امت کے نام ربیع الاول کا پیغام!

محمد آصف ا قبال

دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان میں نظریہ قوت و طاقت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسلام کس نہج پر تبدیلی کا خواہاں ہے ؟اس سلسلے کی چند باتیں یہاں بپیش کی جارہی ہیں ۔کوشش کی گئی ہے کہ یہ باتیں بنی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لی جائیں تاکہ ماہ ربیع اول میں جہاں بے شمار جلسے جلوس اور تقاریر کے ذریعہ نبی رحمت ؐکی سیرت کے مختلف پہلو کیے جائیں وہیں آج کے ماحول میں یہ بات بھی عام کی جائے کہ ہم ،بحیثیت مسلمان کس تبدیلی کے خواہاں ہیں۔اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نیکی کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی، تقوے کے ابلاغ سے ہونے والی قلبِ ماہیت کئی نسلوں تک باقی رہتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی ایک ایسا نعرہ، ایسا نظریہ اور فلسفہ ہے جوکئی نسلوں کو اپنا اسیر کرسکتا ہے۔ مسلۂ کا حل جب پیش کیا جاتا ہے یا جن لوگوں کے پاس حل موجود ہے اور وہ اس کو لے کر آگے بڑھنے کا عزم کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو مختلف پابندیوں میں جکڑ اجاتا ہے۔ پھر اس تعلق کو امن کی بجائے دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اسی درمیان مذہب اسلام جو امن کا داعی ہے ،کو فرقہ وارانہ منافرت میں پیش کرنے کی سعی کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔یہی نہیں جہاد کے ذکرکے ساتھ اسلام دشمن طاقتیں کہتی ہیں کہ اسلام تلوار اور طاقت کے زور پر پھیلاہے۔ اس کے باوجود تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدر کی صورت میں اس وقت لڑاجب باطل قوتیں اہل حق کے مقابلہ بہت زیادہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کافروں کے مقابلے کبھی بھی اپنے زورِ بازو پر بھروسا نہیں کرتے۔ ان کا بھروسا اللہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔پھر یہ معاملہ غزوہ بدر تک ہی محدود نہیں ہے، مسلمان حق و باطل کے کسی بھی معرکے میں شریک ہوں انہیں ہمیشہ اصل امید اللہ کی ذات ہی سے ہوتی ہے۔ ایسے میں جن کا انحصار ہی ہر صورت میں اللہ پر ہو وہ نہ طاقت پرست کیسے ہو سکتے ہیں اور یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے کہ اسلام طاقت کے بل پر پھیلا ہے یا پھیل سکتا ہے۔اس پس منظر میں اسلامی معاشرہ اپنی روح میں ایک جہادی اور مزاحمتی معاشرہ ہوتا ہے اور اس کی مزاحمت اپنے نفس سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک پھیلی ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام پسند مضبوط،واضح اور مکمل نظام حیات کے فروغ و استحکام کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔اورچونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں معیشیت سے لے کر معاشر ت اور تہذیب و تمدن کے تمام معرکے حل کیے جا سکتے ہیں۔لہذا ایک مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کے تحفظ و فروغ، اس کی بقاء و استحکام اور اس کے قیام کے لیے سعی و جہد میں ہم دم مصروف عمل رہے۔ساتھ ہی ایک متبادل نظام کے لیے کوشاں ہو جہاں عوام الناس کے لیے امن و امان ہو نیزان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔اس کے باوجود اس موقع پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ موجودہ حالات میں نصب العین کا حصول معروف و مقبول ذرائع ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔برخلاف اس کے فساد فی الارض رونما ہوگا اور انسانیت گمراہی میں مبتلا ہوسکتی ہے۔
تبدیلیِ قیادت سے ہماری مراد وہ قیادت ہے جو خوف خدا سے سے عاری نہ ہو۔ایسی قیادت جو خوف خدا سے عاری ہو وہ نہ تو خود اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ انسانیت کو۔ لہذا اس پہلو پر بھی توجہ دی جانی چاہیے کہ قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کی جائے جو انسانی قوانین کا پاس و لحاظ رکھنے کے علاوہ اْس ہستی کو بھی مانتے ہوں جو خود انسانوں کا موجد اعلیٰ ہے۔اس مرحلے میں قیادت کی تبدیلی ناگزیر عمل بن جائے گی۔اور یہ تبدیلیِ قیادت کا عمل اسی طرح لایا جائے گا جو موجودہ دور میں انسانو ں کے لیے قابلِ قبول ہو یعنی شورائیت کے ذریعہ جسیعرف عام میں انتخابی عمل سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔اس موقع پر ہمیں یہ بات بھی واضح کر دینی چاہیے کہ ہماری جدو جہد ہمارے "اپنوں” کے خلاف نہیں ہے ۔”اپنے”وہ جو ہمارے ساتھ رہتے بستے ہیں اور جو ہمارے معاشرے یا وطن عزیزکا حصہ ہیں۔بلکہ دنیا کے ان طاقتوں اور نظریات کے خلاف ہے جو اپنے قومی و ذاتی مفادات کی خاطر عالمِ انسانیت کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہیں اور اس کے لیے مختلف خوبصورت اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔اس کے لیے لازم ہے کہ ہمارے پاس باصلاحیت،جرت مند، بلند حوصلہ اشخاص کی کثیر تعداد ہوجو غورو فکر اور تدبر و دانائی کو اپنا شعار بنانے والے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہونے چاہیں جو علم و عمل میں مماثلت رکھتے ہوں ۔برخلاف اس کے ہمیں ان ناکارہ، بے مقصد، اور نفس پرست انسانوں کی بھیڑ کی ضرورت نہیں ہے کہ جو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ڈگریاں تو رکھتے ہیں لیکن اخلاق و کردار کے پیمانے پر جب ان کو تولا جاتا ہے تو ان کا وزن اس جھاگ کے برابر بھی نہیں جسے سمندر جہاں چاہے اٹھار کر پھینک دیتا ہے۔اس موقع پر ہمیں یہ شعور بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خرابی کی اصل جڑ موجودہ نظام اور اس کی پروردہ مفاد پرست، ملت فروش اور دنیا پرست قیادت ہے کہ جسے مسلسل نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں ہی اصلاح و فلاح کے پہلو مدھم پڑتے جارہے ہیں۔وہیں ان طاقتوں کے خلاف اقدام سے مراد یہ ہے کہ موجودہ فلسفہ زندگی پر تفکر کیا جائے اور اس میں اصلاح کے پہلوؤں کو ابھارا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج چہار جانب ظلم و بربیت کا دور دورہ ہے ،اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے طرز معاشرت کو بہتر بنانے کی فکر نے الجھائے رکھا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ مسائل کو سمجھنے، ان پر غور و فکر کرنے اور ان کے خاتمہ کی سعی و جہدسے ہم دور ہیں۔لیکن اسلام کی رو سے یہ بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے ،جس میں ہم خوداور متعلقین کو ملوث کیے ہوئے ہیں۔بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے برائی کو ہاتھ سے روکا جائے، اس کو زبان سے برا کہا جائے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں برا سمجھاجائے۔ یہاں ایک لمحہ کے لیے ٹھہرئیے ، اور اپنے دل پر ہاتھ کر خود ہی سے معلوم کیجیئے کہ کیا کبھی ہم نے اس جانب توجہ کی ہے؟اللہ تعالی فرماتا ہے :اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں (النحل:61)۔قرآن و حدیث کے تذکرے کے بعد سوال یہی رہ جاتا ہے کہ فرصت کے لمحات کو گنوانا ،کیا ہماری نادانی نہیں ہے؟ضرورت ہے کہ جو لمحات بھی مہلت کے باتی ہیں ان کا استعمال کیا جائے۔یہی تقاضہ وقت ہے اور یہی ہمارا اولین فرض منصبی بھی۔لیکن ظلم و بربیت سے نجات دلانے والوں کا طرز عمل بھی امن پسند ہونا چاہیے ۔تب یہ پوری سعی و جہد خود ہمارے لیے اور دوسروں کے لیے نفع بخش ہوسکتی ہے۔گفتگو کے پس منظر میں ضرورت ہے کہ ہر مسلمان نہ صرف ذاتی زندگی کا جائزے لیتا رہے۔بلکہ جائزے کے دوران اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کا ہر چھوٹااوربڑاعمل ،اسے کس سمت لیے جا رہا ہے؟کیا وہ اپنے نصب العین سے قریب ہورہا ہے یا اس سے دور،بہت دور؟ماہ ربیع اول کی اس مبارک تاریخ میں ہم سمجھتے ہیں کہ نبی اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ہمیں اور آپ کو یہی پیغام ملتا ہے جس پر نہ صرف سنجیدگی سے ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے بلکہ اپنے شب و روز کے اعمال میں جہاں اور جس درجہ تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو،جلد از جلد تبدیلی لانی چاہیے!

تبصرے بند ہیں۔