانان ھند کےاستحصال کو سمجھ پائیں گے؟ کیاان کی تعلیمی،اقتصادی ترقی کےلئے،غربت کےخاتمہ کےلئے،زخموں پرمرہم لگانےکے لئےمل کرکوئی لائحہ عمل بناکر آنےوالے برسوں میں انہیں نوید دیں گے،یاپھر یہی روش برقرار رہےگی؟ اور دیکھتے دیکھتے پارلیمینٹ سے لے کرگاؤں ودیہاتوں تک سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کاخاتمہ ہوجائےگا؟ 2017 اور پھر 2019 مسلمانوں کےلئے بڑی آزمائش و امتحان کےایام ہوں گے،رام مندرکی تعمیر اور ہندو راشٹر کےقیام کا راگ الاپنےوالے کسی بھی حد تک جانے  کےلئے تیار ہیں۔ ایسے میں مسلم سیاسی قیادت کیاکرے گی اور  ان سےکس حدتک امید رکھی جائے یہ اترپردیش کا الیکشن طے کرےگا، لیکن موجودہ حالات میں مسلم سیاسی اتحاد کی بانگ دینے والوں کو اس حقیقت سے نظر ہرگز نہیں چراناچاہئےکہ ہم اس ملک میں محض ۱۵ فیصد ہیں، مسلم اتحاد ہویا نا ہو پراکثریتی طبقہ منفی طریقہ سے متحد ہوجائےگا اور پھر اس کانقصان کیا ہوگا اس کا مشاھدہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بخوبی کیاجاچکاہے۔ اس لئےفی الوقت سبھی سیاسی پارٹیوں کےمسلم لیڈروں کی ذمہ داری ھیکہ وہ زمینی سطح پر اپنے اپنے علاقوں میں خوب محنت کریں اور تعمیری کام کریں، تاکہ عوام کااعتماد جیت سکیں، پھربہارکےطرزپر قومی سطح پرایک مضبوط فرنٹ یعنی  مہاگڈھ بندھن کی تشکیل پرزوردیاجائے جس کی بنیاد حقیقی سیکولرزم کوہی رکھاجائے اس میں سبھی بڑی چھوٹی سیکولر پارٹیوں کی شراکت داری ہو۔ اس ملک  اور اقلیتوں کی بھلائی ملی جلی حکومت میں ہی ہے تاکہ اپنے اپنے علاقہ کے مسائل کےحل کے لئے حکومت پردباؤ بنایاجاسکے۔ یہی حالات کی پکار ہے،کیونکہ ملکی حالات پرگہری نظررکھنے والے اس حقیقت کوبخوبی جانتے ہیں کہ مذھب کی بنیاد پرحکومت سازی آزاد بھارت کےخون میں ہی نہیں ہے اوراس کے پیچھے بھاگنا سراب کےپیچھے بھاگنے کےمترادف ہے۔ اس لئے ہمارے سیاسی لیڈروں کو سمجھنا چاہئے کہ روڈ چھاپ بیان بازیوں اور جذباتی تقریروں سےملک و ملت کے لئے وہ ایک جہنم کدہ تیار کردیتے ہیں۔ اس لئےان سب چیزوں سے کلی اجتناب کرتے ہوئے،تمام مذاھب کا احترام کرتے ہوئے آئین کےدائرے میں رہتے ہوئے، قانون پرعمل کرتے ہوئےمثبت طریقہ سےاپنی لیڈرشپ مضبوط کریں، ملک بھر میں 1 درجن مسلم لیڈر ہیں جوملی و ملکی مسائل پر اگر  سیاسی طور پر متحد ہوجائیں توپوری قوم متحد ہو سکتی ہے، لیکن اس کےلئے کروڑوں عوام کو اپنے پیچھے لےکرچلنے والےملی و سیاسی قائدین کو بند کمرے میں سیاسی پارٹیوں سےسانٹھ گانٹھ کا سلسلہ ختم کرکےعوام الناس کے سامنے کھلم کھلا معاھدہ کرنا ہوگا اور یہ طے کرناہوگا ہوگا کہ مسلمان اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جو ملک اورمسلمانوں کو غربت، فسادات اور بھگوا دہشت گردی سے نجات دلانے کاعزم رکھتی ہو،آخری بات یہی ہے کہ جس دن مسلمانوں کی مسیحائی کادم بھرنے والے ملی و سیاسی قائدین اپنے مفادات پر ملت کو ترجیح دینے لگیں گے یہ قوم اسی دن سے ترقی و عروج کاسفر شروع کردے گی ان شاءاللہ.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔