خود کو میں آزما رہا ہوں آج

عبدالکریم شاد

خود کو میں آزما رہا ہوں آج

کل سے آنکھیں ملا رہا ہوں آج

چاہیے رنگ مختلف کل کا

نقش کل کے مٹا رہا ہوں آج

روز مجھ کو گمان ہوتا ہے

کل سے بہتر بنا رہا ہوں آج

مجھ سے آنکھیں ملاؤ نظارو!

اس کے کوچے سے آ رہا ہوں آج

یاد کر کر کے میں تری باتیں

ایک اک کو بھلا رہا ہوں آج

جانے کب کون اس کو خرچ کرے

میں جو دولت کما رہا ہوں آج

تم بھی میری انا سے کترائے

میں یہ پتھر ہٹا رہا ہوں آج

رات دیکھی تھی موت کی جھلکی

زندگی کو منا رہا ہوں آج

وقت زنداں میں کل گزارا ہے

میں پرندے اڑا رہا ہوں آج

دیکھیں تقدیر کیا دکھاتی ہے

کل سے پردہ اٹھا رہا ہوں آج

ٹوٹا پھوٹا جو شاد! لوٹا ہوں

صورتِ آئینہ رہا ہوں آج

تبصرے بند ہیں۔