راشٹر واد پر بھاری نیائے کا وار 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

موجودہ پارلیمانی الیکشن میں ایک طرف بھارتیہ جنتاپارٹی ترقی اور فرقہ پرستی کے ملن سے تیار راشٹرواد کے سہارے میدان میں ہے، تو دوسری طرف، کانگریس نے غریبی، نابرابری، بے انصافی اور بے روزگاری کے خلاف "نیائے” کو اپنا چناوی ہتھیار بنایا ہے۔ راشٹرواد کے پیچھے بھارت۔ پاک کا تناؤ، ایک جارحانہ حکومت کی شبہ کو گڑھتے ہوئے دہشت گردی کو منھ توڑ جواب دینے کی منطق سے تیار ہوا ہے۔ اسے مضبوط کرنے کے لئے فرقہ واریت کے رنگ کو گہرا کر، پلوامہ حملہ کے بعد بالاکوٹ میں کی گئی ائیر اسٹرائیک کو بنیاد بنایا گیا۔ وزیراعظم نریندرمودی کی پہلی بار ووٹ دینے جا رہے نوجوانوں سے اپنا پہلا ووٹ بالاکوٹ میں کی گئی ائیر اسٹرائیک کے نام پر دینے کی اپیل کو اسی سلسلہ کی کڑی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس پر بعد میں تنازعہ ہوا۔ فوجی اہلکاروں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر سخت اعتراض کیا۔ اس کی شکایت انتخابی کمیشن تک بھی پہنچی۔

ترقی کی بات 2007 کے یوپی اسمبلی الیکشن میں راہل گاندھی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شروع کی تھی، لیکن اس کا صحیح استعمال 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور نریندرمودی نے کیا۔ گجرات ماڈل کو ترقی کے نمونہ کے طور پر ملک بھر میں مشتہر کیا گیا اور ملک کے عوام نے بغیر تحقیق کے اسے قبول کر لیا۔ بی جے پی نے سب کا ساتھ سب کے وکاس کا نعرہ دیا۔ اس نے کالے دھن پر لگام لگانے، غیر ممالک میں جمع کالے دھن کو واپس لا کر اقتصادی نابرابری کو دور کرنے، بد عنوانی سے پاک حکومت دینے، نوجوانوں کو دو کروڑ نوکریاں سالانہ دینے، کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے، مہنگائی روکنے اور خواتین کو عزت و تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

عوام کو پارٹی سے جوڑنے کے لئے "اچھے دن آئیں گے” جیسا امید افزا نعرہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تک پہنچایا گیا۔ اس کی وجہ سے ہی بی جے پی کو تاریخی کامیابی ملی۔ پچھلے پانچ سال میں بی جے پی کی مودی حکومت اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ اسے چناؤ ميں جانے کے لئے کسی ایسے مدے کی تلاش تھی جو عوام کی مایوسی، ناراضگی کو بھلا سکے اور اس کی ناکامیوں کی طرف سے دھیان ہٹا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی۔ شاہ نے سوچ سمجھ کر ملک کی حفاظت اور راشٹرواد کو اپنا انتخابی ہتھیار بنانے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس نے ترقی کے خواب اور حقیقت کے بیچ داخل ہو کر اس کے برعکس کسانوں کی حالت، دیہی سماج کی بدحالی، بے روزگاری، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، غریبی، اقتصادی نابرابری، ملک کی حفاظت میں لا پرواہی، رافیل سودے میں بد عنوانی، بھک مری اور عورتوں کو ان کا جائز حق نہ ملنے جیسی چیزوں کو ناانصافی کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی ناانصافی کے تصور کو وسعت دیتے ہوئے کانگریس نے اس کے جواب میں اپنا ‘نیائے’ کا نریٹیو تیار کر "اب ہوگا نیائے” کا نعرہ دیا ہے۔ نیائے کے نعرے کو زمین سے جوڑنے و اس پر مزید اعتبار قائم کرنے کے لئے "ہم ہی تو ہندوستان ہیں ” کا سلوگن دیا گیا ہے۔ کانگریس کے اس نعرے ‘ہم ہی تو ہندوستان ہیں ‘ کو مضبوط راشٹرواد کے جواب کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس نعرے سے راشٹرواد کے مطلب پر ہندتو وادی طاقتوں کے دعویٰ کو بھی خارج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

‘اب ہوگا نیائے’ کے نعرے کی وجہ سے روزگار اور بے روزگاری کو سنجیدہ سیاسی بحث میں جگہ ملی۔ اسی کے ضمن صحت اور تعلیم کا ذکر بھی سامنے آیا۔ عام طور پر روزگار جیسا مسئلہ انتخابات میں ایشو نہیں بنتا، لیکن اس بار تصویر کچھ الگ نظر آ رہی ہے۔ اس صورت حال نے 2019 کے پارلیمانی انتخاب کو خاص بنا دیا ہے۔ اس میں مذہب، ذات، راشٹرواد، اکثریت واد اور فرقہ وارانہ پہچان سے جڑی سیاست حاوی ہے، پھر بھی چاہے ان چاہے اقتصادی ترقی اور روزگار کی بحث مرکز میں ہے۔ بی جے پی بار بار سیاست کا رنگ بدلنے اور ایشوز سے بھٹکانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس سوال سے پیچھا نہیں چھٹا پارہی۔

کہنے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی نے شروع سے ہی الیکشن میں حفاظت کے سوال اور راشٹرواد کو اپنی انتخابی تشہیر کا مرکزی ایشو بنایا تھا۔ بقول دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار صرف پاکستان کی مخالفت کے لئے ہے۔ اس سے قانون انتظامیہ میں آئی گراوٹ، کسانوں کی حالت زار، روزگار، تعلیم اور صحت کے بارے میں کوئی سوال نہ پوچھا جائے۔ اس کا پورا فوکس اسی پر ہے سوال یہ ہے کہ پاکستان مخالف جذبات کے آسرے راشٹرواد کا مدا کتنا اور کہاں تک چلتا۔ نتیجہ کے طور پر یہ اور قبر کے لئے زمین چاہئے، مسلمانوں کو اس ملک میں رہنا ہے تو وہ بی جے پی کو ووٹ دیں۔ علی بجرنگ بلی اور بابر کی نسلوں کو قابو میں رکھنے کے لئے مودی کو ووٹ دینے والے جملے اور راشٹرواد دھار دار ثابت نہیں ہو سکے۔ مودی کی ‘دھماکے سنائی دینا بند ہو جانے’ کی شیخی اپنی جگہ، ان کے دعووں کے تضاد کو کوئی کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔ جوانوں کی عزت کے دکھاوے سے بھی اس سچائی کو چھپایا نہیں جا سکتا کہ ملک گزشتہ پانچ برسوں میں اندرونی و باہری دونوں پہلوؤں سے پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گیا ہے۔

پچھلی یو پی اے حکومت کے مقابلہ موجودہ حکومت میں دہشت گردانہ حملے قریب چھ گنا ہو گئے ہیں۔ گزشتہ سرکار کے پانچ سال میں کل 109 دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے، تو این ڈی اے کے پانچ سال میں 626 دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد تین گنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یو پی اے حکومت میں 139 جوان شہید ہوئے تھے تو اس حکومت میں 483۔ عام شہریوں کی بات کریں تو پچھلی سرکار میں صرف 12 لوگوں کی موت ہوئی تھی، اس سرکار میں یہ تعداد 210 پہنچ گئی ہے۔

یو پی اے کی سابقہ حکومت میں سیز فائر کو توڑنے کے 563 واقعات ہوئے تھے، جو اس سرکار کے پانچ سال میں 5596 ہو گئے ہیں۔ اسی طرح دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کے دعویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ آمدنی کا فرق بے حساب بڑھ گیا ہے۔ 2018 میں ملک کی کل ملکیت میں چار روپے کا اضافہ ہوا تھا، تو اس میں سے تین روپے ہماری آبادی کے سب سے امیر ایک فیصد کی تجوری میں چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ راشٹرواد چلا اور نہ فرقہ واریت۔ راشٹرواد کے مقابلہ عام لوگ نیائے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ انہیں کانگریس سے ملک کو بہتر نعم البدل دینے کی امید بندھی ہے۔ ایک آد کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاستی پارٹیاں نیائے کے تصور کو ہی مضبوط کرنے میں لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخر کے تین مرحلہ کے انتخاب کا ذمہ، بی جے پی کو پیچھے کر آر ایس ایس نے سنبھال لیا ہے۔ اس نے انتخابی  تشہیر کے لئے اپنے پورے 80 ہزار سوئم سیوک، پرچارک جھونکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی کی لہر نہ ہوتے ہوئے بھی کانگریس کا "نیائے” کا وار راشٹرواد پر بھاری پڑ رہا ہے۔ نتائج جو بھی ہوں مودی مخالف لہر کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔