جدیدیت کے گمراہ کن اور خطرناک اثرات (قسط دوم)

آصف علی

عقل کوحاکم کادرجہ دینا

سترہویں صدی میں مغربی فکروفلسفےکےنتیجےمیں خلق جدیدکاظہورہوا۔ یہ نیاآدمی اپنےآپ کومکمل آدمی کہتاتھا، اور اپنے سے پہلے دورکےآدمی کوادھوراآدمی سمجھتاہے، کیوں کہ وہ عہدظلمات کاآدمی تھا۔ یہ روشن خیال، لبرل آدمی آزادی وجمہوریت پرایمان رکھتاہے۔ آزادی کامطلب۔ سرمایہ کی آزادی۔ خواہشات کی آزادی۔ اورعام اخلاقی، معاشرتی، مذہبی، خاندانی، روایتی، نسلی اورتاریخی اصول سےآزادی کاہمہ گیرمنصوبہ تھا۔ وہ خیروشرکےلیےکسی خارجی ذریعےکامحتاج نہ تھااوراپنےخمیر، وجدان اورعقل کوہی خیروشرکاخالق ومالک تصورکرتاتھا۔

حقوق انسانی چارٹرکوقران کادرجہ دینا

اس خلق جدیدکی تعمیروتشکیل میں بنیادی حقوق کےمنشورکاکلیدی کردارہے۔ اس عالمی منشورنےعالم گیرسطح پرنہ صرف فطرت انسانی کومسخ کردیابلکہ حقوق انسانی چارٹرنےکتاب اللہ، سنت نبوی، روایات واخلاقیات کی جگہ بھی لےلی۔ اس منشورنےانسان کوایک ایسی ہستی تصورکیاجودنیامیں مکمل طورپرآزادہےاورکسی پابندی کاخوگرنہیں خواہشات نفس کی کوئی ترتیب اس کامسئلہ ہی نہیں۔  الوہیت انسانی اورخواہش نفسانی کوخدابنانےکےلیےحقوق انسانی کامنشور امریکی دستورسےاخذکرکےصدر، روزویلٹ، کی بیوی ایلنا نےاقوام متحدہ کاچارٹرتیارکیا۔ اس منشورنےانسانی مساوات کاتصوردیا۔ جس کےذریعےمذہبی اورروحانی معاشروں میں حفظ مراتب کی تہذیب تباہ ہوگئی۔ ماں۔ بیٹا۔ استاد۔ شاگرد۔ پیغمبر۔ امتی۔ بزرگ۔ بچہ۔ پیر۔ مرید۔ نیک۔ بد۔ فرشتہ۔ شیطان۔  جاہل۔ عالم۔ احمق۔ عقل مند سب برابرٹھہرے حالاں کہ کسی بھی معاشرےمیں عملاًیہ ممکن نہیں ہے۔

آزادی کےتصورنےیہ پیغام دیاکہ ہرانسان برابرآزاداورعاقل ہےاورعلم کاذریعہ عقل ہے۔ اس عقل کےذریعےانسان خیروشرکی شناخت کرتاہے۔ وہ کسی کوجواب دہ نہیں ہوتا۔ وہ خیرکوتبدیل بھی کرسکتاہے۔ وہ اپنےتصورخیرکی تبدیلی کےلیےکسی کامحتاج نہیں۔ کسی سےاجازت لینےکا پابندنہیں۔ کسی کوجواب دہ نہیں۔ وہ اپنا نفس کسی کےسامنےپیش کرنےاورہدایت  لینےکامحتاج نہیں۔ کسی بھی فردکی قلبی  کیفیت کااس کی ذات سےتعلق نہیں۔ حق وہ ہےجسےجھوٹ ثابت کیاجاسکے۔ جوچیز جھوٹ نہ ثابت ہوسکےوہ حق کہلانےکامستحق نہیں۔ یہی سائنٹفک میتھڈہے، اس کےذریعے سائنس کاارتقاہواہے۔ آج جوسچ ہےکل وہ جھوٹ ہوجائےگا۔ مسترد کردیاجائےگا۔ لہذااصلاًاس طریقےسےجوچیزثابت نہ ہوسکےوہ غلط ہےاس طرزفکرکےنتیجےمیں وحی۔ کتاب اللہ۔ سنت نبوی پرشک کرنالازمی ہے۔ اگرکائنات میں کوئی ایسافکر۔ کتاب، نظریہ اورعقیدہ ہےجس پرشک نہیں کیاجاسکتاتواصلاًوہ غیرسائنسی فکر اور نظریہ ہےجسےردکردیناچاہیئے۔ مسلم جدیدیت پسندبھی یہی باطل خیال پیش کرتےہیں کہ حق وہی ہےجسےغلط ثابت کیا جاسکے۔ ہرزمانےمیں حق کی تعریف، تعبیروتشریح حالات وزمانےکی رعایت سےبدلتی رہتی ہیں۔ لہذاکوئی اسلامی تعبیرمسلسل نہیں ہوسکتی، ہماری علمیت میں اضافےکےساتھ ساتھ تعریف بھی بدلتی جائےگی، یہی اجتہادہے۔ جیسےجیسےزمانہ آگےبڑھتاجائے گااسلام کی تعبیربدلتی جائےگی۔ یہی حرکت دین کی روح اورزندگی ہے، اسی نقطہ نظرکےنتیجےمیں مغربی معاشروں میں دینیات۔ اسلامیات۔ مذاہب۔ اخلاقیات۔  ادب۔ تہذیب اورحفظ مراتب ختم ہوگیے۔

ماخذدینیہ وشریعہ کےنام پرنام نہاد مفکرین کی بےلگام گفتگوعام ہوگئی، قران وحدیث۔ سنت۔ ذات رسالت مآب۔ اسلامی تاریخ۔ تہذیب وثقافت، سب تنقیدکی زد میں ہیں۔ ٹی وی پرمکالمےہورہےہیں کہ شراب پی جائےکہ نہ پی جائے۔ اغلام بازی میں کیاحرج ہے۔ ہجڑابن جانےمیں مذہب کیوں رکاوٹ بنتاہے۔ عمل قوم لوط ایک فطری ذوق ہے، اس میں کیامضائقہ۔ رنڈیاں اورکسبیاں اسلام کی تعبیروتشریح کر رہی ہیں۔ استعماری کارندے شیخ الاسلام کےمنصب پرفائزہیں۔ نام نہادمفکرین اورجدیدیت پسنددانش ورخودساختہ افکارپھیلانےمیں تیزی سےسرگرم عمل ہیں۔ امریکی مغربی برانڈاسلام پیش کیا جارہاہے۔

ٹی وی پردین کوبحث ومباحثےکےذریعے بازیچۂ اطفال بنادیاگیاہے۔ آزادی کابھوت ناچ رہاہےاوراس کی آڑمیں ایک ایک مذہبی روایت کوچن چن کرقتل کیاجارہا ہے۔ بولہبی چراغ مصطفوی ہاتھوں میں لے کرآگ لگارہی ہے۔ لیکن کوئی روکنے، ٹوکنے اور پوچھنے والانہیں ہے۔ سب اپنااپناتحفظ کررہےہیں۔ ہرطرف عبدالمطلب نظرآرہےہیں جوکعبہ پرحملہ آورجدیدیت پسندوں سے یہی کہتے نظرآتےہیں کہ ہمارےاونٹ ہمیں  واپس کردواپنےکعبےکی حفاظت خودخدا کرگا۔ ہمیں اس سےکوئی سروکارنہیں۔ یہ درست ہےکہ اپنےکعبےاپنےقران۔ اپنےپیغمبر کی سنت کی حفاظت خودخداکرےگاوہ کسی کامحتاج نہیں ہے۔ ایک متنفس بھی خداکوتسلیم نہ کرےتوبھی اس کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑتالیکن بندےکی بندگی میں فرق ضرورآجاتاہے۔  لیکن سوال یہ ہےکہ کسی کواحساس بندگی کیوں نہیں ستارہا؟

قوانین اسلام پربےلاگ گفتگو

اس میں کیاحرج ہے؟ایک ایسانکتہ ہے جس نےمادیت کےتمام رنگوں کی اسلام کاری کردی ہے۔ نفس کی پرستش اس دین کےنام پرہورہی ہےجوضبط نفس کےلیے نازل کیاگیاتھا۔ جس نےاعلان کیاتھاکہ انسانوں اورجنوں کی پیدائش کامقصد صرف اورصرف عبادت رب ہے۔ لیکن اب عبادت رب کی بجائےکھلےعام نفس کی پرستش کی جارہی ہے۔ میڈیاپراقدارورو روایات اسلام حوچیلنج کیاجارہاہے۔ فسق وفجور، الحادوزندیقیت کی کھلےبندوں دعوت دی جارہی ہے۔ عہدحاضرکےانسان نےنفس کےرب کوتلاش کرلیاہے۔ اوراس کی ایسی مخلصانہ عبادت کی جارہی ہےکہ شیطان کوبھی رشک آرہاہے۔ وہ کھیل جو مغرب میں مذہب کےخلاف تین سوسال پہلے کھیلا گیا تھا آج اسی رنگ اسی آہنگ سےشب وروزٹی وی چینلوں پراسلام کے خلاف کھیلاجارہاہےلیکن ہم اس سےبے پروا، خواب غفلت میں مست، سورہےہیں۔

جدیدیت اس عہدکاالہ بننےکی کوشش کررہا ہے لہذازبانوں، نسلوں کی زندگی اور موت کےفیصلےکاختیاربھی اسےحاصل ہو گیاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ مغربی  تہذیب انسانوں کارشتہ روح کی بجائے جسم ہے۔ عقیدہ کی بجائےعقل ہے۔ داخل کی بجائےخارج ہے۔ خالق کی بجائےمخلوق ہے۔ قربانی کی بجائےمفادپرستی ہے۔ ایثار کی بجائےمفادپرستی ہے۔ ایثارکی بجائے لذت اندوزی سےجوڑتی ہے۔ وہ دنیاکومادی عروج واقبال کےپیمانےسےناپتی ہے۔ جب کہ اسلام انسانی پیدائش کامقصداپنےرب کی عبادت کےسواکچھ اورنہیں بتاتا۔ یہ عبادت ہی انسان کےاندرعاجزی۔ فروتنی۔  ملنساری۔ سادگی۔ دلداری۔ خاکساری۔ اورقربانی کاجذبہ پیداکرتی ہے۔ جس کےنتیجہ میں خاندان بنتےہیں اورنسلیں جنم لیتی ہیں، زبانیں پروان چڑھتی ہیں۔

بےتحاشہ آزادی۔ خودکشیوں میں اضافےکاسبب

بنیادی حقوق کےفلسفےنےانسانوں کو۔ ۔ خاندانوں کو۔ اجتماعیتوں کو۔ گروہوں کو۔ نسلوں اورقبیلوں کوتہس نہس کرکےہرانسان کوتنہاکردیاہےاورہرانسان تمام اجتماعیتوں سےآزادہوگیاہے۔ لیکن اس آزادی نےاسےپاگل کردیاہے۔ دنیامیں سب زیادہ نفسیاتی مریض مغرب میں ہیں۔ ناروے۔ سوئیزرلینڈ۔ جرمنی۔ فرانس۔ جاپان جیسےدنیاکےامیرترین مملک میں سب سےزیادہ ہے۔ سوال یہ ہےکہ جب۔ مساوات۔ آزادی۔ ترقی۔ خوش حالی اوردولت یعنی سب کچھ مل جانےکےباوجودان ترقی یافتہ اقوام میں خودکشی کرنےکی وجوہات کیاہیں؟

مغربی تہذیب جوپہلےدنیاپرحملہ آورتھی اب خودہی اپنےآپ پرحملہ آورہےپہلےاس تہذیب نےاجتماعیتوں کوتحلیل کرکے انسان کوتنہاکرکےانھیں مادروپدرآزادکیا جب یہ آزادی گلےپڑگئی توخودکشی کا راستہ دکھادیاگیا۔ مغرب کےبہت سےاہم  دانش ور۔ مفکرین۔ فلاسفر۔ سیاست داں۔ ادیب اورسرمایہ دارخودکشی کرچکےہیں۔  اور یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔ جدیدیت اورنظام خاندان کی تباہی اجتماعیتوں کےخاتمےکےنتیجےمیں زبانوں اورنسلوں کےلیےشدیدخطرات پیداہوچکےہیں۔ انسان نہ قربانی کاتصورکر سکتاہےناکسی کےلیےایثارکرسکتاہے۔  اجتماعی نظم وضبط خاندان۔ قبیلے۔ گروہ کوایک حوصلہ۔ طاقت اورولولہ عطاکرتےہیں۔ مغربی تہذیب نےانسانوں کو لامحدودآزادی دےکراجتماعیتوں کاخاتمہ کرکےانسانوں کوحاسد۔ حریص۔ بےحس اور مریض بنادیاہے۔ تعیشات زندگی کےنتیجےمیں اخراجاتِ زندگی بڑھ گیے۔ اپنی ذات ہی سب کچھ ہوگئی ہے۔ خواہشات نفس ہی الدین بن گیاہے۔ اس آئینہ خانےمیں اپنےہی نفس کی پرستش ہورہی ہےتوفطری اجتماعیت کیسےوجود پذیرہوگی؟فطری اجتماعیت کاپہلاادارہ خاندان ہوتاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔