حیاتِ رسول اکرم ﷺ پر ایک نظر

مفتی محمد صادق حسین قاسمی
رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کی مختصر معلومات یقیناًہر مسلمان کو ہونا ضروری ہے ،ہمارے بچوں کو سیرتِ رسول ﷺ کی بنیادی اور ضروری باتیں زبان زد ہونی چاہیے ،یہ محبتِ رسول ﷺ کا بھی تقاضا ہے اور بحیثیت امتی ہونے کی ہماری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ ہم اپنے محسن نبی ﷺ کی سیرت کی ضروری باتوں سے واقف رہیں۔تو آ ئیے فخرِ دوعالم ،سرورِ کائنات ،امام الانبیاء خاتم النبین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور سیرتِ مبارکہ پرایک مختصر ڈالتے ہیں۔سیرت کی معتبر اور مشہور کتابوں کے حوالے سے مختصر معلومات پیش ہیں۔
ولادت باسعادت:
20/اپریل571ء ،پیر کے دن ربیع الاول کے مہینہ میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔مشہور تاریخ 12ربیع الاول ہے،محققین کے نزدیک یہ ربیع الاول کی9تاریخ تھی۔( سیرت النبی:1/109از علامہ شبلی ؒ ،الرحیق المختوم:83)
نامِ مبارک:
دادا نے آپ کا نام محمد(ﷺ)رکھا اوروالدہ ماجدہ نے’’ احمد‘‘رکھا،جب آپ بڑے ہوئے تو صاحبزادے کی نسبت سے ’’ابوالقاسم‘‘ کنیت اختیار فرمائی۔( پیامِ سیرت:43)اس کے علاوہ آپ ﷺ کے بہت سے مبارک نام ہیں۔
والدین محترمین کے اسمائے گرامی:
آپﷺ کے والدِ ماجد کانام نامی اسمِ گرامی حضرت عبداللہ ہے ،آپ ﷺ جب بطنِ مادر میں تھے اسی وقت آپ ﷺ کے والدِ ماجد نے وفات پائی۔والدہ ماجدہ کا نام حضرت سیدہ آمنہ ہے۔والد ہ محترمہ کی وفات ’’مقامِ ابواء‘‘ پر ہوئی ، اس وقت آپ ﷺ کی عمرِ مبارک صرف چھ سال تھی۔( سیرتِ پاک ﷺ:12)
دادا،دادی اور نانا،نانی کے اسمائے گرامی:
آپ ﷺ کے دادا کا نام عبد المطلب ،( عبد المطلب کا اصل نام شیبۃ الحمد تھا۔( سیرت المصطفی :1/32)پردادا کانام ہاشم ،دادی کانام فاطمہ تھا ،اور نانا کانام وہب ،نانی کانام برَّہ تھا ۔
آپ ﷺ کے چچا:
آپ ﷺکے والد ماجد حضرت عبداللہ کے کل دس بھائی تھے :
(1) عباسؓ (2) حمزہؓ (3) عبداللہ (4) ابو طالب (5) زبیر(6)حارث (7) جَحل (8) المقوِم (9) ضرار (10) ابولہب۔ان میں سے حضرت عباسؓ اور حضرت حمزہؓ مشرف بہ اسلام ہوئے ،ابو طالب آپ کے بہت محسن اور محبوب چچا تھے،اور ابو لہب اسی قدر بد ترین دشمن۔( مختصر السیرۃ الرسول ﷺ:60)
آپ ﷺ کی پھوپیاں:
آپ ؐ کی چھ پھوپیاں تھیں : (1) ام حکیم (2) عاتکہ (3) برَّہ (4) امیمہ (5) اروی (6) صفیہ ۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1/(127ان میں سے حضرت صفیہ نے اسلام قبول کیا اور اروی کے بارے میں بھی کہا گیا کہ اسلام قبول کیا۔ (زاد المعاد:1/ 102)
دودھ پلانے والی خواتین:
پیدائش کے بعد چند دن تو والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا،اس کے بعد ابولہب کی آزاد کردہ باندی حضرت ثوبیہؓ نے اور پھر اس کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے۔( تہذیب السیرۃ النبویۃللنوی:31)حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے شوہر کانام حارث بن عبد العزی تھا ،حضرت ثوبیہ اور حضرت حلیمہ سعدیہؓ آپ پر ایمان لائے ،حارث بن عبد العزی نے بھی اسلام قبول کیا ۔( پیامِ سیرت:44)
رضاعی بھائی بہن:
آپﷺ کے رضاعی چاربھائی بہن تھے جن کے نام یہ ہیں:عبد اللہ ،انیسہ ،حذیفہ اور حذافہ جو شیماء کے لقب سے مشہور تھیں ،ان میں عبد اللہؓ اور شیماءؓ کا اسلام لانا معلوم ہے باقیوں کا نہیں ۔( سیرت النبی ﷺ:1/111)
ازواجِ مطہراتؓ:
آپ ﷺ کی گیارہ ازواجِ مطہراتؓ ہیں جن کے نام بالترتیب یہ ہیں:(1)حضرت جدیجہ الکبریؓ ۔(2)حضرت سودہؓ (3)حضرت عائشہؓ ۔(4)حضرت حفصہؓ ۔(5) حضرت زینب بنت خزیمہؓ ۔(6)حضرت ام سلمہؓ ۔(7)حضرت زینب بنت جحشؓ ۔(8)حضرت جویرہؓ ۔(9) حضرت ام حبیبہؓ ۔( 10) حضرت صفیہؓ ۔(11)حضرت میمونہؓ ۔
صاحبزاے اور صاحبزادیاں:
آپﷺکو چار صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے ہوئے ،صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :
(1)حضرت قاسمؓ (2)حضرت عبداللہؓ (3)حضرت ابراہیمؓ
صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں :
(1) حضرت زینبؓ :ان کا نکاح حضرت ابو العاصؓ سے ہوا۔ (2)حضرت رقیہؓ:ان کا نکاح حضرت عثمان غنیؓ سے ہوا۔(3)حضرت ام کلثومؓ : حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ نے ان کو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دیا ،اسی لئے حضرت عثمانؓ ذی النورین سے ملقب ہوئے۔ (4)حضرت فاطمہؓ الزہرا: آپ کا نکاح حضرت علیؓ مرتضی کرم اللہ وجہہ سے ہوا ،اورآپ سے حضور ﷺ کی نسل چلی ۔تینوں صاحبزادے بچپن میں ہی فوت ہوگئے ،حضرت ابراہیم کے سوا آپ ﷺ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ الکبریؓ کے بطن سے ہیں ،حضرت ابراہیم آپ کی باندی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے ۔
نواسے اور نواسیاں:
آپ ﷺ کی بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کی دواولادیں ایک لڑکا ایک لڑکی تھیں:(1)اُمامہ بنت ابوالعاص۔(2)علی بن ابوالعاص۔’ علی ‘‘کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا۔اور امامہ بڑی عمر کو پہنچی۔
دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ سے ایک لڑکا ہوا :عبد اللہ بن عثمان غنیؓ ۔چھ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔
چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی پانچ اولادیں ہیں(1)حسنؓ بن علیؓ ۔(2)حسین بن علیؓ(3)محسن بن علیؓ۔(4)ام کلثوم بنت علیؓ۔(5)زینبؓ بنت علیؓ۔محسنؓ کا بچپن میں انتقال ہوگیا باقی چار تاریخ میں مشہور ہیں۔( سیرت النبی:2/249 )
آپ ﷺ کی کنیزات:
آپ ﷺ کے پاس چار کنیزات( باندیاں رہیں،نبی کریم ﷺ نے اپنی آمد کے ساتھ اس سلسلہ غلامی کو بھی آہستہ آہستہ ختم فرمایا) (1) ماریہ قبطیہؓ ۔جن سے حضرت ابراہیم پیداہوئے۔(2) ریحانہؓ ۔(3) ایک باندی جو قید ہوکر آئی۔(4) اور ایک باندی جسے حضرت زینب بنت جحش نے ہبہ کیا۔( زاد المعاد:1/111)
آپ ﷺ کے خدمت گزار:
(1) حضر ت انس بن مالکؓ جو مختلف ضروریات میں آپ کی خدمت پر مامور تھے۔(2) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو نعلین اور مسواک کی خدمت پر مامور تھے۔(3)حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ جو سفر کی خدمت میں رہتے۔(4)اسلع بن شریک جو سواری کے نظم میں رہتے۔اس کے علاوہ بھی بعض صحابہ کرام تھے جوآپﷺ کی ہمہ خدمت کے لئے حاضر رہا کرتے تھے۔( زاد المعاد:1/113)
آپ ﷺ کی سواریاں:
آپ ﷺ کے پاس تین اونٹنیاں تھیں جن کے نام یہ ہیں:(1)العَضْبَاء(2) الجَدْعاء (3)القَصْواء۔تین قسم کے اونٹ تھے: (1) الَسکْب (2)سَبْحَۃ۔(3)المُرْتَجِزْ۔اور تین قسم کے گھوڑے تھے:(1)لَزَازْ۔(2)الَظرْب ۔(3) اللُحَیْف۔ایک خچر بھی تھا جس پر آپ ﷺ سوار ہواکرتے تھے جس کانام ’’دُلدُل ‘‘تھا۔( الفصول فی اختصار سیر ۃ الرسول لابن کثیر:276)
آغازِ وحی:
چالیس کی عمرمبارک میں نبوت سے سرفراز کئے گئے اور وحی کا آغاز ہوا ،آپ ﷺ غارِ حرا میں تھے رمضان کے مہینہ میں حضرت جبرئیل ؑ آئے اورقرآن کریم کے سور ۃ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں۔( الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول :49)
شعبِ ابی طالب میں :
جب اسلام پھیلنے لگا تو مشرکین مکہ نے آپﷺ اور آپ ﷺ کے خاندان کا بائیکاٹ کیا،اور تمام معاشرتی تعلقات ختم کردئیے ،محرم 7نبوی میں تقریبا تین سال تک آپﷺ اور بنو عبد المطلب ’’شعب ابی طالب ‘‘ کی گھاٹی میں محصور رہے۔( رحمۃ للعالمین:91،مداہب للدنیہ:1/247)
عام الحزن:
شعبِ ابی طالب سے نکلنے کے بعد 10نبوی میں پہلے آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کاانتقال ہوا ،تین دن بعد آپ ﷺ کی زوجۂ محترمہ حضرت خدیجہؓ کا بھی انتقال ہوگیا ،یہ دونوںآپ ﷺ کے مضبوط سہارا تھے ،باہر ابوطالب اور اند ر حضرت خدیجہؓ سے آپ ﷺ کو بڑی تقویت حاصل تھی ،ان دونوں کے انتقال کی وجہ سے آپ ﷺ پر بڑے مصائب آئے ،اسی لئے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال)کہاجاتا ہے۔( المواہب اللدنیۃ:1/266)
سفرِ معراج:
آپ ﷺ کا حیرت انگیز معجزہ سفرِ معراج 11نبوی میں سفرِ طائف سے واپسی کے بعد ہوا ،مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو یہ سفر پیش آیا ،جس میں آپﷺ نے آسمان دنیا کا مشاہد ہ فرمایا۔( سیرت المصطفیٰ :1/288)
ہجرتِ مدینہ:
27صفر 13نبوی بروز جمعرات آپ ﷺ حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر غارِ ثور کی طرف نکلے ،تین دن یہاں پناہ لی،پھر یکم ربیع الاول بروز اتوار رات کو مدینہ کی طرف چل پڑے،8ربیع الاول کو قباء پہنچے،یہاں چودہ دن قیام فرمایا،یہاں سے مدینہ منورہ پہنچے۔( پیامِ سیرت:57)
آپ ﷺ کے حج وعمرے:
آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد چار عمرے کئے اور ایک حج ادا کیا جو’’ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔(تہذیب سیرۃ النبوۃ:54،حجۃ الوداع وعمرات النبی:225)
غزوات:
تمام غزوات( جنگوں)کی تعداد جو ہجرت کے بعد ہوئے دس سال میں تقریبا 29 ہے۔سات غزوات بڑے شمار کئے جاتے ہیں:(1)غزوہ بدر(2)غزوہ احد(3)غزوہ خندق(4)غزوہ خیبر(5)فتح مکہ(6)غزوہ حنین(7)غزوہ تبوک۔ایک غزوہ ’’غزوہ احد ‘‘ میں آپﷺ زخمی ہوئے۔سرایا( چھوٹے لشکر) کی تعدار تقریبا 60ہے۔( زاد المعادلابن القیمؒ :1/125)17رمضان 2ھ میں غزوہ بدر ہوا،غزوہ احد شوال 3ھ میں پیش آیا۔غزوہ خندق شوال 5ھ میں ہوا۔غزوہ خبیرمحرم7ھ میں ہوا۔غزوہ فتح مکہ رمضان 8ھ میں ہوا۔غزوہ حنین 6 شوال 8ھ میں ہوا۔غزوہ تبوک رجب9ھ میں پیش آیا۔( تلخیص از سیر ت المصطفیٰ)
وفات :
ہجرت کے 11سال29صفر سے آپ ﷺ کی علالت کا سلسلہ شروع ہوا،12ربیع الاول پیر کے دن،سہ پہر 63سال کی عمر مبارک میں آپ ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی ،تجہیز وتکفین منگل کے دن ہوئی ، لوگوں نے تنہا تنہا آپﷺ کی نمازہ جنازہ پڑھی ،چہارشنبہ کو نصف شب میں تدفین عمل میں آئی۔( تہذیب السیرۃ النبوۃ للنووی:21،پیامِ سیرت:67)
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَاءِمًا اَبَداً عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلِّھِمٖ

تبصرے بند ہیں۔