رجت شرما کا سیاسی مذاق

حفیظ نعمانی

          انڈیاٹی وی چینل کے مالک رجت شرما پرانے صحافی ہیں مگر ہمیشہ سے یک رُخے ہیں، 2014ء کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے بھی وہ بی جے پی کے ترجمان تھے لیکن لوک سبھا الیکشن کے موقع پر تو انھوں نے مودی نوازی کا ایسا حق ادا کیا کہ اگر بی جے پی نواز چینلوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ا نڈیا ٹی وی کو دوسرے پلڑے میں تو وہی جھک جائے گا۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر بھائی مودی سے ایک انٹر ویو لیا تھا، وہ ا نٹرویو آپ کی عدالت پروگرام میں نہ جانے کتنی بار دکھایا اور ہر دن موقع بہ موقع اس کے ٹکڑے ٹکڑے دکھاتے رہے اور کوشش کرتے رہے کہ پڑنے والا ہر ووٹ مودی صاحب کو ملے۔

          ہم نہیں جانتے کہ اس کا انعام انہیں کتنا ملا؟ اور اس کی ضرورت بھی نہیں لیکن یہ یقین کہ بہت ملا ہوگا، اس لیے کہ اس کے بعد وہ ہر الیکشن میں مودی صاحب کوجتانے میں اتنی ہی محنت کرتے رہے جتنی 2014ء میں کی تھی، اب اترپردیش اور پنجاب کے الیکشن آنے والے ہیں، کل انھوں نے ان حالات میں عوام کا رجحان دکھا دیا کہ ابھی نہ بی جے پی نے کوئی ریلی کی ہے اور نہ سماج وادی پارٹی نے اور وہ بی جے پی کی حکومت بنوانا چاہتے ہیں اور یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مودی کے دم قدم سے بی جے پی کی ہی حکومت بنے گی، اس کے لیے انھوں نے فی الحال اسے نمبر دو پر رکھا ہے۔ اور نمبر ایک پر اکھلیش کو رکھا ہے، ان کا جائزہ بتاتا ہے کہ مایاوتی سے دلت موریہ اور برہمن لیڈروں کے نکل آنے کے بعد مایاوتی نمبر 3 پررہ جائیں گی اور نمبر چار جو کانگریس کا مقدر ہے اسے اتنے ووٹ بھی نہیں ملیں گے جو 2014ء میں مل گئے تھے یعنی کانگریس 10 سیٹیں بھی شاید نہ جیت پائے۔

          ان کے اس ہوائی سروے پر جسے ہنسنا ہے ہنسے اور رونا ہے وہ روئے لیکن وفاداری کا حق ادا کرنے کے لیے ایسے ہی جوک چھوڑے جاتے ہیں، اس لیے کہ ابھی پوری طرح تو کانگریس اور ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی میدان میں آئی ہیں، کانگریس نے تودہلی سے کانپور تک کی پدیاترا اورپھر دوسری پد یاترا بھی کرکے ہزاروں پوسٹروں سے شہروں کو ترنگا بنادیا، صوبہ کا صدر اور وزیر اعلیٰ کا امیدوار بھی بدل دیا، ڈاکٹر ایوب کو ان کے دو ہندو برادریوں کے لیڈروں نے وزیر اعلیٰ بنانا طے کرلیا ہے، اور اعلان بھی کردیا، مایاوتی نے آگرہ میں انتہائی کامیاب ریلی کرکے دکھادیا کہ اب کی بار مایا سرکار، اور سماج وادی پارٹی یا بی جے پی نے ابھی ایک بھی ریلی نہیں کی لیکن رجت شرما نے دونوں کو ۲۸-۲۸ فیصدی ووٹ دے دئے، مگر اکھلیش یادو کی مقبولیت فی الحال سب سے زیادہ بتائی اورساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ بی جے پی نے اپنے وزیر اعلیٰ کا نام نہیں بتایا ہے، شاید ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بی جے پی کا وزیر اعلیٰ آجائے گا اور مودی جی اپنی گھن گرج لے کر آجائیں گے تو اچانک صورتِ حال تبدیل ہوجائے گی اور اکھلیش یادو نمبر دو پر آجائیں گے اور بی جے پی آرام سے حکومت بنا لے گی۔

          رجت شرما نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ برہمن سماج جو وقتی طور پر مایاوتی کے ساتھ چلا گیا تھا وہ بھی بی جے پی میں واپس آگیا ہے ا ور دلت جلد ہی واپس آجائیں گے۔ مایاوتی جو مسلمانوں پر داؤں لگا رہی ہیں وہ منہ دیکھتی رہ جائیں گی اور مسلمان ملائم سنگھ کو نہیں چھوڑیں گے۔ رجت شرما کو یا تو معلوم نہیں یا اس کالے دھندے میں وہ بھی شریک ہیں کہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ان مسلم امیدواروں کو ووٹ دے گا، جن کے ہاتھ میں جھنڈا بھی اسلامی ہوگا اور جن کے لیڈر بھی سیاسی پارٹیوں پر لعنت بھیجنے والے مسلمان لیڈر ہوں گے، لیکن جن کا پورا خرچ اور آئندہ ۵ برس تک کے عیش و آرام اور مرغ و ماہی کا سارا خرچ دست غیب سے مل چکا ہوگا۔

          بہرحال اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اترپردیش کے الیکشن میں چھ مہینے باقی ہیں، یا آٹھ مہینے اور رجت شرما کے بقول انتہائی مقبول وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو عوام جانتے ہیں، ان کی پارٹی کو نہیں، اور وہ اکھلیش یادو کہہ رہے ہیں کہ الیکشن سے پہلے ایک اجلاس مختصر وقت کے لیے اور بلائیں گے۔ یعنی سرمائی اجلاس، لکھنؤ میں اجلاس کے بعد دوسرے اجلاس کی باتیں ہورہی ہیں اور رجت شرما نے یہ بھی طے کردیا کہ اس وقت کس کے پاس کتنے فیصدی ووٹ ہیں۔ اوراس میں پیس پارٹی کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اگلے دو چار دن کے بعد ڈاکٹر ایوب صاحب جب پورے صفحہ کا اشتہار چھاپیں تو بتادیں کہ کتنے فیصدی ووٹ ان کے پاس ہیں، اور کتنی سیٹیں جیت رہے ہیں ؟ اور رجت شرما کو نوٹس دے دیں کہ وہ جو ان کا بنا بنایا الیکشن بگاڑ رہے ہیں وہ ان کے خلاف قانونی کاروائی کریں گے، اس لیے کہ الیکشن کا اشتہار سب سے پہلے اس وقت انھوں نے چھپوایا تھا جب نہ کسی کی پدیاترا ہوئی تھی اور نہ کسی نے ریلی کی تھی، پھر انھوں نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ پیس پارٹی کے ووٹ کتنے فیصدی ہیں ؟ جبکہ مسلمانوں اور دلتوں کی اکثریت ان کے پاس ہے۔

          رجت شرما صاحب شاید ابھی 2014ء کے ہی نشہ میں چور ہیں جب دلتوں کی اکثریت نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا، حیرت ہے کہ انھیں دہلی، بہار، بنگال، کیرلا، تمل ناڈو کی ذلت آمیز شکست یاد نہیں رہی، لوک سبھا کے الیکشن میں ہر دلت کو اس سے دلچسپی نہیں تھی کہ حکومت کس کی بنے گی، وہ 15لاکھ کا لا دھن کا حصہ اور مہنگائی کے کم ہونے کے جھانسے میں آگئے تھے، ان کے ساتھ جو گجرات کے اونا میں ہوا اس سے زیادہ شرمناک وہ واقعہ ہے جو دو ہفتہ پہلے ہردوئی کی پہانی تحصیل کے گاؤں کالا بھوج کی آنگن باڑی میں ہوا، وہاں ایک سرکاری تقریب میں کھانا بھی تھا، کھانے کو ایک ملازمہ دلت نے ہاتھ لگادیا، اعلیٰ  ذات کی تمام عورتوں نے کھانے کا بائیکاٹ کردیا، آنگن باڑی کی ملازمہ وملا ورما ہر طرح پاک صاف تھی، صرف ذات کی دلت تھی لیکن سیکٹر مجسٹریٹ سی ایچ سی پر تعینات ڈاکٹر جیسوال اور سپروائزر سروج نے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر ان شاہ زادیوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا اور شرم کی بات یہ ہے کہ بدھ اور جمعرات دودن سب کو پھل منگواکر دئے گئے، کیا اب اصل ملزم وہ نہیں بنے جنھوں نے پھل منگواکر دئے وہ بھی سرکاری پیسے سے، کیوں نہیں کہا کہ کھانا تو یہی کھانا ہے، اب یا بھوکی مرو یا گھر جاؤ، جب نفرت کا یہ حال ہو اوراس کے بعد تیسرے دن یادو لڑکی کو بلا کر کھانا پکوایا تب انھوں نے کھایا تو کیا یہ اس سے بڑا جرم نہیں ہے؟ اوراس کے بعد رجت شرما اپنے جائزہ میں کہیں کہ دلت ووٹ بی جے پی کو مل رہے ہیں، جہالت نہیں تو کیا ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔