جزیرۃ العرب مومن کا دھڑکتا دل ہے

محمدصابر حسین ندوی

باد نسیم آج بہت مشک بار ہے

شایدہوا کے رخ پہ کھلی زلف یار ہے

جزیرہ عرب مومن کا دھڑکتا دل ہے، اس کی حیثیت جسم ایمانی میں سر کی ہے، اس سے محبت اور خیرسگالی ایمان کا حصہ ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خیر القرون کی آماجگاہ ہے، وہ چشمہ حیواں اور آب حیات کا منبع ہے، صلح و صلاح اور رشد وہدایت کا مرکز اور دین الہی کی اشاعت و خدمت کا نقطہ اصلی ہے، وہیں سے انسانی زندگی کی باد بہاری چلی اور اسی سے انسانی زندگی میں بہار ہے، اس کا وجود کرہ ارض پر رحمت اور انسانیت کیلئے احسان و منت ہے، اس کے بغیر دنیا کی کسی بھی آبادی کا کوئی تصور نہیں، اس کی خزاں پوری دنیا کی خزاں ہے، اس کا وجود بابرکت ہمیشہ انسانی دل کا قرار اور سکون قرار پائی ہے، وہ سا سے شاہ و گدا، مالک و غلام اور حشم و خدام سے لے کرعظیم امپائر کے عظیم الشان شہنشاہ کی آنکھوں کا تارہ ہے، وہاں کی گرد کو بھی جوہر سمجھ کرچومتے رہے ہیں، وہاں سے چلنے والی ہر فضا؛ رخ یار کے خمدار زلفوں کا لطف دیتی رہی ہے، تاریخ میں ایسے قصہ شاذ و نادر ہی ملتے ہیں جس میں کسی بھی فرعون کی فرعونیت نے حرم مقدس یا بالعموم جزیرہ عرب کوتاخت و تاراج کا نشانہ بنایا ہے، اور اگر ایسا ہے تو زمانے نے وہ منظر دیکھا کہ وہ کھائی ہوئی بھوسی بن کر رہ گئے، وہ روئے زمین پر کٹ کٹ کر پرزہ پرزہ ہوکر بکھر گئے، ان کے پور جدا ہوگئے، ان کے جسم کا ہر ٹکڑا رس رس کر زمین بوس ہوگیا؛حتی کہ تاریخ میں ان کے وجود کا ایک گوشت بھی پانا محال ہے۔

خصوصا مسلمانوں کیلئے حرم مقدس کے تقدس کی اولیت اس کی جان و مال سے بھی قبل ہے، اس کی رگوں میں سانس جاری ہو اور اس کے نبض میں خون کی روانی موجود ہو، اس کے دھڑ کے ساتھ اس کا سر جڑا ہوا ہو؛ اس کے باوجود اس کے سامنے حرم مقدس کی پامالی کی جائے، یہ اسے قطعا گوارا نہیں، اور اگر مبادا وہ حرم مقدس کی زبوں حالی پر دلی کی دنیا میں بے چینی و بے اطمینانی کی دولت بے بہا بھی نہ رہی؛ تو پھر اس کے ایمان پر اشکال کیا جاسکتاہے،اس کے کلمہ گو ہونے میں ترد وشش وپنج کا اندیشہ ہے، ضرورت ہوگی کہ وہ اپنے ایمان کا جائزہ لے اور گریبان میں پڑے مردہ دل کی دھڑکنوں کو ٹٹولے، اپنی نبض کو پکڑے اور اس کی حرارت دیکھے، ساتھ ہی اس کے ایمان کا تقاصہ ہے کہ وہ مکمل جزیرہ عرب کی محبت میں اپنے دل کو وسیع کرے ،اس کے تار اور ساز میں اس کی جاودانی کا رنگ گھول دے، اس کی صدا پر لبیک کہنے اور وہاں کے ہر ذرہ کو اپنا مقدر مان کر کلیجہ نکال کر رکھ دے، اس کی محبت میں وہ چیل کے مثل جھپٹے اور اس پر پڑی بد نگاہ کی نگاہیں نوچ لے، اس کی طرف برھتے ہر شر پسند کے قدم اکھاڑ کر رکھ دے، اسے اپنی فحاشی و عیاری اور فتنہ پروری کا اڈہ بنانے والوں پر شہباز بن کر ٹوٹ پڑے، یہ بھی روا ہے کہ اس کے سامنے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خوبصورت تشتری میں سجا کر پیش کردے، یہ بھی جائز ہےکہ اس کی خاطر سر قلم کروائے اور نیزوں پر اچھالا جائے اور یونہی ہنستا و مسکراتا ’’رضیامرضیا‘‘ جنت الفردوس کا پرندہ بن جائے۔

مومن جیالوں اور مرمجاہدوںکی داستانوںسے لبریز مراجع ومصادر کی کتابیں اٹھا کر دیکھئے! ہر صفحہ پر ان مجاہدوں اور سر فروشوں کے خون کے قطرے ملیں گے ؛جنہوں نے جزیرہ عرب کی حفاظت کو سب سے مقدم رکھا، جنہوں نے اپنی جان ومال اور ملک و قوم کو ثانوی درجہ میںرکھتے ہوئے ؛سب پر فوقیت جزیرہ عرب کی محبت و شغف کو دیا ہے، ہندوستانی مسلمانوں کا امتیاز اس سلسلہ میں بھی قائم ہے، یہاں کے شعرا کا کلام پڑھئے ! ان کے کلام میں جزیرہ عرب سے والہانہ لگاو کی وہ تصویر نظر آئے گی؛ کہ دل ہار بیٹھیں گے، آنکھوں سے اشکوںکی لڑیاں لگ جائیں گی، دامن تر اور جسم نم ہوجائے گا، اس سلسلہ میں حضرت سید احمد شہید کا وہ قصہ پڑھ لینا چاہئےاور آپ کی حیات کا وہ جز جان لینا بھی کافی ہے، کہ جس وقت آپ نے نام نہاد مفتیوں کے خلاف ؛ جنہوں نے ہندوستانیون کیلئے سمندری دشواری کی وجہ سےحج کو غیر واجب قرار دے دیا تھا،اسے توڑنے اور حج مبرور ادا کرنے کی غرض سے؛نیز جزیرہ عرب سے عشق و لگاو کا اظہار کرنے کی خاطر اس کی سمت عزم سفر باندھا تھا،واقعہ یہ ہے کہ پورے ہندوستان سے عاشقوں کا جوق در جوق آنا اور سر بکف ہوکر باد بانی کشتیوںکے ذریعہ سمندروں کے سرکش طوفان اور جان لیوا موجوں کو چیرتے ہوئے سرزمین حرم کی طرف کوچ کرنا ایمانی حرارت پیدا کردیتا ہے، اورسوز و گداز کی عجب لہر میں مبتلا کر دیتا ہے، سیدی حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے سیرت سید احمد شہید میں لکھا ہے؛ کہ جب آپ نے سب سے پہلی مرتبہ جزیرہ عرب کی سرزمین دیکھی اور سمندر کی اتھاہ گیرائی ہی سے جب پہلا دیدار ہوا ، تو بلا ساختہ دو رکعت شکرانے کی ادا کرنے لگے اور اس کے بعد آپ اپنے ساتھیوںسے مارے جوش میں کہنے لگے ؛کہ یہ کیا کم نصیب ہے کہ جزیرہ عرب کا ذرہ ہی دیکھنے کو نصیب ہوگیا۔

   آپ کا یہ پورا سفر نامہ قابل مطالعہ ہے،ایمانی حرارت سے بھرپور اس کتاب میں جزیرہ عرب کی محبت کے قسمہا قسم کے قصہ نقل کئے گئے ہیں،ایک دفعہ یہاں تک ہوتا ہے؛ کہ کچھ قزاق اور لٹیرے عرب بدو آپ کے قافلہ پر حملہ ور ہوتے ہیں، جان ومال کا خطرہ ردپیش ہے، لیکن آپ کا عمومی فرمان تھا کہ کوئی بھی جزیرہ عرب کے کسی باشندے کو نقصان نہ پہونچا ئے گا، بالآخر مال لٹ گیا، سرمایہ حیات ہاتھ سے جاتا رہا؛ لیکن جزیرہ عرب کی محبت پامال کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ خود عہد خلافت عثمانیہ کا ستارہ پورے شباب پر رہا، اس کے پھریرے پوری دنیا پر لہراتے رہے ؛تمام عظیم طاقتیں اس کے سامنے خم تھیں؛ لیکن ان کا حال یہ تھا کہ حضرت مولا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے مسئلہ خلافت میں لکھا ہے ؛کہ وہ جزیرہ عرب کو ایمانی محبت و مودت اور عقیدت کی نظر سے دیکھتے تھے، اس کے سامنے کسی بھی لولچک رائے کو قبول نہ کرتے تھے ،اس کے حق کی تمام پالیسیوں میںعقیدت کا عنصر ایسے غالب ہوتا تھا ؛جیسے کسی گلاب پر گلابی رنگ، آسمان کا نیلگوں رنگ۔ یہاںتک کہ جزیرہ عرب کا نمائندہ (گورنر یا خادم الحرمین الشریفین)خود ایک خلیفہ کی حیثیت اور عزت رکھتا تھا ،اوروہاں کے خادم کو سب سے زیادہ محبوبیت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

عالم عرب سے محبت کا یہ سلوک کوئی خام خیالی اور لطافت ہی نہیں ؛بلکہ خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں اس کی طرف اشارہ ہے، یہ بات الگ ہے کہ اکثر ماہرین حدیث نے ان احادیث کو ضعیف ٹھہرایا ہے؛ لیکن ہم حرماں نصیبوں کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ہی کیا کم ہے، ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم عربوں سے تین وجہ سے محبت کرو: (۱) میں عربی ہوں۔ (۲) قرآن عربی ہے۔ (۳) اہل جنت کا کلام عربی ہے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ -رضي اللہ عنہما- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ: لِأَنِّی عَرَبِیٌّ، وَالْقُرْآنُ عَرَبِیٌّ، وَلِسَانُ أَہْلِ الْجَنَّةِ عَرَبِیٌّ۔ (رواہ الطبراني فيا لکبیر: ۱۱/۱۴۸، رقم الحدیث: ۱۱۴۴۱، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت۔قال الہیثمي: فیہ العلاء بن عمرو الحنفي، وہو مجمع علی ضعفہ (مجمع الزوائد: ۱۰/ ۵۱، ط: دار الفکر، بیروت)، ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں؛ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر کی علامت ہے، عرب سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر کی علامت ہے، جس شخص نے عرب سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔عَنْ أَنَسٍ -رضي اللہ عنہ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: حُبُّ قُرَیْشٍ إِیمَانٌ، وَبُغْضُہُمْ کُفْرٌ، وَحُبُّ الْعَرَبِ إِیمَانٌ، وَبُغْضُہُمْ کُفْرٌ، فَمَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَقَدْ أَحَبَّنِی، وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَقَدْ أَبْغَضَنِی․(طبرانی اوسط: ۲۳۰۶۔ ضعیف)۔

مستدرک کی بھی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرب سے محبت ایمان کا حصہ ہے؛ جبکہ ان سے نفرت نفاق ہے۔قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :حب العرب إيمان ، وبغضهم نفاق– رواه الحاكم في "المستدرك” (4/97) وقال الذهبي : الهيثم بن حماد متروك ، وانظر "السلسلة الضعيفة” (1190)- ایک روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ نے پوری مخلوق پیدا کی اور مجھے ان میں سب سے بہتر جماعت میں سے بنایا، قبائل پیدا کئے اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں سے بنایا اور گھروں میں بھی سب سے بہتر گھر والا بنایا—– ظاہر یہ اشارہ اہل عرب اور قبیلہ قریش کی طرف ہے، اور لا محالہ پردہ زمین پر اس سے بہتر گھر اور اس سے بہتر سرزمین کوئی دوسری نہیں ہوسکتی، خواہ قیامت ہی کیوں نہ آجائے۔فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الله خلق الخلق فجعلني من خير فرقهم ، ثم خير القبائل فجعلني في خير قبيلة ، ثم خير البيوت فجعلني في خير بيوتهم ، فأنا خيرهم نفسا ، وخيرهم بيتا ) قال الترمذي : هذا حديث حسن ، وعبد الله بن الحارث هو ابن نوفل . [ الحديث رواه الترمذي (3607) وأحمد (17063) ، وضعفه الألباني في ضعيف الجامع ] . تفصیل کیلئے دیکھئے: "اقتضاء الصراط المستقيم” (148-162)وانظر : "منهاج السنة النبوية” (4/364)

  ایسے میں بعض نام نہاد سفید پوشوں کی کم عقلی و نادانی پر رحم آتا ہے جو دنیا کی دوسری سرزمین کو جزیرہ عرب کے مقابل رکھتے ہیں، اور وہاں کے مسائل کو دوسرے ممالک یا مادر وطن سے جوڑتے ہیں،یہ بات سچ ہے کہ آج ہمارے ارد گرد سازشوںکا جال بچھا ہوا ہے، ہمارا گھر جل رہا ہے ہمارے بنیاد کی ہر اینت غلط ڈھنگ پر رکھ دی گئی ہے، صلیبی و صہیونی اور ہندو ازم کی تحریکات نے ہماری کمر توڑدی ہے، ہجومی دہشت گردی اور بات بات پر اچک لئے جانےکا خا خطرہ ہے، یقینا اس پر بھی لگام لگنی چاہئے ، اس کے خلاف بھی تحریکات اٹھنی چاہئیں اور لائحہ عمل تیار کیانجانا چاہئے ؛ لیکن کوئی یہ سمجھائے کہ جب بات ایمانی مرکز کو بچانے اور اپنے جسم کی سانس کٹ جانے کی ہو تو کیا کوئی بقیہ اعضاء پر سر دھنتا رہے گا یا اپنی بقا ودوام کی فخر میں کوشاںہوگا، ویسے جسم چھلنی چھلنی ہے لیکن پلکیں ہی اگر کھلنا بند ہوگئیں اور دل کی دھڑکن ہی رک گئی تو کیا شور اور کیا غوغا! دنیا کی تمام دولت بھی ختم ہوجائے ساتھ ہی آخرت کا وہ سہارا جو خرمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متوسل ہے اس کا واسطہ بھی ٹوٹ جائے تو زندگی کس کام کی!ایسا ایمان اور ایسی شان کس کام کی ! ہائے یہ نادانی یہ جہل!

آج عموما جزیرہ عرب کو خانگی جنگ و جدل اور آپسی تفرقہ و انتشار کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے، اکثر ممالک اپنی بقا کو ترس رہے ہیں، چھوٹے چھوٹے خطے کیلئے ایک دوسرے کی گردنیںمارنے اور صلیبی و صہیونی طاقتوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا والی کیفیت ہے؛ لیکن ان سب میں بالخصوص حرم مقدس کی پامالی پر دل کیوں کر خموشی اختیار کرے!اور کیونکر اس کے اندر کوئی طوفان برپانہ ہو، خاص طور پر مکروہ بن مکروہ (محمد بن سلمان) جیسے قاتل و سفاک کی ولی عہدی نے دل تار تار کر دیا ہے، اس کی نا اہلی اور غیر اسلامی رویہ نے بلغت القلوب الحناجر کی کیفیت پیدا کردی ہے، ایک ایسا نوالہ بن گیاہے ،جو نہ اگلتے بنتا ہے اور نہ نگلتے بنتا ہے، مزید برآں یہ کہ اس کے خلاف بولنے لکھنے اور زبان کھولنے اور ناصحانہ بات پر اپنوں ہی کی جانب سے ترش روئی کا سامنا ہے، حرم مکرم کے منبر پر ناموس صحابہ کی بے حرمتی کی جاتی ہے، جو خود حقائق کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں کہ وہ مجرم اور جزیرہ عرب کے گنہگار ہیں ؛لیکن ریال پرستی کا تالا ٹوٹتا ہی نہیں، اور ناہی ایمان کی مالا جپنے والوں کے کان پر جوں رینگتی ہے، بلکہ وہ مصلحت کی چادرمیں غرق ہوکر اپنا وجود ہی کھونے کے درپے ہیں؛ لیکن یہ کمزور و نحیف اور ایمان سے مجبور کرے تو کیا کرے؟والی اللہ المشتکی۔

دام بھی غزل آشنا رہے طائرانِ چمن تو کیا جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیرِ لبی رہی 

ترا جلوہ کچھ بھی تسلّیِ دلِ ناصبور نہ کر سکا وہی گریۂ سحَری رہا، وہی آہِ نیم شبی رہی نہ خدا رہا

 نہ صنَم رہے، نہ رقیبِ دَیر و حرم رہے نہ رہی کہیں اسَدُ اللّہی، نہ کہیں ابولہَبی رہی

 مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا وہ شہیدِ ذوقِ وفا ہوں مَیں کہ نوا مری عَربی رہی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔