دوستی کی نئی اڑان اور اس کا پیغام

خلیجی ممالک سے یوں تو بھارت کے رشتے بہت پرانے ہیں  ۔ لیکن موجودہ زمانے میں اس رشتہ کو آگے بڑھانے کی طرف بڑا قدم تب اٹھایا گیا، جب وزیراعظم نریندر مودی نے اگست 2015 میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ اندرا گاندھی کے بعد 34 برسوں میں وہاں جانے والے وہ پہلے وزیراعظم ہیں  ۔ اسی کے بعد انہوں  نے سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں انہیں سعودی عرب کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر امارات کے ولی عہد محمد بن زاید النہیان کا مہمان خصوصی کے طورپر آنا اس رشتہ کی اہم کڑی ہے۔ کراون پرنس کا بھارت آنا واقعی مفید رہا۔ ان کے آنے سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی اڑان ملی، بلکہ دونوں دیشوں نے ایشیا میں امن قائم کرنے، دہشت گردی اور مذہبی شدت کو روکنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے علاوہ دفاع، سیکورٹی، کاروبار، سرمایہ کاری، توانائی، کروڈآئیل کی دستیابی جیسے اہم میدانوں میں درجن بھر سے زیادہ سمجھوتے کئے۔ اس موقع پر شیخ محمد نے بھارت کے ساتھ رشتہ کو خاص بتایا۔ حالانکہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی سے مقابلے کیلئے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

 بھارت امارات کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے مطابق یو اے ای بھارت کی توانائی ضرورتوں کے لحاظ سے تیل کی سپلائی بڑھائے گا۔ وہ منگلور میں موجود کچے تیل بھنڈار کا آدھا حصہ بھرنے کو تیار ہوگیا ہے۔ سمجھوتے کے تحت کچے تیل کی ذخیرہ اندوزی کے لئے بھارت کے ذریعہ بنائی گئی کمپنی انڈین اسٹریٹجک پٹرولیم ریزرولمیٹڈ (آئی ایس پی آر ایل) میں ابوظہبی نیشنل آئل کارپوریشن کو حصہ داری دی جائے گی تاکہ یہ کمپنی بھارت میں بنے بھنڈاروں میں اپنا کروڈ رکھ سکے۔ توانائی کی حفاظت کیلئے جتن کرنے میں جٹے بھارت کیلئے یو اے ای کا تعاون صحیح معنی میں گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ ابوظہبی نیشنل آئل کارپوریشن 60لاکھ بیرل کچے تیل کا منگلور میں ذخیرہ کرے گا۔ یو اے ای بھارت کی توانائی ضرورتوں کو پورا کرنے والا بیتے سالوں میں ساجھیدار بن کر ابھرا ہے۔ 2015-16 میں یو اے ای بھارت کو تیل ایکسپورٹ کرنے والے دیشوں میں پانچویں نمبر پر تھا۔ یو اے ای بھارت میں بنے کچے تیل کے بھنڈاروں میں  اپنا تیل رکھتا ہے تو 80فیصد اپنی ضرورت کا کچا تیل امپورٹ کرنے والا بھارت یو اے ای کے تعاون سے تیل ایکسپورٹ کرنے والا ملک بن جائے گا۔ یو اے ای بھارت کے تیل بھنڈاروں سے آسٹریلیا، جاپان ودوسرے ایشیائی ملکوں کو کم وقت اور کم خرچ میں تیل ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔ بھارت تیل کے ذخائر کو بڑھانے کیلئے وشاکھا پٹنم، منگلور، اڈپی کے نزدیک پودور میں موجود بھنڈاروں کے علاوہ بیکانیر (راجستھان) راجکوٹ (گجرات) چنڈی کھولے (اڑیسہ) میں کروڈ کیلئے بھنڈار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

یو اے ای نے بھارت کی طرح کا سمجھوتہ بہت کم ملکوں کے ساتھ کیا ہے۔ دونوں ملکوں کا جو نیا رخ سامنے آیا اس کا اہم پہلو اقتصادی ہے۔ چین اور امریکہ کے بعد امارات بھارت کا تیسرا سب سے بڑا کاروباری بھاگیداری ہے جس کے ساتھ 60ارب ڈالر کا سالانہ کاروبار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ہماری اشیا کا درآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا دیش ہے۔ جہاں ہم 33ارب ڈالر کا ایکسپورٹ کرتے ہیں  ۔ حال میں ہوئے معاہدوں میں سمندری علاقے، دفاعی سازوسامان کی تیاری جیسے معاملے شامل ہیں  ۔ اس سے بھارت کو اپنے دفاعی سامان کیلئے ایک اہم بازار ملے گا۔ یو اے ای سے ہوئے سمجھوتوں میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق کوئی معاہدہ شامل نہیں ہے۔ اس بارے میں مودی کے یو ای اے سفر کے دوران اتفاق ہوا تھا۔ اس میں ایک مشکل ہماری طرف سے یہ ہے کہ امارات کے ذریعہ کی گئی پرانی سرمایہ کاری قانونی معاملوں میں پھنس گئی ہے۔ پرانے سرمائے کے اٹکنے سے امارات نئی سرمایہ کاری میں ہچک رہا ہے۔ چونکہ معاملہ قانون سے جڑا ہے اس لئے بھارت سرکار کچھ زیادہ مدد نہیں کرپارہی ہے۔ اس کا کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ جبکہ وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یو اے ای اپنے وعدے کے مطابق 75ارب ڈالر بھارت کے انفراسٹکچر میں لگانے کو تیار ہے لیکن ابھی تک ان منصوبوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے جہاں سرمایہ کاری ہونی ہے۔ اس کے بارے میں دونوں فریقین کے بیچ بات چیت چل رہی ہے۔ بھارت سرمایہ کاری کو لے کر خلیجی ممالک سے بہت پر امید ہے۔ ویسے یو اے ای ابھی بھی یہاں سرمایہ کاری کرنے والا دسواں سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے ساتھ آنے سے دوسرے عرب ممالک بھی بھارت کے ساتھ آسکتے ہیں  ۔

مشترک بیان میں دونوں دیشوں نے دہشت گردی کوامن اور حفاظت کیلئے سب سے بڑا دشمن مانا ہے۔ دونوں ملکوں نے سیدھے طورپر کہا کہ’’ اپنے نان اسٹیٹ ایکڑس‘‘ پر لگام لگانا ہر ملک کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردی کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دراصل امارات میں اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) کااثر لگاتار بڑھ رہا ہے۔ شام میں پچھڑنے کے بعد یہ تنظیم خلیجی ممالک میں  ا پنے پیر جمانے کی کوشش کررہی ہے۔ اتنا ہی نہیں طالبان کو جن ملکوں نے منظوری دی تھی یو اے ای بھی ان میں سے ایک تھا۔ امارات کو طالبان سے امیدیں رہی ہوں گی لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ طالبان اسے بھی چوٹ پہنچا رہا ہے۔ پچھلے دنوں کندھار میں  اس نے  یو اے ای کے سفارتی عملے کے پانچ افراد کا قتل کردیا تھا۔ امارات دہشت گردی کی آنچ سے بری طرح جھلس رہا ہے۔ لہٰذا دونوں ملک مل کر کام کریں تو سب کو اس کا فائدہ ہوگا۔ دہشت گردی پر لگام لگے گی۔ دوسرے عرب ممالک بھی ساتھ آئے تو پاکستان کو سادھنا بھی آسان ہوجائے گا۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دہشت گردی کے علاوہ منی لانڈرنگ،منصوبہ بند جرائم اور تسکری جیسے بڑے سوالوں کو یو اے ای کی قربت سے حل کرنے میں مدد  ملے گی۔

متحدہ عرب امارات میں بھارت کے 26لاکھ لوگ رہتے ہیں ، جووہاں رہنے والے غیر ملکیوں میں سب سے بڑا گروپ ہے۔ ان میں ڈاکٹر، انجینئر، دوکاندار، اکائونٹینٹ وغیرہ بھی ہیں  ۔ یہ 15ارب ڈالر سالانہ بھارت کو بھیجتے ہیں  ۔اس دوستی سے یو اے ای میں رہنے والے بھارتیوں کو فطری طور پر فائدہ ہوگا۔ ایسا اشارہ مل رہا ہے کہ یو اے ای 2030 تک بھارت کو ایکسپورٹ کیلئے سب سے پسندیدہ ملک بنائے رکھے گا، یعنی ایکسپورٹ کیلئے بھارت کے مقابلے جاپان اور چین دوسرے تیسرے نمبر پر رہیں  گے۔ دوسری طرف یوای اے بھارت کی اشیا کو باہر کے بازار میں بھیجنے کیلئے ’’ٹریڈ کاریڈور‘‘ کا کام کررہا ہے۔ گلف، مغربی افریقہ، سینٹرل ایشیاء کے ملک ایران، افغانستان تک بھارت کے سامان متحدہ عرب امارات کے راستے جارہے ہیں  ۔ بھارت کے سرمایہ کاروں اور پیشہ وروں کیلئے بھی یہ  بازار اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے سائز کو دیکھتے ہوئے یہ صاف ہے کہ یو اے ای بھارت کے ساز وسامان کی منزل کے مقابلہ میں بازار زیادہ ہے۔ ایک عالمی کاروباری مرکز کے طورپر ابھرا یہ دیش نہ صرف ہمارے دوطرفہ تعلقات میں اہم رول نبھاتا ہے، بلکہ فارس کی کھاڑی کے باقی دیشوں سے بھی ہمیں جوڑتا ہے۔

 امارات کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی اہمیت و ضرورت سے کسی کو انکار نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ شیخ محمد بن النہیان کو ایسے وقت جبکہ پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والا ہے، مہمان خصوصی کے طورپر کیوں بلایاگیا؟ جس طرح ابوظہبی کے حکمراں کا نریندر مودی نے پروٹوکول توڑ کر استقبال کیا، ان کی خاطر مدارت اور آئوبھگت کی گئی اس سے کیا پیغام دینا مقصود تھا؟ اسدالدین اویسی نے مودی کے بغل گیر ہونے پر چٹکی لیتے ہوئے کہا تھا کہ اُس داڑھی سے پیار اور اِس داڑھی سے نفرت کیوں  ؟ کئی لوگ  سرکار کے س قدم کو مسلمانوں کو خوش کرنے اورا نہیں قریب لانے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن  جس طرح  اس دورے  کو ہائپ دیاجانا چاہئے تھا، وہ نہیں  دیا جا سکا۔ جبکہ یواے ای کے ولی عہد کے ساتھ انتہائی اہم معاہدے ہوئے، اخباروں نے خبر تو لکھی لیکن اس پر نہ اداریہ لکھا گیا اورنہ ہی مضمون۔ ٹیلی ویژن چینلوں نے بھی ایئر ٹائم میں اس کو زیادہ جگہ نہیں دی  حد تو یہ ہے کہ  مترجم بھی وقت پر ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکا یہاں تک کہ مہمان بغیر مترجم کے حیدرآباد ہائوس پہنچ گئے۔ شاید اس تقریب کو

زیادہ مشتہر نہ کرنے کے  پیچھے ریاستی انتخابات میں غیر مسلم ووٹوں کے بھاجپا سے دور ہونے کا ڈر رہا ہوگا۔ خیر جو بھی ہو متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہماری مضبوط دوستی دیش کے حق میں  بڑی کامیابی ہے۔ یہ نزدیکی نہ صرف  جنوبی ایشیا کی سیاست پر  اثر انداز ہوگی بلکہ  دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والو ں کو سخت بیغام بھی دے گی اور بھارت کی ترقی میں یہ میل کا پتھر ثابت ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔