مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجیے!

وصیل خان

  سول سروسیز امتحانات کے نتائج گذشتہ سال کے مقابلے مسلم طلباء کیلئے بھلے ہی بہت زیادہ خوش کن نہ رہے ہوں لیکن طلباء کی جدوجہد اوراس میدان میں ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر یہ پختہ امید باندھی جاسکتی ہے کہ مستقل قریب میں مسلم طلباء ایجوکیشن کے اعلیٰ معیار کا وہ نشانہ پار کرسکتے ہیں جس کے لئے ایک طویل عرصہ سے ماہرین تعلیم اور بہی خواہان ملت کا ایک طبقہ ان کے بہتر مستقبل کیلئے سرگرم ہے۔ ایسے موقع پر خصوصاً والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داریوں میں مزید تحریکی شدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی بگاڑ اورتیزی سے رو بہ زوال قدروں کے اس دور میں جہاں انسانیت ہی عنقا ہوتی جارہی ہو طلباء کو تعلیمی و اخلاقی میدان میں ثابت قدم رکھ پاناانتہائی مشکل کام ہوتا جارہا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کتابوں کی جگہ موبائل نے لے لی ہو،فیشن اوراخلاقی برائیوں کا چہار طرف تسلط بڑھتا جارہا ہواس کیفیت میں بھی طلباء اگر اپنے بہتر مستقبل کیلئے کوشاں ہوں تو اسے ہم کرامت ہی کہہ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں دینی مدارس کی بڑھتی ہوئی پیش رفت سےبھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہی دینی ادارے ہیں جہاں صبح و شام قال اللہ و قال الرسول کا درس دیا جاتا ہےجہاں انسان سازی کا کام بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے اس کے برعکس تمام تر عصری تعلیمی اداروں میں انسان سازی کا سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوتا ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان اداروں میں حیوان کاسب ( کمانے والےحیوان )بنانے کا بھرپور انتظام ضرور ہوتا ہے۔ اس سال کے سول سروسیز نتائج کی فہرست میں ایک بار پھراسلامک دینیات کے گریجویٹ مولانا شاہد رضا خان کے نام کا اضافہ ہوا ہے۔ انہیں رینک میں ۷۵۱ واں مقام حاصل ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو شاہد رضا کی اس باوقار امتحان میں کامیابی ان تمام مدراس دینیہ کیلئے کسی مثالی نمونہ سے کم نہیں۔ انہوں نےایک طرف اگر دینیات میں درس نظامیہ کی سند حاصل کی وہیں دوسری طرح عصری تعلیم میں بھی ایک انتہائی بلند و باوقار اعزاز بھی لے لیا ، ظاہر ہے کہ ان کامیابیوں کا حصول آسان نہیں تھا اس کے لئے سخت جدوجہد اور محنت کی ضرورت تھی سو انہوں نے ان کامیابیوں کا حصول کرکے یہ ثابت کردیا کہ دنیا کا کوئی کام مشکل نہیں اگر انسان جی میں ٹھان لے تو اس کے لئے کسی بھی منصوبے یا کام کو پایہ ٔ تکمیل تک  پہنچانا ناممکن نہیں رہ جاتا۔

ایک گفتگو کے دوران شاہد رضا خاں نے بتایا کہ بہار بورڈ سے ۱۰؍واں درجہ پاس کرنے کے بعد میں نے اپنی پسند سے اعظم گڑھ میں الجامہ الاشرفیہ سے عالمیت کی سند امتیازی پوزیشن میں حاصل کرنے کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیائی مطالعات میں ایم فل کیا اس کے بعد سول سروسیز کی تیاری شروع کردی اور امتحان میں بیٹھ گیا۔ ۲۰۱۸ ءکے نتائج کا اعلان ہو ا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب فہرست میں دیگر ۴۰؍طلبا کے ساتھ میرا نام بھی شامل تھا۔ نام دیکھ کر خود میں اور جامعہ سینٹر فار کریئر کوچنگ جس کو ریزی ڈینشیل کوچنگ اکیڈمی بھی کہا جاتا ہے ایک خوشی کی لہر دوڑگئی۔ شاہد رضا کہتے ہیں کہ میری کامیابی کا سہرا مدرسہ کے تعلیمی ماحول کے سر جاتاہے جس نے میرے اندر خود اعتمادی اور یقین کی روشنی بھردی، مجھ میں خلوص اور دیانت داری پیدا کی اور مجھ کو باعمل بنانے میں اہم کردار نبھایا۔ شاہد رضا بہار میں گیا ضلع کے امین آباد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے رہنے والے ہیں، انہوں نے عالمیت کی سند کے حصول کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے عربی میں گریجویشن اور پھر ایم اے اور ایم فل کیا، فی الحال مغربی مطالعات میں وہیں سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ اسی سال جموں و کشمیرکے پونچھ ضلع کے سلواہ گاؤں کی ایک خاتون ڈاکٹر ریحانہ بشیر بھی اس امتحان میں کامیاب ہوئی ہیں ان کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کی اولین گوجرطبقے کی خاتون ہیں جنہوں نے سول سروسیز امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جموں خطے سے وہ تنہا نہیں بلکہ وہ ان ۷ ؍ افراد میں شامل ہیں جنہوں نے اس سال سول سروسیز امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ریحانہ بشیر نے ۲۰۱۶ میں کشمیر کے سوراپرشیرکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز سے ایم بی بی ایس کیا اور انٹرن شپ کے دوران انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس ( آئی اے ایس ) میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور کامیاب رہیں۔

گذشتہ دوتین سال قبل دارالعلوم دیوبند سے عالمیت میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعدڈاکٹر وسیع الرحمان قاسمی کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ انہیں بھی سول سروسیز کے امتحانات میں شریک ہونا ہے جس کے لئے گریجویٹ ہونالازمی ہے۔ وہ گریجویٹ نہیں تھے، ماہرین سے مشورے کے بعد انہوں نے وہیں دارالعلوم میں ہی طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا، بی یوایم ایس کرنے کے بعد وہ گریجویشن کی بنیاد پر سول سروسیز کے امتحانات میں بیٹھنے کے مجاز ہوگئے دو تین مرتبہ قسمت آزمائی کے بعد انہوں نے بھی آئی اے ایس میں کامیابی حاصل کرلی، کچھ سال قبل مہاراشٹر کے طبی کالجز اور انجمن اسلام ممبئی کے اشتراک سے سہ روزہ طبی کانکلیو کا انعقاد ہوا تھا، ڈاکٹر وسیع الرحمان اس وقت ممبئی میں جوائنٹ انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے پرفائز تھےاس کانکلیو میں وہ بحیثیت مہمان خصوصی مدعو تھےانہوں نے علم طب کی اہمیت، ضرورت اور موجودہ صورتحال پرنہایت پرمغز اور بصیرت افروز خطاب کیا تھا۔

آیئےماضی کا ایک ورق پلٹیں۔ عباسی دور میں جب بغداد کے پایہ تخت پر ہارون الرشید جلوہ افروزتھااسے ایک مشہور درسگاہ جامعہ نظامیہ کےمتعلق کافی شکایتیں مل رہی تھیں خلیفہ نے ادارہ بند کرنے کا ارادہ کرلیا لیکن اس نے بذات خودوہاں کا دورہ کیا، ایک طالب علم سے پوچھا،تمہارےحصول علم کا مقصد کیا ہے، اس نے کہا میراباپ قاضیٔ شہر ہے میں بھی وہی ا عزاز چاہتا ہوں، خلیفہ نےدوسرے سے سوال کیا، اس نے کہامیں چاہتا ہوں کہ علم کےسبب میری عزت و توقیرمیں اضافہ ہو، اب خلیفہ کا ارادہ مزید پختہ ہوگیا،آخرمیں ایک اورطالب علم سے پوچھا، اس نے کہا میرے حصول علم کا مقصد یہ ہے کہ میں یہ جان سکوں کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن باتوں سے روکا ہے اور کن امور کی اجازت دی ہے تاکہ خود بھی عمل کروں اور دوسروں کو بھی آگاہ کرسکوں، خلیفہ نےاپنا ارادہ بدل دیا اور ادارہ جاری رکھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ طالب علم بعد میں امام غزالی ؒکے نام سے مشہور ہوا۔ بہرحال خواہ وہ دینی مدارس کے طلبا ہوں یا عصری اداروں کے ان کی پیش رفت یقیناً قابل تعریف ہے لیکن اتنا یادرہے کہ مذکورہ بالاواقعے میں جو پیغام مضمرہے وہی تمام مسلم طلباء سےعین مطلوب ہے۔ اس کے برعکس کسی بھی پیش قدمی کا کیا مطلب جو ہماری اسلامی شناخت ہی کو معدوم کردے۔

تبصرے بند ہیں۔