داعئ اعظمؐ کی مثالی سیرت

راحت علی صدیقی قاسمی

اللھم اھدی قومی فانھم لایعلمون، اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے، وہ جانتی نہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ادا ہوئے یہ کلمات آپ کی فکر و کڑھن اور انسانوں کے تئیں آپ کی محبت و ہمدردی کو ظاہر کرتے ہیں،یہ جملہ اور وہ پس منظر جس میں یہ جملہ کہا گیا، آپ کے دل کی کیفیات کو بھانپنے ،پرکھنے اور جانچنے کا اہم ذریعہ ہے۔آپ زخموں سے چور ہیں ،تھکاوٹ کا غلبہ ہے،چہرہ انور و مقدس سے لہو بہہ رہا ہے، چاند سے بھی خوبصورت آپ کا رخ انور خون سے رنگین ہے،دانت مبارک شہید ہوچکے ہیں،اپنوں کی لاشیں خون میں لت پت پڑی ہوئی ہیں،جانثاروں کی جدائی کا اثر قلب مبارک کو رنجیدہ و مضمحل کرنے کے لئے کافی ہے،کفار کی آرزو اور خواہش یہ ہے کہ آج محمد، دین محمداور اصحاب محمد ،کو نیست و نابود کردیا جائے،ان کی شخصیت اور افکار کو قصۂ پارینہ بنا دیا جائے،نہ یہ مشن زندہ رہے اور نہ اس طرح کی سوچ و فکر رکھنے والے افراد زمین کے سینہ کو بوجھل کریں اور نہ ہمارے عزائم و مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ ثابت ہوں،اسی منشاء اور مقصد کے تحت کفار مکہ احد پہاڑ کے دامن میں آئے تھے،مٹا دینا چاہتے تھے، حق اور حق کی آواز کو،سچائی اور ایمانداری کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند دینا چاہتے تھے،گانے والیاں ان کے حوصلوں کو دوبالا کررہیں تھیں اور ان کے قلوب میں پک رہے لاوے کو کھولا رہیں تھیں،ان کی رگوں میں دوڑ رہا لہو زبان حال سے پکار رہا تھا ،آج بول بالا کردیا جائے گا کفر کا، اب کا ئنات میں لات و ہبل کی پوجا ہوا کرے گی ،ان ہی کے نام کی نذر و نیاز ہوگی اور آج ہم اپنے آباو اجداد کے خون کا بدلہ لے کر رہیں گے اور تاریخ میں اپنا وقار اور اپنی ناک بلند رکھیں گے،فکر رسول ،منشاء مصطفی اور مقصد محمد کچھ اور ہی ہے،آپ حکمرانی کے بھوکے ہیں ،نہ حسن و عشق کے پجاری ۔آپ کے اس جملے نے یہ حقیقت ساری کائنات کے سامنے عیاں کر دی ،اللہ میری قوم کو ہدایت دے ،عقلیں حیران اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ،کائنات کا جری سے جری، بہادر سے بہادر شخص اتنا مضبوط دل اور بلند فکر کا حامل نہیں ہوسکتا،جو اُن کیفیات اور ناگفتہ بہ صورت حال کے باوجود اس طرز کے جملے ادا کردے،اور اپنے مقصد اور اپنی فکر پر اسی طرح کار بند رہے،یہ آپ کا امتیاز ہے ورنہ تو بہک جانا ،درد و الم کے بہتے دریا میں غرقاب ہوجانا ،حالات سے مرعوب ہوجانا فطرت انسانی کی وہ کمزوریاں ہیں ،جن سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں، مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد پر اسی طرح جمے ہوئے ہیں اور نسل انسانی کی محبت میں ایسے غرق ہیں کہ، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن میں آپ کی اس حالت کو بیان کرتا ہے’’لعلک باخع نفسک الا یکون مؤمینن‘‘(سورہ کہف )آپ جان اقدس کو ہلاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں،آپ ہلاکت تباہی و بربادی ،شر وفساد کے داعی و مبلغ نہیں ہیں،بلکہ آپ تو اس فکر اور غم میں گھلے جارہے ہیں،کہ انسان اپنے مالک حقیقی کو پہچان لے، اس کا کلمہ پڑھنے والا اس کا دم بھرنے والا اور اس کا نام لیوا ہو جائے،اسی حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’’لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم‘‘ ذاتی وجاہت آپ کا مقصد نہیں ہے ،دولت و شہرت سے بھی آپ کو کوئی سروکار نہیں ہے،وہ تو ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘کہہ کر اللہ نے آپ کو دے رکھا ہے،انسانیت کو آگ سے بچانا چاہتے ہیں،درد و تکلیف سے دور کردینا چاہتے ہیں،آپ کو یہ گوارا نہیں ہے ،دوزخ کی ہولناک صورت حال سے انسان کو سابقہ ہو ،اور وہاں موت بھی ان کی جان نہ بچائے،اور میری یہ امت جلتی تڑپتی رہے،اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح کررہے ہیں، میری مثال اس شخص کی سی ہے جو لوگوں کی پیٹھ پکڑ کر انہیں آگ میں گرنے سے روک رہا ہے اور وہ ہیں کہ گرے جارہے ہیں، ،اس مقصد کی تکمیل کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ نے ہر طرح کی صعوبت مشکل اور پریشانی کو برداشت کیا ،گالیاں کھائیں، کاہن و ساحر کہا گیا،تکالیف کی انتہا کردی گئی،آپ کے وقار کو ٹھیس پہنچائی گئی ،مگر آپ نے اس فکر کی لو کو مدہم نہیں ہونے دیا اور آپ پوری توانائی کے ساتھ اشاعت دین اور دعوت دین کے فریضہ کو انجام دیتے رہے،کفار کے تکلیف دینے پر بھی آپ اپنی کمزوری کا شکوہ کرتے ہیں، ان کے حق میں بددعا آپ کی زبان پر جاری نہیں ہوتی ،اگر کوئی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہے تو وہ طائف کا مشکل ترین سفر اس میں پیش آمدہ درد انگیز صورت حال کادیدار کرے اور واپسی پر آپ کے الفاظ دیکھے ،دنیائے انسانیت اس طرح کے واقعات سے پوری طرح خالی ہے،کوئی قائد، کوئی مصلح، کوئی راہنما اس فکر کا حامل نظر نہیں آتا،آپ ہر صورت میں کائنات کو خدائی قانون سے پر دیکھنا چاہتے تھے،آپ کو انسانوں اور انسانیت سے اتنی محبت تھی کہ آپ انہیں تکلیف میں مبتلا نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ،زندگی بھر آپ اسی کڑھن اور فکر کے ساتھ تبلیغ دین کے فریضہ کو انجام دیتے رہے،خدا کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے رہے،دعائیں مانگتے رہے،امت کے لئے ایمان اور جنت طلبی میں مشغول رہے ،اور آخری عمر تک آپ سے یہ فکر جدا نہیں ہوئی ،حجۃ الوداع کا خطبہ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے،جب آپ صحابہ کے مجمع سے گواہی طلب کرتے ہیں،کیا میں نے اپنے منصب کا حق ادا کردیا ،تین مرتبہ گواہی لینے کہ بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے بھی عرض کیا ،کہ خدائے عز وجل ان کی گواہی پر گواہ رہنا میں نے اپنا حق ادا کردیا ،اور وصیت کرگئے،کہ حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچاتے رہیں ،ہم ان تمام واقعات کو پڑھتے بھی ہیں،جانتے بھی ہیں،کبھی کبھی آنسو بھی بہاتے ہیں،مگر عجیب و غریب صورت حال کے ہم ان افکار و خیالات اور اعمال کو ہم اپنی زندگی داخل نہیں کرتے،ہمارے قلوب میں انسانیت کہ تئیں وہ جذبہ نہیں ہے ،جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ کی پہچان ہے،ہم نے آپ کو کسی داستان کا مافوق الفطرت کا کردار سمجھ رکھا ہے،غم و اندوہ کاواقعہ آیا رودئے،خوشی و مسکراہٹ کا پہلو نظر آیا مسکرا دئے،ہم بھول گئے کہ خداوند قدوس نے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ کہا ہے،آپ کی زندگی سانچہ ہے ،جس میں ہمیں ڈھلنا ہے اور اپنی حیات کو ان خیالات سے پاکیزہ کرنا ہے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہیں اور پوری کائنات کو اس فلسفہ زندگی سے روشناس کرانا ہے اور اسلام کی حقانیت کو واضح کرنا ہے،کھرے کھوٹے کا امتیاز کرنا ہے،یہی ہماری زندگی کا مقصد اور منہج ہے،قرآن کہتا ہے، ’’قل ھذہ سبیلی ادعوا اللہ الی علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی،،اور وقت اور حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم دعوت دین اور تعارف اسلام کی ذمہ داری پوری محنت کے ساتھ ادا کریں،دجالی میڈیا نے اسلام پر سوالات کی بوچھار کررکھی ہے اور ہم ہیں کہ خاموش بیٹھے ہیں اور اپنے کردار و عمل اور زبان سے اسلام کے مبلغ نظر نہیں آتے اور نہ سوالات کے جوابات دینے میں ہماری دلچسپی ہے،جب کہ ہونا تو چاہئے کہ ہم اقدام کریں،اور نبی کا طرز اور طریقہ اپنائیں اور لوگوں کو حق سے روشناس کرائیں،فطرت انسانی اس امر کی غماز ہے کہ جب تاریکی اپنی چادر پھیلادیتی ہے،تو ہر شخص روشنی کی جستجو کرتا ہے،اندھیرے کو اپنا مقدر اور نصیب نہیں گردانتا اور اسے راہ کی رکاوٹ بھی نہیں سمجھتا ، یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں بھی زندگی رواں دواں نظر نہیں آتی ہے،پھر ہم روحانی تاریکی کو دور کیوں نہ کریں جب کہ ہم روشن سورج رکھتے ہیں،قرآن کہتا ’’کتاب انزلنہ الیک لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور‘‘ اور سرور دو عالم کے حوالہ سے، وداعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا، ہمارے پاس یہ دونوں چیزیں موجود ہیں ،ہم ان کے ذریعہ کفر و جہل کی تاریکی کو دور کریں،اور کائنات کو علم و ایمان کی روشنی سے منور کرنے کی کوشش کریں،یہی آپ صلی اللہ کو سچا خراج عقیدت ہوگا،تاریکی میں روشنی کی قندیلیں چھپائے بیٹھے رہنااور یہ گمان کرنا کہ گھٹا ٹوپ اندھیرا کہیں تاریکی کو نگل نہ لے، عقل مندی نہیں حماقت ہے اور اسوہ نبی بھی ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا ہے،تو کیوں ہم اندھیرے سے خوف زدہ رہیں اور دعوت دین اور اشاعت دین کا فریضہ انجام نہ دیں ،یا سستی اور کوتاہی کا شکار رہے-

تبصرے بند ہیں۔