حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں

حضرت جعفرؓ (حضرت علیؓ کے بھائی) کی تقریر
عبدالعزیز
اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل قوم تھے۔ بے جان پتھروں کی پوجاکرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہم سایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا،زبردست زیر دستوں کو کھاجاتا تھا، اس اثناء میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے، اس نے ہم ک واسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلادیا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں، سچ بولیں، خوں ریزی سے باز آجائیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہم سایوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کاداغ نہ لگائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں ، زکوٰۃ دیں ، ہم اس پر ایمان لائے، شرک اور بت پرستی چھوڑدی اور تمام اعمال بد سے باز آئے، اس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اس گمراہی میں واپس آجائیں۔
نجاشی نے تقریر سن کر کہا ’’ جو کلام الٰہی تمہارے پیغمبر پر اترا ہے کہیں سے پڑھو‘‘ حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کی چند آئتیں پڑھیں، نجاشی پر رقت طاری ہوئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے پھر کہا ’’خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پرتوہیں‘‘ یہ کہہ کر سفراء قریش (جو مہاجرین حبشہ کی شکایت کرنے آئے تھے) سے کہا تم واپس جاؤ ان مظلوموں کو ہر گز واپس نہ دونگا‘‘۔

پہلی وحی کے موقع پر
حضرت خدیجہؓ کی گواہی
آنحضرتؐ پر جب غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ کانپتے اور لرزتے ہوئے وہاں سے پلٹے اور حضرت خدیجہؓ کے پاس پہنچ کر کہا ’’ مجھے اڑھاؤ، مجھے اڑھاؤ‘‘ چنانچہ آپؐ کو اڑھادیا گیا جب آپؐ پر سے خوف زدگی کی کیفیت دور ہوگئی توآپؐ نے فرمایا’’ اے خدیجہؓ یہ مجھے کیاہوگیا‘‘،پھر سارا قصہ آپؐ نے ان کو سنایا اور کہا ’’ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے‘‘ انہوں نے کہا ہرگز نہیں، آپؐ خوش ہوجائیے خدا کی قسم آپؐ کو اللہ تعالیٰ رسوانہ کرے گا۔آپؐ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، نادارلوگوں کو کماکردیتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں، نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں‘‘۔
اس طرح حضرت خدیجہؓ نے اپنی پندرہ سالہ رفاقت کا تجربہ بیان فرمایا یہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد پہلا تعارف ہے جو سیرت کی تمام کتابوں میں درج ہے۔

تبصرے بند ہیں۔