حسین زندگی والا رسولؐ

تحریر:مولانا محمدجعفر شاہ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز

حُسن کیا ہے ؟ اجزا کا مجموعہ تناسب یہ تناسب اجزاء جہاں بھی ہوگا وہاں حسن وجمال کی نمود حسین ہوگی۔ شکل وصورت میں یہ تناسب ہوتو شکل وصورت حسین ہوگی۔ سیرت میں ہو تو سیرت میں جمال ہوگا۔ آواز میں ہو تو حسن صورت ہوگا۔ عمل میں ہو تو حسن عمل ہوگا۔ جسے حسنات کہتے ہیں۔ غرض جہاں صحیح توازن و تناسب نظر آئے سمجھ لیجئے کہ حسن وجمال کا ظہور ہے۔ اللہ بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ اَللّٰہُ جَمِیْلٌ ویُحِبُّ الْجَمَال (حدیث)یعنی بعض فلاسفہ نے حسن وجمال کو اقدار مستقلہ میں شمار کیا ہے اور صحیح شمار کیا ہے۔ اسلام میں ایک بڑا اصلی مقصد اسے قراردیا گیا ہے کہ ع

ہو جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں !
کسی چہرے کا ایک ایک خدوخال اپنی اپنی جگہ حسن کا مرقع ہولیکن ناک بہت زیادہ اونچی ہو جائے تو حسن قائم نہیں رہے گا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ تناسب نہیں رہا۔ کویہ رحم وکرم کا مجمسہ بن جائے اور مجرم عادی پر بھی رحم کئے چلاجائے تو کردار میں حسن نہیں رہے گا۔ کیونکہ عفو وعتاب اور گزوگرفت میں توازن نہیں رہا۔ انسان زندگی کے بیشمار خانے ہیں، اور سب مل کر ایک وحدت بنتے ہیں اس لئے ہر ایک خانے کو اتنا پر ہونا چاہئے جو تناسب وتوازن کے مطابق ہو۔ اگر ایک خانے کی طرف توجہ زیادہ دی جائے تو دوسرے خانے کی طرف سے بے توجہی ہوجائے گی۔ پھر جہاں ایک خانہ خالی ہوگا۔ وہاں دوسرا خانہ چھلک بھی جائے گا۔ اور توازن کا تقاضا پورا نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں وہ جمال نہ رہے گا جو مطلوب ہے۔ مطلوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ افکار میں، گفتار میں، کردار میں، ہر قدم پر ایک خوش نمائی ہو، سلیقہ ہو، حسن ہو ،جمال ہو، کہیں بدسلیقگی، بد نمائی، ناپسندیدگی، کراہت نہ ہو، کہیں تناسب اجزاء میں فرق نہ آنے پائے، کسی جگہ توازن میں بگاڑ نہ ہونے پائے، کسی موڑ پر بھداپن نظر نہ آئے، بے ڈھنگاپن نہ دکھائی دے۔
یہ تب ہوسکتا ہے جب متضاد عناصر میں بھی توازن قائم رہے۔صرف ایمان باللہ کافی نہیں ۔ کفر بالطاغوت بھی ضروری ہے۔محض عفو ورحم سے کام نہیں چلے گا۔ سزاوتعزیر کو حرکت میں رکھنا بھی لازمی ہے۔ فقط خلوث نشینی کفایت نہیں کرسکتی۔جلوت کی زندگی بھی اختیار کرنی پڑے گی۔غرض سارے متضاد عناصر کو سمیٹنا ضروری ہے۔ لیکن ا اندازسے کہ ان میں باہم تناسب وتوازن باقی رہے۔ اگر ایک طرف زیادہ جھکاؤ ہوگیا تو حسن وجمال میں فرق آجائے گا۔
رسول آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہر زاویۂ نظر سے ایک انسان کامل اور نبی اکمل ہیں کہ اپنی زندگی میں، اپنی تعلیمات میں، اپنی ہر ادا میں ایسا معیاری توازن اور ایسا مثالی تناسب رکھتے ہیں کہ حسن وجمال خود اپنی قسمت پر وجد کرنے لگتا ہے۔ حضورؐ نے ان تمام تصورات کو بدل دیا جو فطری توازن حیات میں فرق ڈال سکتے ہوں اور جمال زندگی کو مجروح کرسکتے ہوں۔
تین شخص مدینے میں آتے ہیں اور ازدواج مطہرات سے حضورؐ کی عبادت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں ان کے دل میں عبادت کا خدا جانے کیا تصور اور تقویٰ کا کیا مفہوم ہے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ حضورؐ تو دن رات اللہ اللہ کرتے ہوں گے سارے معاملات دنیاوی سے بے تعلق الگ تھلگ ہوکر گوشے میں بیٹھے ذکر وفکر میں لگے رہتے ہوں گے۔کسی سے بات بھی نہ کرتے ہوں گے۔ بس مراقبہ وسجودکے سوا اور کچھ نہ کرتے ہوں گے۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ حضورؐ تو صرف پنجگانہ اور تہجد ادافرماتے ہیں۔ آرام بھی فرماتے ہیں ۔ کبھی کبھی نفلی روزے بھی رکھتے ہیں۔اور کبھی نہیں بھی رکھتے اور بیویوں کے ساتھ ان کے حقوق ادافرماتے ہیں توانہیں تعجب ہوا اور کانہم تقالوھا عبادت نبوی کو اپنی توقع یا تصور سے بہت کم پایا۔اور اسی کمی کی ایک توجیہ بھی پیداکرلی۔ توجیہ یہ تھی کہ بھئی ہمارا رسول اللہ سے کیا مقابلہ ؟ حضورؐ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ معاف ہوچکے ہیں۔ یعنی چونکہ حضورؐ بخشے ہوئے ہیں۔ اس لئے عبادت کی یہ کمی کچھ مضر نہیں اور ہم چونکہ بخشے ہوئے نہیں ہیں اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے تقویٰ کا کمال پیدا کرنا چاہئے اس کا طریقہ بھی انہوں نے خوب گھڑ لیا۔
ایک نے کہا : میں تو اب ساری رات جاگ کر نمازیں پڑھتا رہوں گا۔
دوسرا بولا : میں تو اب ہر روز روزہ رکھوں گا، کسی دن ناغہ نہیں کروں گا۔
تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔
حضورؐ کو ان تینوں کے فیصلے کا علم ہوا تو فوراً بنفس نفیس ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا :
’’کیا تم لوگوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں ؟ سنو! خدا کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ خوف خدا اور تقویٰ رکھتا ہوں ۔ لیکن مجھے دیکھو کہ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں۔ میں شب زندہ داری بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور میں شادی بھی کرتا ہوں۔ یہ ہے میری سنت ۔ لہٰذا جو میری سنت سے انحراف کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
آپ نے ملاحظہ فرمایا : ان افراد نے جو طرز زندگی اپنا نے کا فیصلہ کیاتھا۔ اس میں توازن نہ تھا۔ ان کا فیصلہ ایک طرفہ تھا۔ ایک ہی طرف جھکاؤ تھا۔ شب بیداری اور شب خوابی میں توازن نہ تھا۔ صوم وافطار (ترک صوم) میں تناسب نہ تھا۔ تجردوازدواج میں امتزاج نہ تھا۔ وہ شب بیداری، روزے اور تجرد ہی کو تقویٰ سمجھ بیٹھے تھے۔ زندگی کے چندخانوں کو خالی اور دوسرے خانوں کو لبریز رکھنا چاہتے تھے۔اس حسین کائنات کے حسن وجمال کو بے وقعت اور عبث بدنام کرنا ان کے نزدیک خشیت الٰہی کا تقاضا تھا۔ اس بے توازنی سے جمال زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ۔ اجزائے زندگی کا یہی وہ توازن ہے جو سنت نبوی ہے۔دوسرے لفظوں میں ظاہر وباطن کا ہر حسن وجمال قائم رکھنا سنت ہے۔
ایک عورت حضورﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کرتی ہے کہ یا رسول اللہ ! میں نوجوان ہوں اور زندگی کے کچھ تقاضے بھی رکھتی ہوں۔ مگر میرا شوہر ساری رات نماز میں لگارہتا ہے اور میری طرف توجہ نہیں دیتا حضورﷺ نے اسے بلواکر فرمایا: تیرے اوپر صرف اللہ ہی کا حق نہیں، بندوں کا بھی حق ہے، مہمان کا بھی حق ہے، خود تیرا اپنا بھی حق ہے ، بیوی کا بھی حق ہے۔‘‘
عبادت کا ایک غلط مفہوم ہردور میں رائج رہا ہے۔ کون سا روحانی مصلح ہے جو شب زندہ داری جیسی عبادت گذاری کا ایک خاصا حصہ چھڑواکر وہ وقت رفیقہ زندگی سے دلچسپی لینے میں لگوادے ؟ یہ حضورﷺ ہی ہیں جو حقوق اللہ کے ایسے انہماک کو کم کررہے ہیں جو حقوق العباد سے غافل کردے ، حقوق اللہ اور حقوق زوج میں توازن برقرار رکھنے کی ہدایت فرمارہے ہیں۔
حضور ؐ کی زندگی میں ذکر وفکر، محض مراقبہ وسجود اور فقط تسبیح وتحلیل نہیں۔ وہاں بیویوں سے دلگی بھی ہورہی ہے۔ کبھی بازار میں گھوم کر خریدوفروخت کے آداب بتارہے ہیں۔ کبھی منبر پر وعظ وتلقین فرمارہے ہیں۔ ادھر آنے والے وفود سے گفتگو ہورہی ہے تو ادھر اصول سمجھارہے ہیں۔ کبھی میدان جنگ میں کمان فرمارہے ہیں اور کبھی صلح نامے کی دفعات لکھوارہے ہیں۔ اور کبھی صحن مسجد میں اشعار سن کر تبسم فرمارہے ہیں۔ اور کبھی بی بی عائشہؓ کو حبشیوں کا رقص دکھارہے ہیں۔ کبھی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کوئی زبان کھولنے کی جرائت نہیں کرسکتا اور کبھی کسی بڑھیا سے طبیعت مزاح بھی ہورہا ہے ۔ کہیں مقدمات کے فیصلے سنارہے ہیں اور کہیں مزدوروں کی طرح پھاؤڑے چلارہے ہیں۔ غرض زندگی کی ساری بوقلمونیاں ایک ذات کے اندر موجود ہیں۔ لیکن ان میں توازن کا حسن اور تناسب کا جمال اپنے پورے کمال کے ساتھ موجود ہے۔ نہ کہیں کوئی زیادت ہے نہ کوئی کمی۔ زندگی کے جن جن خانوں کو جتنا جتنا پر ہونا چاہئے وہ اتنے ہی پر ہیں۔ کوئی خانہ بھی ایسا نہیں جس میں خلا ہو، یا وہ اتنا لبریز ہو کہ چھلکنے لگے، جلال بھی ہے اور جمال بھی۔ دلبری بھی ہے اور قاہری بھی ۔ اور سب کچھ اپنے ضروری مخصوص توازن وتناسب کے ساتھ یہی وہ حسن وجمال ہے جو سیرت کا نرالا پہلو ہے۔ سیرت کا یہ حسین انداز محمدﷺ کے سوا اور کہیں موجود نہیں اور اگر ہم سے پوچھئے تو یہ محمد ؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ صلی اللہ علیہ واعلیٰ امہ وسلم ۔ اجزائے سیرت کے اس تناسب وتوازن نے ہر ہرجز کو بھی حسن وجمال کا مرقع بنادیا ہے۔ ایسا مرقع کہ ؂
زوقِ تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جاایں جاست
لاکھوں صلوٰۃ وسلام اس صاحب سیرت پر اور لاکھوں سلام ودرود روح مقدس ہستیوں پر جنہوں نے اسے دیکھا۔ اس کی حسین وجمیل سیرت کو دیکھا،پرکھا اپنایا اور ہم تک پہنچایا۔آئیے ذرا ان تک دیکھنے والوں میں ایک کا بیان سنئے یہ ایک بدری خاتون ہے، جس کا نام (کنیت) ام معبد ہے۔
جب ابومعبدکی بیوی نے دودھ سے بھرا ہوا پیالہ اپنے شوہرکے سامنے لاکر رکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ یہ کہاں سے آیا؟ بکری تو خشک تھی اور گھر میں دودھ بھی نہیں تھا۔
ام معبد نے کہا۔ اللہ کی قسم ہمارے ہاں سے ایک مبارک انسان کا گذر ہوا۔جس کے ہاتھ لگانے سے اے ابومعبد! ہماری بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ اللہ کی قسم تم پی کر دیکھو کتنا لذیذ اور کتنا شیریں دودھ ہے، بنی کنایہ کی بکریوں سے بھی زیادہ شیریں۔ ابومعبد نے دودھ پیا اور حیران رہ گیا۔ دودھ و اقعی ایسا ہی تھا جیسا کہ اس کی بیوی نے بتایا تھا۔ دودھ پی کر اس نے بڑی محبت سے اپنی بکری پر ہاتھ پھیرا۔پھر منہ صاف کرتے ہوئے بیوی سے پوچھا ’’بتاؤ تو سہی وہ کون مارک مسافر تھے جو اس خشک بکری کو تروتازہ کرگئے‘‘ بیوی نے جو تفصیل بیان کی اسے سنکر ابومعبد بول اٹھا قسم خدا کی یہ وہی شخص ہے جسے قریش کے لوگ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ اے ام معبد میں توبے قرار ہوں ۔ تم اپنے زور بیان سے ہر بات کر نقشہ کھینچ کر رکھ دیتی ہو۔ ذرا وضاحت سے ان کا حلیہ اور ان کی چال ڈھال تو بیان کرو میں بھی تو جانوں وہ کیسے تھے ؟ شوہر کی اس تعریف پر ام معبد خوش ہوگئی۔ اس کا ذوق بیان ابھر آیا اور وہ اپنے قبیلے کے روایتی انداز میں جو فصاحت وبلاغت سے پُر تھا بولنے لگی۔
’’پاکیزہ رو، تاباں اورکشادہ چہرہ، خوش وضع سر، زیبا قامت، آنکھیں سیاہ اور فراغ، بال گھنے سیاہ گھونگریالے، آواز جاندار اور کچھ ایسی کہ خاموش ہوجائیں تو وقار چھا جائے اور کلام فرمائیں تو پھول جھڑیں، روشن مردمک، سرمگیں چشم، باریک وپیوستہ ابرو دور سے دیکھنے میں دلفریب، قریب سے دیکھو تو کمال حسن، شیریں کلام، واضح بیان، کلام، الفاظ کی کمی بیشی سے پاک، بولیں تو معلوم ہو کہ کلام ہے۔ پروئی ہوئی کوڑیاں ہیں جو ترتیب اور آہنگ سے نیچے گرتی جارہی ہیں۔ میانہ قد کہ دیکھنے والی آنکھ پستہ قدی کا عیب نہیں لگا سکتی نہ طویل کہ طوالت نظروں میں کھٹکے، سراپا دو شاخوں کے درمیان تروتازہ حسین شاخ کی طرح زینیدہ اور خوش منظر، جس کے رفیق پروانہ وار گردوپیش رہتے ہیں۔ مخدوم ومطاع، نہ تنگ نظر نہ بے مغز، نہ کوتاہ سخن، نہ فضول گو!‘‘ چندجملوں میں صورت وسیرت ، ظاہر وباطن ، گفتار وکردار،کی عجیب نقشہ کشی ہے۔ جہاں شاعر و ادیب کوئی سراپانہیں ٹھہر سکتا۔

تبصرے بند ہیں۔