راہل اور ان کی امّاں کی سیٹ کہیں خطرہ میں نہ پڑجائے

حفیظ نعمانی

سابق گورنر عزیز قریشی صاحب نے انقلاب سے ایک گفتگو میں کہا کہ آج ملک کے حالات اقلیتوں کیلئے خاص طور پر بیحد تشویشناک ہیں ان کی نہ جان کا تحفظ ہے نہ مال کا اور تمام آئینی ادارے خطرے میں ہیں۔ انہوں نے تفصیل کے ساتھ حالات کی تصویر کشی کے بعد اکھلیش یادو اور مایاوتی کو مشورہ دیا کہ وہ وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور کانگریس کو بھی بی جے پی مخالف اتحاد میں شامل کرلیں۔

قریشی صاحب نے یہ بھی کہا کہ پرینکا نے آتے ہی کانگریسیوں میں جان پھونک دی ہے انہوں نے مزید کہا کہ وہ نہ صرف بی جے پی کے خلاف ترُپ کا پتہ ثابت ہوں گی بلکہ متحدہ محاذ کو بھی کافی نقصان پہونچائیں گی۔ قریشی صاحب کانگریسی ہیں وہ جو دیکھ رہے ہیں اسے شاید سب نہیں دیکھ رہے۔ ایک بزرگ کی حیثیت سے ان کو اس سلسلہ میں مشورہ راہل اور سونیا کو دینا چاہئے تھا کہ انہوں نے جب پرینکا کو جنرل سکریٹری بنایا توپورے ملک کو چھوڑکر صرف اترپردیش کی 38  سیٹوں تک کیوں محدود کردیا؟ یہ بات مہینوں سے کہی جارہی تھی کہ سپا بسپا متحدہ محاذ بنے گا اور سب یہ دیکھ رہے تھے کہ اکھلیش یادو بی جے پی کو دھول چٹانے کے لئے اپنی ہی نہیں پورے گھر کی بھی جان قربان کردینے پر آمادہ ہیں اور پورے ملک میں ہر سیاسی آدمی کی جو بی جے پی کا نہیں تھا یہ تبصرہ تھا کہ اکھلیش، اجیت اور مایاوتی اترپردیش سے بی جے پی کا جنازہ نکال دیں گے اور اس میں کانگریس کا کہیں نام نہیں تھا۔ اب قریشی صاحب راہل گاندھی سے معلوم کریں کہ انہوں نے اس وقت کیوں یہ کوشش نہیں کی کہ ان کو بھی اس محاذ میں شامل کرلیا جائے؟

قریشی صاحب کانگریس کے بزرگ لیڈروں میں ہیں انہوں نے جو کچھ کہا اور جس لہجہ میں کہا وہ تو دھمکی ہے کہ اگر کانگریس کو ساتھ نہیں لو گے تو وہ تمہارے ووٹ کاٹے گی اور جس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ ایک بزرگ کی حیثیت سے ان کا فرض تو یہ تھا کہ وہ راہل کو سمجھاتے کہ تمہارا مقصد بی جے پی کو ہرانا ہے۔ جب اترپردیش میں اس کو ہرانے کا معقول انتظام ہوچکا ہے تو اترپردیش میں ساری صلاحیت برباد کرنے کے بجائے کیوں نہ پرینکا کو ترُپ کے پتہ کے طور پر مہاراشٹر کے میدان میں اتارویا وہ ریاستیں جہاں بی جے پی نہیں ہے اور اپنی جڑیں جمانے کی کوشش کررہی ہے جیسے کیرالہ، تمل ناڈو وہاں ان سے کام کیوں نہیں لیا؟

ہم نے اس سے پہلے بھی لکھا ہے کہ جہاں کانگریس کا بی جے پی سے سیدھا مقابلہ ہے وہاں مسلمانوں کے لئے کانگریس کو ووٹ نہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور جن ریاستوں میں کوئی پارٹی اگر مضبوط طریقہ سے بی جے پی سے لڑرہی ہے جیسے بنگال یا اترپردیش تو وہاں کانگریس کو دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ کانگریس کا اصل مقصد بی جے پی کو ہرانا ہے۔ تین صوبوں میں بی جے پی کو ہرانے کے بعد کانگریس کا یہ سمجھنا کہ وہ اب ہر جگہ جیت جائے گی اور اتنی سیٹیں لے آئے گی کہ اپنے دم پر حکومت بنالے دیوانے کا خواب ہے۔ اور یہ بات وہ بھی جانتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جو کانگریس سے زیادہ سیٹیں لاکر وزیراعظم بننے کا دعویٰ پیش کرسکے۔ اترپردیش، بنگال یا تمل ناڈو میں جو بھی بی جے پی کو ہراکر آئے گا وہ حکومت میں کانگریس کا شریک ہوجائے گا۔

کل رات ایک معتبر چینل پر یہ خبر ہم نے خود سنی کہ راہل گاندھی نے کانگریس کی 20  سیٹوں کا فیصلہ کردیا جن میں سلمان خورشید اور راشد علوی کے بھی نام ہیں۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو اس سے اندازہ ہوتاہے کہ کانگریس کے سامنے 2019 ء نہیں ہے بلکہ 2022 ء ہے اور اگر انہوں نے متحدہ محاذ کے ووٹ کاٹ کر دونوں دعویدار پارٹیوں کو کمزور کرنے کی غلطی کی تو ہمیشہ کے لئے اترپردیش اجنبی ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ رائے بریلی اور امیٹھی میں بھی ایک جگہ سپا اور ایک جگہ بسپا کے اُمیدوار کا سامنا کرنا پڑے اس لئے کہ یہ دو سیٹیں محبت میں دی ہیں دشمنی میں نہیں۔ عزیز قریشی صاحب جیسے کانگریسیوں کے لئے ہوسکتا ہے کہ پرینکا ایک بم ہوں لیکن ہر وہ آدمی جو سیاست کی اے بی سی ڈی جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ پرینکا گاندھی کانگریس کے ہر مشورہ میں برابر شریک رہتی تھیں۔ وہ برسوں سے رائے بریلی اور امیٹھی آتی ہی رہتی تھیں اس کے علاوہ کرناٹک کا فیصلہ ہو یا تین صوبوں میں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو فیصلہ میں وہ شریک تھیں۔ انہوں نے اپنی دادی کی طرح شوہر کو نہیں چھوڑا وہ خود اس کے گھر جانے کے بجائے اسے اپنے گھر لے آئی ہیں اور اتنی محبت کرتی ہیں کہ لکھنؤ میں 9  گھنٹے کا روڈشو کرنے کے بعد شوہر کی خیریت لینے اسی رات میں جے پور پہونچ گئیں۔

ہوسکتا ہے یہ غلط فہمی کانگریس کے بزرگوں کو ہو کہ پرینکا کے آتے ہی قبروں سے سر کو پیٹتے ہوئے مردے نکل پڑیں گے۔ یہ غلط فہمی ان کو ہوگی جو نہیں جانتے کہ بگڑی ہوئی ہانڈی سنبھالنے میں جتنا وقت لگتا ہے اتنے وقت میں چار دوسری ہانڈیاں پک سکتی ہیں۔ کانگریس کی ہانڈی بگڑ چکی ہے اب اسے چولھے پر رکھنے سے یہ تو ہوسکتا ہے کہ وہ اور بگڑ جائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ پرینکا کے ہاتھ میں لیتے ہی سنبھل جائے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ 2017 ء میں جو اُترپردیش میں ہوا وہ زبان پر تو صرف مایاوتی کے آیا لیکن ہر وہ آدمی جو بی جے پی کا نہیں ہے اس کا ایمان ہے کہ مودی جی نے مشین کے ذریعہ الیکشن جیتا ہے اور اب سید شجاع نے آکر صاف صاف بتادیا کہ کس کس صوبہ میں مشین کا جادو چلا ہے۔ اس کے بعد سے ہر آدمی کے دل میں بدلہ کی آگ دہک رہی ہے وہ صرف اور صرف گٹھ بندھن کو ووٹ دے گا۔ اب یہ بات کانگریس کے بڑوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ اترپردیش میں چار سیٹ بھی نہ لاسکے تو وہ ترُپ کا پتہ پان کی دگی ّ ہوکر رہ جائے گا اور پھر وہ کہیں بھی کانگریس کو وہ فائدہ نہیں پہونچا پائے گا جس کے لئے اسے سونے کے ورق میں لپیٹ کر رکھا تھا۔ ہم نے جس خبر کو بنیاد بنایا ہے وہ ٹی وی کی 20  سیٹوں والی خبر ہے جس کا ذکر کسی اخبار میں نہیں ہے۔ اگر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے تو پرینکا بی بی اور مدھیہ پردیش کے ہیرو سندھیا کی شہرت کی حفاظت کی خاطر اترپردیش میں بی جے پی کا قتل ان کے ہاتھوں ہوجانے دیں جو 23  مہینے سے خون کے آنسو رو رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔