ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی ایک زمین میں تین فی البدیہہ غزلیں

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

کتنے ہی نامراد جہاں سے گذر گئے

’’جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار،مرگئے‘‘

انجامِ کارِ لیلیٰ و مجنوں ہے سامنے

دنیا میں نام وامق و عذرا بھی کرگئے

وِردِ زباں ہیں شیریں و فرہاد آج بھی

سنتے ہیں اُن کا نام وہاں ہم جدھر گئے

تھے میر ناخدائے سخن جن کا ہے یہ قول

’’جِن جِن کو تھا یہ عشق کا آزار، مرگئے‘‘

کچھ کی نظر مین ہے یہ خلل اک دماغ کا

کچھ کے نصیب اس کی بدولت سنور گئے

کچھ کھا رہے ہیں ٹھوکریں در در کی آج تک

کچھ رزمگاہِ زیست میں بے موت مرگئے

برقی کبھی نہ وعدۂ فردا وفا ہوا

سب نالہ ہائے نیم شبی بے اثر گئے

الف کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے مورخہ ۲۸ جنوری ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری کاوش

دروازۂ نگاہ سے دل میں اُتر گئے

تیرِ نظر سے کام جو لینا تھا کر گئے

سوزِ دروں کا حال مرے کچھ نہ پوچھئے

وہ اک جھلک دکھا کے نہ جانے کدھر گئے

جانے کب اپنا وعدۂ فردا نبھائیں گے

آئی نہ نیند مجھ کو کئی دن گذر گئے

دنیائے رنگ و بو یہ نظر کا فریب ہے

ہم اپنے ساتھ لے کے فریبِ نظر گئے

آئے تھے خالی ہاتھ گئے بھی وہ خالی ہاتھ

خانہ بدوش کتنے جہاں سے گذر گئے

کل کہہ رہا تھا مجھ سے یہ اک مُرغِ نیم جاں

فصلِ بہار میں وہ مرے پَر کَتَر گئے

صبحِ اُمید کا مجھے اب تک ہے انتظار

روشن تھے جو فلک پہ وہ شمس و قمر گئے

آشوبِ روزگار کا ایسے ہوئے شکار

جو تھے کھنڈر کی شکل میں دیوار و در گئے

نازاں تھے اپنے جاہ و حشم پر جو ایک دن

برقی ریاضِ دہر سے با چشمِ تَر گئے

الف کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے مورخہ ۲۸ جنوری ۲۰۱۲ کے لئے میری تیسری کاوش

’’جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے‘‘

لے کر دوائے دردِ جگر چارہ گر گئے

شیرازۂ حیات ہوا ایسا مُنتشر

آنکھوں میں جتنے خواب تھے میری بکھر گئے

جب سے گئے ہین تنگ ہے یہ عرصۂ حیات

تھے اُن کے ساتھ جتنے سبھی نامہ بر گئے

کہتے ہیں یہ اطبا مرض ہے یہ لاعلاج

وہ جاتے جاتے دے کے جو دردِ جگر گئے

اس رزمگاہِ زیست میں سینہ سپر رہیں

جو درد و غم سے ڈر گئے سمجھو وہ مَر گئے

لکھتے تھے تین تین غزل اک نشست میں

وہ فیس بُک کو چھوڑ کے جانے کدھر گئے

ممکن ہے یادگار رہے میرا یہ کلام

دنیا سے میر و غالب و ذوق و جگر گئے

برقی تھے گرچہ شاعرِ گوشہ نشین مگر

کہتے ہیں سب یہ اہل نظر دیدہ ور گئے

تبصرے بند ہیں۔