افریقی صحرا کے نور ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط

اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے، اس کے ہر اصول منزل من اللہ (اللہ کی طرف سے نازل کردہ ) ہیں اس میں کسی قسم کی کوئی ترمیم وتبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کا قانون دنیا کے بسنے والے ہر فرد پر یکساں اور مساوی طورپر لاگو ہوتاہے۔ خواہ وہ کہیں بھی رہتاہو۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہندوستانیوں کی نماز الگ ہو اور برطانویوں کی نماز الگ اور عرب میں بسنے والوں کی الگ، یہی نہیں اس کا ہر قانون زندگی سے بھرپور اور بدلتے ہوئے حالات میں نہ بدلنے والی قدروں کا حامل ہے۔ یہ کوئی بھی بات بے دلیل نہیں کہتا بلکہ بسا اوقات دلیل پہلے دیتا ہے اور حکم بعد میں اور ہر عمل کے لئے ایک نہیں سینکڑوں افراد کا عملی نمونہ اور اسوہ حسنہ اپنے جلو میں رکھتاہے۔ دنیا کے حالات کتنے ہی بدل جائیں۔

وقت اور حالات کتنے ہی خراب ہوجائیں، زمانہ کہنا درست نہ ہوگا ، زمانہ کے لوگ اسلام کے کتنے ہی شدید اور کٹر دشمن بن جائیں۔ لیکن یہ اپنے اندر ایسا آب حیات رکھتا ہے کہ سینکڑوں بار مسل دیئے جانے کے بعد بھی اتنا ہی سرسبزوشاداب ہوجاتا ہے جتنا اس کو مسلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی تنقید آخری تنقید ہے۔ اس کا کسی چیز پر فیصلہ اور Commentsآخری ہوتاہے اور ایسا اٹل ہوتاہے کہ اس میں دنیا وکائنات کی کوئی طاقت کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی ہے۔ اس نے ہرزمانہ میں ایسے افراد کو پیداکیا ہے جنہوں نے تنہا تنہا نامساعد حالات اور بغیر کسی حکومتی اور فوجی طاقت کے حالات کے رخ کو ایسا موڑا ہے اور انسانیت کی وہ گراں قدر خدمات انجام دی ہیں کہ دوسری اقوام وملل کی پوری پوری جماعت سینکڑوں برسوں میں انجام نہ دے سکیں۔ زمانہ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ ایسے آئیڈیل سے ہماری تاریخ کبھی بھی خالی نہ رہی۔ اگرچہ کہ ہماری کوتاہ نظری اور ہماری ذہنی بگاڑ نے ان کو کبھی تلاش نہیں کیا۔ افسوس کہ ہمارے نوجوانوں کو ان کے نام تک یاد نہیں ہیں، ہمارے نوجوانوں کو یہاں تک کہ(معذرت کے ساتھ) ہمارے پڑھے لکھے لوگ، دانشور حضرات، اہل دانش وبینش اپنی تحریروں اور تقاریر میں بھی غیروں کا نام لیتے ہیں ان کو مارکوپولو، ڈونالڈو، میسی، گیلی لیو، مادر ٹریسا تو یاد ہے۔ لیکن حضرت رابعہ بصریہؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، محمد بن قاسم ثقفیؒ، عبداللہ الجبرانیؒ ، علم جراحت کے موجد ابوالقاسم الزہراویؒ، کا نام یاد نہیں آتا۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ اپنے ایک خطاب میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں:’’تاریخ کے قدیم ترین دور سے لے کر ہمارے زمانہ تک جس چیز نے انسانیت کی شمع مسلسل طورپر روشن رکھی ہے وہ خدا کی یہ نعمت ہے کہ ’’اچھے انسان‘‘، اللہ انسان سے مایوس نہیں ہوئے، انہوں نے اس کو ناقابل علاج مریض اور ناقابل اصلاح حیوان نہیں سمجھا، وہ بھی اس کے وجود سے ایسے متنفر نہیں ہوئے کہ اس کی صورت دیکھنے تک کے روادار نہ ہوں، انہوں نے کبھی اس کے زندہ رہنے کے استحقاق کا انکار نہیں کیا۔‘‘
اور مزید یوں فرماتے ہیں: ’’انسانیت کا چراغ بے تیل بتی کے جل سکتاہے، وہ ہوا کے تیز جھونکوں اور طوفانوں کے تھپیڑوں میں روشن رہ سکتاہے اور انسانیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبروں نے انسانیت کا چراغ روشن رکھا، انہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اور مسلسل فاقہ کرکے جنگلوں اور بیابانوں، کڑاکے کے جاڑوں کی راتوں اور تپتی ہوئی دوپہر میں انسانیت کی خدمت کی۔ ان میں سے کوئی چیز ان کی ہمت توڑنے اور ان کو ان کے مقدس کام سے روکنے کے لئے کافی نہ تھی، ان کی نہ ختم ہونے والی قوت کے مقابلہ کا راز اور ان کی حیرت انگیز قوت عمل کی بنیاد یہ تھی کہ وہ انسان کو دست قدرت کا شاہکار (Master Piece) سمجھتے تھے۔‘‘
ایک دوسری تقریر میں کچھ اس طرح گویا ہیں: ’’ہر ایسے موڑ پر کچھ ایسے لوگ سامنے آجاتے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑدیتے ہیں اور واقعات کا دھارا بدل دیتے ہیں، ان کی دلیری، ان کی صاف گوئی اور ان کی جانبازی پورے پورے ملک اور قوم کو بچالے جاتی ہے۔ یہی لوگ ملک کے معمار ہوتے ہیں۔ اردو کے کسی پرانے شاعر نے صحیح کہاہے۔ ‘‘
اولو العزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں‘‘
انہی مردان میدان میں سے ایک مرد مجاہد مرحوم ومغفور شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السمیط کویتی (15اکتوبر1947 مطابق 1366ھ ۔15اگست 2013ء مطابق 8 شوال المکرم 1434ھ) ہیں، جو کویت کے رہنے والے ایک مسلمان ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے کینیڈا، عراق اور یوروپ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ محلات اور پرکشش ملازمتوں کو چھوڑ کر اسلامی رفاہی اور دعوتی کام سنبھالتے ہوئے اپنی ساری زندگی اس عظیم خدمت کو انجام دیتے ہوئے امت مسلمہ کے پسماندہ طبقہ کے علاج ومعالجہ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں گزاردی۔ لیکن گمنام رہے، کسی نے آج سے قبل ان کو نہ جانا نہ پہچانا، کیوں کہ ان کے اندر خلوص کا وہ چراغ روشن تھا جس سے دل کی دنیاروشن ومنور تھی، ان کو دنیا کی شہرت نہیں چاہئے تھی، ان کا ہر عمل اللہ کے لئے تھا، اسی لئے تو کبھی کسی اخبار کی زینت بننا گوارا نہ کیا اگر وہ چاہتے تو میڈیا کاہجوم ان کے ارد گرد ہوتا۔ ان کے تعلق سے یہ معلومات بھی ان کے انتقال کے بعد افریقی اخبار ، العربیہ ڈاٹ کام وغیرہ کے حوالہ سے حاصل کی گئیں۔ ان کی کہانی میں ہمارے مالداروں، اہل علم ودانش، پروفیشنلس، قائدین اور رہنماؤں کے لئے یقیناً ایک پیغام ہے ۔ بہر کیف انہوں نے افریقہ کی جانب رخت سفر باندھا اور افریقہ کے دور دراز علاقوں اور صحراؤں میں رہ کر اسلامی رفاہی ودعوتی کام کرتے رہے، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اخلاص کی بدولت 11 ملین سے زائد افراد نے براعظم افریقہ کے مختلف ممالک میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور رستم ایران کے دربار میں سفیر فاروقی حضرت ربعی بن عامرؓ کی اس تقریرکی جیتی جاگتی تصویر پیش کی کہ ’’اللہ نے ہم کو مبعوث کیا کہ ہم لوگوں کوجن کو وہ چاہے، بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی وغلامی میں ڈالیں اور ادیان ومذاہب کے ظلم وجور سے نکال کر اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لے جائیں۔‘‘

شیخ عبدالرحمٰن السمیط کا تعلق کویت کے اعلیٰ گھرانہ سے تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی عیش وعشرت سے بھری پری زندگی پر افریقہ کے صحراؤں اور جنگلوں کو ترجیح دی اوروہاں جاکر عیسائی مشینری کا مقابلہ کرتے ہوئے مفلسی وغربت کے شکار عوام کی مدد اور علاج ومعالجہ کرکے ان کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ اکثر لوگ ان سے سوال کرتے کہ وہ کویت میں عیش وعشرت کی زندگی چھوڑ کر افریقہ کے جنگلوں میں کیوں زندگی گزاررہے ہیں تو وہ ہمیشہ کہاکرتے تھے:’’ایمان کی جوحلاوت مجھے یہاں میسر آتی ہے اگرحکمران تھوڑا سا بھی مزہ چکھ لیں تو وہ اپنے محلات چھوڑکر یہ کام شروع کردیں۔‘‘ شیخ پر امریکی ایجنسیوں اور یہودی لابیوں نے دہشت گردی کا الزام بھی عائد کیا اور افریقہ میں ٹینک بنانے کی فیکٹری قائم کرنے کے الزامات لگائے اور خفیہ ایجنسیوں نے ان کا پیچھا کیا، جبکہ ان پر متعدد بار قاتلانہ حملہ بھی کیاگیا۔ لیکن ان تمام سے بے پروا اس مرد مجاہد نے اپنا کام بند نہیں کیا۔ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی دینی مصلحتوں کے نام پر اسلام کی خدمت سے پیچھے ہٹنا گوارہ کیا۔ شیخ اکثر کہاکرتے تھے کہ اگر مسلمان تاجر صحیح طریقہ سے اپنی زکوٰۃ دیں اور حقیقی مستحقین میں اس کی تقسیم کو یقینی بنائیں تو مسلمانوں کی غربت ختم ہوجائے گی اور مسلمان فقیر رہے گا نہ کسی مسلمان کو کوئی عیسائی مشینری اس کی غربت کو استعمال کرکے کافر بنا سکے گی۔

ایک موقع پر انہوں نے کہا: ’’عرب تاجروں کی سرمایہ کاری 275 ارب ڈالر ہے جس کی اگر صحیح زکوٰۃ نکالی جائے تو یہ 250ملین مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے، یہ صرف عرب تاجروں کی بابت ہے۔ جبکہ دنیا بھر کے مسلمان تاجروں کی سرمایہ کاری اس کے سوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کےلئے سب سے بڑا چیلنج عیسائی مشینری ہے ۔ صرف امریکہ میں قائم عیسائی مشینری کے لئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور این جی اوز کے تحت 51ملین سے زائد مبلغین دنیا بھر میں گھوم گھوم کر عیسائیت کو فروغ دینے اور مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ 365ہزار کارکن ان مبلغین کا جائزہ لینے کے لئے ہمہ وقت آن لائن رہتے ہیں۔ کتابیں اور دیگر لٹریچرس وسامان ان تک پہنچانے کے لئے ہرگھنٹہ میں چارمنٹ کے حساب سے 360 سے زائد طیارے پرواز بھرتے ہیں۔ 4050 کلیسا اور ریڈیو چینلز ہیں جو دن رات عیسائیت کی پرچار میں سرگرم ہیں۔ 2012 میں 300ارب ڈالر عیسائی چرچ اور کلیساؤں نے جمع کرکے عیسائی مشینریز کو دیئے ہیں۔

اس کے برعکس ہم مسلمان اس میدان میں انتہائی سستی اور غفلت کا شکار ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی حسین واقعہ ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ ’’افریقہ میں ایک قبیلہ آباد ہے ویسے تو کئی قبائل ہیں لیکن (نام لئے بغیرانہوں نے کہا) کہ ایک قبیلہ ہے جس میں انتہائی درجہ کی غربت اور فقر وفاقہ ہے اس قبیلہ پر عیسائی مشینریز نے 40 برسوں تک کام کیا اس کی خدمت کی اور 4ملین ڈالڑ سے زائد خطیر رقم خرچ کی۔ لیکن جب ہم وہاں گئے اور ہم نے انہیں دعوت دی اور اپنی استطاعت کے مطابق رفاہی کام کیا تو اس قبیلہ کے 98 فیصد لوگوں نے ہم سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیا۔ شیخ عبدالرحمٰن مرحوم نے اپنی زوجہ محترمہ أم صہیب کے ساتھ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور رفاہی کام کا آغاز کیا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ امت کی مائیں اور بہنیں ذرا غور کریں کہ ایک عورت نے شیخ عبدالرحمٰن کوپر تعیش زندگی کو ترک کرنے پر آمادہ کردیا، اور افریقہ کی صحرا او رچٹیل میدان ، جنگلوں میں زندگی بسرکرنے پر مجبور وآمادہ کیا اور یہی نہیں بلکہ خود ان کے شانہ بشانہ ان کے عمل میں معاون ومدرگار رہیں۔ عورت کا یقیناً معاشرہ کی تبدیلی اور اس کی اصلاح میں اہم کردار ہوتاہے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنے شوہر، اپنے بھائی، اپنے بیتے کو صلاح الدین ایوبیؒ، حسن بصریؒ، امام بخاریؒ، امام شافعیؒ، امام ابوحنیفہؒ بناسکتی ہیں۔ مصلحین کی وہ جماعت کھڑی کرسکتی ہیں جن کی مثالیں ماضی میں بہت ملتی ہیں۔ لیکن کیا ہوگیا، اس امت کو۔ بہرحال شیخ نے افریقہ کی صحرا میں اپنی زندگی کے 29 برس گزارے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر 5700 مساجد تعمیر کیں ، 9500 کنویں کھدوائے، 15000 بے سہارا یتیموں کی تعلیمی، معاشی کفالت کی، 840 اسلامی مکاتب، 204 اسلامی مراکز، 860 اسپتال اور ڈسپنسریاں اور 4بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ شیخ نے ابتدا میں انفرادی طورپر اپنے ذاتی مال سے کام شروع کیا اور اپنی تمام دولت اور کمائی کو اسی مقصد کے لئے وقف کردیا۔ صدقات وزکوٰۃ کو مستحقین میں تقسیم کرنے کے صاف وشفاف نظام کے لئے انہوں نے ’’افریقن مسلم کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کانام بعد میں ’’ڈائرکٹ ایڈ‘‘ رکھا۔ اپنی ادارت میں ’’الکوثر‘‘ میگزین کا اجرا کیا۔

بہر حال یہ ہے افریقہ کے صحرا میں روپوش ایک مرد مجاہد کی مختصر داستان، اس طرح کے نہ جانے کتنے مرد میدان ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ہیں کیوں کہ یہ امت کبھی مصلح اور خیر خواہ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ بس ضرورت ہے کہ ان کو ہی اپنا آئیڈیل بنالیا جائے اور ان کی زندگی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا، بچھونا بناکر ایک قدم اٹھایاجائے، ایسے افراد کو تلاش کیاجائے اور اگر ان کو افراد ومال کی ضرورت ہو تو ان کی بھرپور ہمت افزائی کے ساتھ ان کا تعاون کیاجائے۔ ان کے انتقال نے ان علاقوں کو ایک محسن سے محروم کردیا، وہاں کے لوگ ان کو ڈھونڈ رہے ہیں کہ
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکاں اپنی اٹھالے گئے
اللہ ہم کو توفیق سے نوازے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔