خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ : بعض مشترکہ پہلو

ذکی نور عظیم ندوی

(لکھنؤ)

روئے زمین پر وجود انسانی کے ابتدائی زمانہ سے ہی مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اسلام کے دو اہم مراکز رہے۔ ان دونوں کا مختلف انبیاء، ان کی زندگی، ان کی تعلیمات، دعوت و تبلیغ اور تاریخ سے بڑا گہرا ربط رہا۔ اسی طرح دونوں کا تقدس واحترام اور مسلمانوں کا ان سے جذباتی دینی لگاؤ بھی ہمیشہ برقرار رہا۔ تو آئیے ان دونوں مساجد و مراکز کے چند مشترکہ امتیازی پہلؤوں کا جائزہ لیں۔

1- سب سے پہلے تعمیر کردہ مراکز: یہ دونوں مراکز روئے زمین پر اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کی گئی سب سے پہلی دو عبادت گاہیں ہیں۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ زمین پر سب سے پہلی تعمیر کردہ مسجد، مسجد حرام ہے، اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصی کی تعمیر ہوئی اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ "عن أبي ذر رَضِي الله عنْهُ قال: قلت يا رَسول اللهِ أي مسجد وُضِع في الأرض أولًا؟ قال: «المسجد الحرام»، قال: قلت: ثُمَّ أي؟ قال: «المسجد الأقصى»، قلت: كم كان بينهما؟ قال: «أربعون سنة ثم أينما أدركتك الصلاة بعدُ فصلّه، فإن الفضل فيه» (رواه البخاري)

2- دونوں مساجد اور حضرت آدم: مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کی تعمیر ہم تمام انسانوں کے جد امجد اور پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی اور اس طرح ابتداء سے ہی دونوں مسجدوں کا مقام ومرتبہ اور عظمت و تقدس تمام انسانوں کے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ۔ ہاں اس میں دو رائے ہے کہ ان کی ابتدائی تعمیر فرشتوں کے ذریعے ہوئی یا خود حضرت آدم علیہ السلام نے یہ کام انجام دیا۔ .

3- دونوں مساجد اور حضرت ابراہیم: ان دونوں مساجد کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے گہرا ربط ہے، کہ اگر آپ نے مسجد حرام کی تعمیر نو کے بعد اسے اپنے ایک صاحب زادہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مرکز بنایا، تو خود مسجد اقصی کے پاس اپنے دوسرے صاحب زادہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ رہے لیکن اپنی زندگی میں برابر ان دونوں مراکز آتے جاتے رہے۔

4- نبی اکرم اور دونوں مساجد: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور بعثت اگرچہ کہ سرزمین مکہ میں ہوئی اور اس بنیاد پر خانہ کعبہ سے خصوصی رشتہ اور تعلق رہا لیکن معراج کے موقع پر آپ کو خانہ کعبہ سے براہ راست لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصیٰ لے جاکر مسجد اقصی اور خانہ کعبہ کے  باہمی ربط اور  تعلق کو واضح کیا گیا، اور اس طرح آخری نبی اور اسلام کے ہر زمانہ میں مسجد اقصیٰ سے تعلق اور اس کی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دی گئی۔ وہاں سابقہ تمام انبیاء کی امامت کے ذریعہ آخری نبی اور آخری امت کو اس مسجد کی قیامت تک تولیت عطا کی گئی۔ جیسا کہ سورہ اسراء کی ابتدائی آیتوں میں صراحت سے بیان کیا گیا ۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء 1)

5: باپ بیٹوں کے ذریعہ تعمیر نو: مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اگر حضرت ابراہیم اور ان کے صاحب زادہ حضرت اسماعیل علیہما السلام نے مسجد حرام کی تعمیر نو کا کام انجام دیا جیسا کہ سورۃ بقرہ آیت نمبر 127 میں ہے "وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ إِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ” تو مسجد اقصی کی تعمیر نو کا کام بھی حضرت داؤد اور ان کے صاحب زادہ حضرت سلیمان علیہما السلام نے انجام دیا۔

6: تعمیر نو کرنے والے انبیاء کی دعائیں: مسجد حرام اور مسجد اقصی کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی تعمیر نو کے بعد تعمیر کرنے والے انبیاء نے اس کے تعلق سے خصوصی دعائیں کیں۔ لہذا حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر نو کے موقع پر اپنے عمل کے قبولیت، دین اسلام پر ثابت قدمی، اپنی اولاد میں مسلمان امت بنانے،حج کاطریقہ بتانے اور ایک نبی مبعوث فرمانے اور بعض دیگر امور کے لئے دعائیں کیں جسکی تفصیل سورہ بقرہ کی آیت نمبر 127 سے 129 بیان کی گئی ہے۔”وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ, رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ, رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة 127-129)۔ اسی طرح ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو کی حدیث میں ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصی کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انھوں نے بھی تین دعائیں،  اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرنے، اپنے لئے سب سے بڑی سلطنت اور حکمرانی اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے والوں کی مغفرت کےلئے دعائیں کیں "لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّه”

7- قبلہ ہونے کا شرف : مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کو مسلمانوں کا قبلہ ہونے کا شرف بھی حاصل رہا۔ لہذا مکی دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں اس سمت نماز پڑھتے جہاں سے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ دونوں آپ کے سامنے ہوں اور ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اسی وجہ سے اس کو قبلہ اول کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں تحویل قبلہ اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی آیتیں نازل ہوئیں، جسکی تفصیل صحیحین میں حضرت براء بن عازب کی حدیث میں ہے "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى نحو بيت المقدس، ستة عشر أو سبعة عشر شهرًا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب أن يوجه إلى الكعبة، فأنزل الله:قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ”(البقرة: 144)

8-  مرکز وحی اور انبیاء کا مرکز: سرزمین مکہ اور ارض فلسطین دونوں کو مرکز وحی  اور انبیاء کی جائے پیدائش اور مسکن ہونے کا بھی شرف حاصل ہے لہذا حضرت اسحاق علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک بیشتر انبیاء کا مرکز  اگر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ رہا تو حضرت اسماعیل اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرکز مکہ کی سرزمین اور مسجد حرام رہی۔

9- حضرت موسی اور نبی اکرم کا خصوصی لگاؤ: اگر حضرت موسی علیہ السلام کو بیت المقدس سے خصوصی لگاؤ تھا اور انہوں نے بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث کے مطابق اپنی آخری عمر میں دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے بیت المقدس سے قریب موت دے۔” فسأل موسى الله أن يُدنيه من الأرض المُقدسة رمية بحجر”(بخاری عن ابی ہریرۃ) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرزمین مکہ سے اتنا لگاؤ تھا کہ یہاں سے ہجرت کے لئے مجبور ہونے پر اس سرزمین کو روئے زمین پر سب سے بہترین اور محبوب جگہ قرار دینے کے بعد وہاں سے نکلنے پر افسوس کا اظہار کیا جس کی صراحت ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عدی کی روایت میں ہے”واللهِ إنَّكِ لَخيرُ أرْضِ اللهِ ، و أحَبُّ أرْضِ اللهِ إليَّ ، و لوْلَا أنِّي أُخرِجْتُ مِنْكِ ما خَرجْتُ” (ترمذى عن عبداللہ بن عدی) اسی لئے اللہ نے فتح مکہ کے موقع پر دوبارہ وہاں آمد کو فتح مبین قرار دیا۔

10- ثواب کی نیت سے جانے کا استحباب: مسجد حرام اور مسجد اقصی، مسجد نبوی مدینہ منورہ کے علاوہ وہ دو اہم ترین مسجدیں ہیں جہاں اسلام میں ثواب کی نیت سے خصوصی طور پر سفر کرکے جانے کو جائز ہی نہیں بلکہ افضل و مستحب قرار دیا گیا، جب کہ اس کے علاوہ دیگر کسی بھی مقام پر ثواب کی نیت سے جانے سے منع فرمایا گیا جس کی وضاحت صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے کہ «لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي هَذا».

11: نماز کے ثواب میں اضافہ: اگر مسجد حرام مکہ مکرمہ میں نماز کے ثواب میں اضافہ کرکے اس کو امتیازی حیثیت دی گئی تو شعب إيمان مىں امام بیھقی کی روایت کے مطابق مسجد اقصی میں بھی عام مسجدوں کے مقابلہ نماز کے ثواب کو بڑھا دیا گیا

"فَضْلُ الصَّلَاةِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ عَلَى غَيْرِهِ مِائَةُ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَفِي مَسْجِدِي أَلْفُ صَلَاةٍ، وَفِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَمْسُمِائَةِ صَلَاةٍ” (بيهقى فى شعب الإيمان].

12- گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ: صحیح حدیث کی روشنی میں خانہ کعبہ کی زیارت اور حج کو گناہوں کی معافی کا ذریعہ قرار دیا گیا "من حج فلم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمه” تو ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو کی حدیث کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے والے کے گناہوں کی ایسی معافی کی دعا مانگی جیسے وہ آج اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہو۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو کی حدیث میں فرمایا کہ مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی ہے "لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللَّهَ ثَلَاثًا: ……. وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ»، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ.

13- دجال اور اس کے شرور و فتن سے حفاظت: قرب قیامت ظاہر ہونے والے بڑے فتنوں میں دجال کا فتنہ اہم اور خطرناک ترین ہے۔ احادیث میں اس سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی، اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی لیکن ابن حبان اور دوسری کتب حدیث میں سمرہ بن جندب کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں مسجدوں مسجد حرام اور بیت المقدس کو دجال اور اس کے فتنہ سے محفوظ رکھیں گے۔ "وإنه سيظهر على الأرض كلها إلا الحرم وبيت المقدس” (أحمد وابن حبان عن سمرۃ)

14- اللہ تعالیٰ نےسورہ آل عمران آیت نمبر 96 و 97 میں  مسجد حرام کو مبارک، کائنات کی ہدایت کا سرچشمہ، اسے امن و سکون کا گہوارہ اور اس کے حج کو فرض قرار دیا "إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ، فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (آل عمران96 و 97) تو مسجد اقصی اور اس کے آس پاس کے علاقہ کو سورہ اسراء میں

مبارک بتایا ”سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ”(الإسراء1)

اور سورہ مائدہ آیت نمبر1 میں اس کو مقدس قرار دیتے ہوئے بنی اسرائیل سے وہاں جانے کا مطالبہ کیا تھا ( يا قومِ ادخلوا الأرض المقدسة التي كتب الله لكم ) ( سورة المائدة /21

یعنی اسلام نے مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کو اہم ترین اسلامی مرکز قرار دیا۔ اور مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ دیگر انبیاء ورسولو‌ں کی تعظیم اور ان کے احترام کی تعلیم دی گئی۔ اسی طرح وہ خانہ کعبہ کے حج و طواف اور تقدس کے ساتھ دیگر شعائر اسلام خاص طور پر مسجد اقصی کی عظمت و تقدس کی بحالی کے بھی پابند کئے گئے۔اور اس طرح اس کے لئے تمام ممکنہ وسائل و ذرائع اختیار کرنا اجتماعی و انفرادی ہر سطح پر ضروری ہو جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسند احمد میں أبو أمامہ باهلی کی روایت کردہ حدیث میں دی گئی بشارت ” لا تزال طائفة من أمتي على الدين ظاهرين لعدوهم قاهرين، لا يضرهم من خالفهم  قالوا: فأين هم؟ قال: ببيت المقدس وأكناف بيت المقدس ” (رواه أحمد)” کہ بیت المقدس اور اس کے آس پاس میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ دین پر ثابت قدمی سے قائم اور دشمنوں پر غالب رہے گی اسے مخالفین کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے” کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے اور دعا و کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ ہمیں بھی ان میں شامل کرے۔

تبصرے بند ہیں۔