1000اوریہ ایک رات کی بیداری

احمد جاوید

یہ ان دنوں کی بات ہےجب عید اور شب برات کا انتظار ہم اسی دلچسپی، بے چینی اوراہتمام سے کرتے تھے جن جذبات کے ساتھ آج ہمارے بچے کرتےہوںگے۔’ہوںگے‘ اس لیے کہ تب کے بچوں اور آج کے بچوں میں بڑا فرق ہے، آج کے بچوں کی دلچسپیاں اور ہیں، تب اور تھیں۔اب توان کی دلچسپیاں ہردن رنگ بدل رہی ہیں،ان کی دلچسپیوں کے سامان بھی مختلف ہیں اورذوق بھی مختلف۔لوگوں کےذوق کے بگڑنے کے سامان آج جتنے ہیں تب توہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔بہرکیف ہم عیدالفطر اور عیدقرباں کی طرح شب برات کابھی بہت بے چینی سے انتظار کرتے تھے،اس لیے کہ اس دن کھانے کو حلوے ملتے،قسم قسم کے پکوانوں سے تواضع ہوتی،کبھی کبھار پھلجھڑیاں بھی چھڑانے کو مل جاتیں حالانکہ اباجی سختی کے ساتھ آ تش بازی سے منع کرتے ، مسجد اور قبرستانوں میں چراغاں ہوتا، لوگ اپنے اپنے آباو اجداد کی قبروں پر شمعیں روشن کرتے اورخوشبوکے لیے اگربتیاں جلاتے، ساراماحول معطر ہوتا ۔اس دن صبح سے ہی ایک خاص قسم کی چہل پہل شروع ہوجاتی،دن ذراچڑھا کہ لوگوں نے اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں، دوستوں اور عزیزوں کے یہاں پکوان بھیجنے شروع کردئے۔سائلوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا،ان میں بچے بوڑھے اور عورتیں بھی ہوتیں اور اکادکامرد بھی، گاؤں سے متصل فقیروں کی بستی کے لوگ بھی ہوتے اور آس پاس کی دوسری بستیوں کے فقرا بھی، مسلمان بھی ہوتے اورغیر مسلم بھی۔یہ وہ لوگ تھے جو مختلف مواقع پر گاؤں کے لوگوں کی الگ الگ خدمتیں انجام دیتے تھےاس لیے ان کی ہرخوشی اور غم میں شریک رہاکرتے تھے۔

 ہمارے گاؤں کی مسجد میں پوری رات ذکر، تلاوت اور نوافل کا سلسلہ رہتا، ہم رات بھر جاگ کر صبح ہونے کا انتظار کرتےکہ کہیں سوتے نہ رہ جائیں اورقل و فاتحہ کے بعد بٹنے والی مٹھائی میں ہمارا حصہ رہ نہ جائے ۔ جب کچھ بڑے ہوئے تو مسجد میں بیٹھ کر ایک آدھ پارے کی تلاوت بھی کر لیتے، رات بھررہ رہ کر مسجد اور قبرستان کے درمیان چکر لگاتے رہتے، یہ جاگتے رہنے کی اپنی سی کوشش تھی جو کبھی کبھارہی کامیاب ہوتی ۔مسجد میں چائے کا لنگر چلتا تاکہ شب بیداری کر نے والے لوگوں کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تواس مشروب سے خود کو تروتازہ کرلیا کریں، ہم بھی اس کا فائدہ اٹھاتے، عام دنوں میں تو بچوں کے لیے چائے ممنوع تھی لیکن اس دن ایک شب کے لیے یہ ان پرمباح کر دی جاتی تھی ۔ایک اور سلسلہ تھا ، پوری رات کی تلاوت اور نوافل کے بعد صبح صادق سے ذراپہلے گاؤں کے چار جوان مسجد کی چھت پر چڑھ جاتے اوروہ باری باری سے اپنے سینوں کا پورا دم لگاکرصلوٰۃ و سلام کے کلمات پکارتے۔رات کے آخری پہر ان کی پکار کوسوں دور تک پہنچتی ہوگی۔ ان میں گھنٹے بھر بازی لگی رہتی کہ کون کتنے زور سے پکارتاہے اور کس کی آواز کتنی دور تک جاتی ہےیہاں تک کہ اذان فجر کا وقت ہوجاتا اوراس وقت تک گاؤں ہی کیا پاس پڑوس کی بستیوں کے باشندے بھی بیدار ہوجاتے،سوائےان بچوں کے جو رات بھر  کےجاگنے کے بعد آخری پہر کو سوجاتے کوئی ایسا نہ تھا جو بیدار نہ ہوجاتا اور جس کے حصے میں شب برات کی برکت نہ آتی۔

شب برات جب بھی آتی ہے مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد آجاتے ہیںلیکن خوشیوں کی اس سرشاری اور ماحول کی اس شیرینی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک دکھتے دل کی تڑپ ،جلتی آنکھوں کی نمی اور اس احساس ندامت و خجالت کے ساتھ کہ کاش ! ہماری اس ایک رات کی بیداری صرف ایک رات کی بیداری نہ ہوتی، اے کاش! خوشیوں کی وہی سرشاری، دلوں کی وہی کیفیت ہم پر اور ہمارے ہمجولیوں ، دوستوں اور عزیزوں پر سارے سال بلکہ ساری عمر طاری رہتی، اسی کیفیت اور سرشاری سے ہمارے دل ہمیشہ بھرے رہتے۔اس دکھ اور اس درد کا کرب اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب یہ خیال آتا ہے کہ کاش! اس قوم اور اس ملت کے افراد کویہ احساس ہوتا جسے سال میں ایک شب نہیں بلکہ ایک سے زائدراتیں راتوں کو جاگنے کی مشق کرائی جاتی ہے اور یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ راتیں صرف سونے کے لیے نہیں بنائی گئیں ، یہ شب کی تنہائی میں اپنے اعمال کاجائزہ لینے ، ندامت کے آنسو بہانے اوررب کی بارگاہ میں گڑگڑانے کے لیے بھی ہیںاور یہ کہ ہم سونے کے لیے نہیں بلکہ جاگنے اور جگانےکے لیے ہیں۔مگر یہ کیا کہ یہ ایک شب کو جاگتے ہیں اور پھر سارے سال سوتے ہیں اور ایک شب کو بھی کیاجاگتے ہیں ، یہ جاگنا بھی کیا جاگناہوا، یہ توجاگنے کا شور مچاناہے جو آپ کے ضمیر کو جیتے جی ہمیشہ کے لیے سلادے۔ آپ یہ ظاہر کریں کہ ہم جاگ رہے ہیں اورآپ کا ضمیر مرچکا ہو، آپ یہ بتائیں کہ ہماری انسانیت زندہ ہے اور آپ کے دل مرچکے ہوں۔ اے کاش! شب برات کی بیداری ہمارے دلوں کو بیدار کردیتی،ہمارے ضمیر کو جگادیتی، ہمارے ذہنوں کو موت کی نیند سلانے کے بجائے زندگی کی حقیقی لذتوں سے آشنا کردیتی ، ایک شب کی تلاوت صرف ایک شب کی تلاوت نہ ہوتی، ہمارے ضمیروں پر نزول کتاب کا سامان بن جاتی۔ ہماراقبروں پر جاناآخرت کی جواب دہی کے احساس کو سلانہ دیتا، زندہ و بیدار کر دیتا، ہم اپنے آباو اجداد کی قبروں کی تاریکی کو دور کر نے کی آرزومحض نہ کرتے، ہماری یہ خواہش سچ مچ ان کی قبروں اور ہماری زندگیوںسے تاریکیاں دور کردیتیں۔

پندرہ بیس سال بعد اس بارایک بار پھر ہم شب برات میں دہلی، لکھنؤ یاپٹنہ کے بجائے اپنے آبائی گاؤں میں تھے۔ اس طویل عرصہ میں گاؤں اور اس کے اطراف و مضافات میں کچھ نہیں بدلا ہے، سوائے اس کے کہ جاگنے کے شور میں چمک دمک اور تیزی آ گئی ہے، معمولی لاؤڈسپیکر کی جگہ اسٹیریوساؤنڈ سسٹم نے لے لیا ہے، شمعوں کی جگہ ٹیوب لائٹس اور بجلی کے قمقمے روشن کئے جانے لگے ہیں،ہرکام میں شہروں کی شان درآئی ہے، گاؤں کی سادگی اس میں دب گئی ہے، کراہ رہی ہے۔اب ہٹھے کٹھے کسانوں اور الہڑجوانوں کی جگہ پچکے گال، سوکھی ٹانگوں ، پتلی کمر اوربالشت بھر سینے والے نوجوانوں کی وہی فوج ظفرموج یہاں بھی ہے جو ہمارے شہروں کی سڑکوں پر اس رات شام سے صبح تک بندروں کی طرح اودھم مچاتی پھرتی ہے۔سوائے اس کے کہ یہاں ابھی اس قبرستان سے اس قبرستان تک بائک دوڑانے کی لعنت نہیں پہنچی ہےلیکن ان کے دلوں میں یہاں بھی یہ امنگ یقیناً موجیں مارتی ہوگی کہ ان کی اکثریت کی نشوونما بھی تو شہروں میں ہی ہوئی ہے ۔ان لڑکوں میں تو ان ہی کی کثرت ہے جو دہلی ، ممبئی اور کلکتہ کے کارخانوں میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ایک فرق اوربھی پایا کہ اب گاؤں بھی اس رات دوطبقوں میں بٹاہوامحسوس ہوتاہے، پہلا طبقہ جو سارے ہنگاموں میں شریک تھا، کم پڑھے لکھے لوگوں ،غریبوں اورمزدوروں کی اکثریت پر مشتمل ہے دوسرے طبقے میں ان کی اکثریت ہے جو تعلیم یافتہ ، خوشحال اورنسبتاً باشعورہیں ، ان میں کچھ مولوی و حفاظ بھی شامل ہیں ۔ سماج کے امیرو غریب اورتعلیم یافتہ وناخواندہ طبقات میں یہ دوریاں پہلے صرف شہروں میں نظر آتی تھیں جہاں غریبوں کی کچی بستیوں کی متعفن گلیوں میں خوشحال و تعلیم یافتہ لوگ بھول کر نہیں جھانکتے،اور اگر کبھی ادھرجاناپڑے تو اپنی ناکوں پر رومال رکھ کر گزرتے ہیں ، جہاںکثیر منزلہ عمارتوں کے سایے میں آباد کچی بستیوں میں یگوں کی دوریاں حائل ہیں، اگر ان میں کوئی رشتہ ہے تو وہاں سے آنے والی خادماؤں اورصفائی کرنے یا کوڑے اٹھانے والے لڑکوں سےہے۔یہ خادموں اور مخدوموں کاوہ تعلق ہے جس میں کہیں کوئی جذباتی لگاؤنہیں ہوتا۔ یہ دوری بعض اوقات بڑے روح فرسا مناظرپیش کرتی ہے۔یہ ایکسکلوزن ابھی تک گاؤں میں اس حد تک نہیں بڑھا ہے، ابھی گاؤں کے امیروں نے اپنی بستیاں الگ نہیں بسائی ہیں لیکن یہ دوری اور علاحدگی بیک وقت دوسمتوں میں بڑھتی نظر آتی ہے، ایک تو باشعوروتعلیم یافتہ لوگوں کے ان سے الگ ہوجانے سے ان میں پہلی سی شائستگی، سنجیدگی اوریہاں تک کہ مذہبیت نہیں رہی، کئی خرابیاں درآئی ہیں ، بڑھ رہی ہیں، شہروں کی سڑکوں پر آپ نے بارہامسلمانوں کے مذہبی جلوس میں فلمی گانوں کی دھنوں پر ڈانس کرتے ناشائستہ لڑکوں کو دیکھا ہوگا،آپ ناک بھنوں چڑھاکرگزرگئے ہوںگے لیکن کبھی اس نکتے پرغور کرنے کی زحمت گوارانہیں کی ہوگی کہ اس کے لیے آپ بھی ذمہ دار ہیں،یہ سماج کےمختلفٰ طبقات میں پیداہونے والی دوریوں کادھماکہ ہے، یہ لڑکے بھی آپ ہی کے بچے ہیں،باہرسے نہیں آئے جو مسلم سوسائٹی کی بدنماتصویربنارہے ہیں۔آپ اسکولوں میں اپنی ایک الگ نسل تیار کررہے ہیں، مدرسوں میں ایک الگ نسل تیار ہورہی ہے اور یہ ایک الگ نسل پروان چڑھ رہی ہے جس کو آپ نے حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیاہے۔ یہ دوریاں اس قوم کو کہاں لے جائیںگی ، شاید اس کا احساس ہم میں سے کسی کو نہیں ہے۔ کبھی ہماری مذہبی تقریبات ان دوریوں کو توڑ دیا کرتی تھیں لیکن اب یہ ایسا نہیں کرتیں۔دوسری طرف غریبوں اور انپڑھوں میں یہ دوری احساس محرومی کوپوری شدت کے ساتھ بڑھا رہی ہے۔ان کو اپنے راستے اختیارکرنے، اپنے طریقے اپنانے اوراپنی رسوم و روایات ایجاد کرنے پر آمادہ کررہی ہے۔میں یہاں اسلام کے فقہی اختلافات اوران کے زیراثرپیداہونےوالی دوریوں کی بات نہیں کررہاہوں ،صرف ہندوستانی معاشرے میں مسلم کمیونٹی کی تصویر کو آئینہ دکھانے کی جسارت کررہاہوںاور اس آرزو کے ساتھ کہ کاش ! شب برات سچ مچ نجات کی رات ہوتی ،مسلم معاشرے اور اس کے مختلف طبقات آپس میں شیروشکر ہوجایاکرتے، ہماری مسجدیں مسجدبنوی کا منظر پیش کرتیں، ہماری بستیاں رسول کریم ﷺ کا مدینہ منورہ ہوتیں۔ کاش! اس رات ہمارے مقدر کا ستارہ ہمیشہ کے لیے بیدار ہوجاتااور ہم صرف ایک شب کے جاگنے والےنہ ہوتے۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔