آئیڈیل

سالک جمیل براڑ

احمد رئیس دور حاضرکے بلندقامت افسانہ نگار ہیں۔ کبھی کبھی تومجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ منشی پریم چندکادوسرا جنم احمدرئیس کے روپ میں ہواہے۔ انہوں نے ایساادب تخلیق کیاہے کہ پڑھ کرطبیعت خوش ہوجاتی ہے۔ انہوں نے جھونپڑپٹی میں رہنے والوں سے لے کرفٹ پاتھ پر زندگی بسرکرنے والوں کی ایسی تصویرکھینچی ہے کہ پڑھتے ہوئے یہی محسوس ہوتاہے جیسے انہوں نے خودبھی فٹ پاتھ کی مشکلوں کو جھیلاہو۔ ان کاہرافسانہ جب اپنے اختتام پرپہنچتا ہے توقاری کے ذہن پراپنے نقوش چھوڑجاتاہے۔ ہم خود کوکوسنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے اطراف اتنا کچھ ہورہا ہے اورہم بے خبرہیں ………انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے لوگوں کی آنکھوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ یہ سوچ کر آرام سے نہ بیٹھیں کہ اب توزمانہ بدل گیاہے اب تو کسانوں کو زمینداروں سے نجات مل گئی ہے۔ اورتاناشاہی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ پوری دنیا میں جمہوری نظام قائم ہو چکاہے۔ سینکڑوں سماجی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں۔ سب کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا، جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے اوررہنے کے لیے گھر ہے۔

احمد رئیس نے اپنے افسانوں میں یہی دکھایاہے کہ شیطان کبھی نہیں مرتابلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بھیس بدلتا رہتاہے۔ انہوں نے ایسے کئی شیطانوں کے چہرے بھی بے نقاب کئے ہیں۔

میرے دل میں رہ رہ کر یہ خیال اور شوق پیداہوتاتھا کہ جتنی جلدی ہوسکے انسانیت کے اس مسیحا سے ملاقات کی جائے۔ میں ان سے پوچھناچاہتا تھاکہ کیاواقعی وہ گلی گلی، جھونپڑی جھونپڑی گھومے پھرے ہیں یایہ احساسات محض قدرت کی دین ہیں۔ کتنا دردہے اس انسان کے دل میں ان انسانوں کے لیے جنھیں اونچی سوسائٹی کے لوگ انسان تک ماننے کو تیارنہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان اگرکوئی دعا سچے دل سے مانگے توضرور پوری ہوتی ہے۔ اِس طرح خدانے میری بھی سن لی۔ میں کافی عرصے سے احمد رئیس کو جانتاتھا۔ اُن سے خط وکتابت بھی تھی۔ وہ میرے ہر خط کا پیار بھرا جواب دیتے تھے، مگر بدقسمتی سے مجھے اس فرشتہ صفت انسان سے ملنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا۔

میں ایک کمپیوٹرکمپنی میں مارکٹنگ کاکام کرتا ہوں۔ پچھلے ماہ بنگلور میں ہماری کمپنی کاایک بہت بڑاسیمینار ہواتھا۔ احمدرئیس بھی بنگلور کے رہنے والے ہیں۔ اس لیے اس سیمینارمیں حصّہ لینا میرے لیے خوش قسمتی کی علامت بن گیا تھا۔ کئی گھنٹے کے تھکادینے والے سفرکے بعدمیں بنگلورپہنچ گیا تھا۔ کمپنی کی طرف سے رہنے کا انتظام ایک اعلیٰ ہوٹل میں کیاگیاتھا۔ احمدرئیس کی صدربازار میں کپڑے کی دکان ہے۔ میں نے انھیں اطلاع دینامناسب نہ سمجھاتاکہ وہ کسی تکلّف میں نہ پڑجائیں۔ دودن خوب کاروباری میٹنگیں چلیں۔ بزنس ماسٹروں نے بہت دماغ چاٹا۔ آخری دن کمپنی کی جانب سے ایک رنگا رنگ پروگرام کااہتمام کیاگیاتھا۔

میں موقع ملتے ہی اپنے دوستوں سے نظربچاکراپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر احمد رئیس سے ملاقات کے لیے نکل پڑاکیونکہ اگر انھیں پتہ چل جاتاتووہ مجھے ہرگزجانے نہ دیتے۔ اس طرح میرابنگلور کادورہ ادھورہ رہ جاتا۔ میں نے ٹیکسی کی بجائے رکشہ سے جانے کوزیادہ ترجیح دی۔ یوں بھی اگر آپ کسی انجان شہرکواچھی طرح سے دیکھناچاہتے ہیں تورکشے سے بہترکوئی سواری نہیں۔ اب رکشہ آہستہ آہستہ کبھی مارکیٹ سے توکبھی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے توکبھی بڑی بڑی محل نما عمارتوں کے آگے سے گزرتاہوااپنی منزل کی طرف بڑھ رہاتھا۔ میں بڑے دھیان سے وہاں کی ہرچیزکودیکھ اورپرکھ رہاتھاکہ وہاں کے لوگ کیسے ہیں ؟ان کا لباس ان کے بازار کیسے ہیں ؟ آخرہم شہرکے درمیانی حصّے میں ایک بڑے بازارمیں داخل ہوگئے جس کانام شاید صدربازارتھا۔

مجھے احمدرئیس کی دکان پہچاننے میں زیادہ دقّت پیش نہ آئی۔ میری نظر ایک بڑے شوروم پرپڑی۔ جس پر موٹے موٹے حروف میں احمد کاٹن سینٹر کابورڈلگاتھا۔ میں رکشے والے کو پیسے دے کراس شوروم کی طرف بڑھا اور سوچنے لگا کہ غربت کی نبض کوپہچاننے والا ادیب اتنابڑا بزنس کرتاہے۔ شوروم میں داخل ہوتے ہی کاؤنٹر پراحمدرئیس کوبیٹھے پایا۔ میں نے کئی باران کے فوٹو مختلف رسائل میں دیکھے تھے۔ مگروہ مجھے نہیں پہچانتے تھے۔ اس وقت وہ کسی گاہک سے باتیں کر رہے تھے۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر انہوں نے کہا۔

’’پلیزتشریف رکھیں۔ ‘‘

پھرانہوں نے دکان کاسرسری ساجائزہ لیا۔ شاید وہ کسی لڑکے کوپکارناچاہتے تھے۔ مگر سبھی کوگاہکوں میں گھر ے ہوئے دیکھ کروہ مجھ سے بڑے عاجزانہ اندازمیں بولے۔

’’بس پانچ منٹ ٹھہرئیے۔ ‘‘

دوبارہ وہ پھر اسی آدمی سے باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں سہماسہما سابیٹھارہا۔ کبھی کبھی چورنظروں سے ان کے شوروم کا جائزہ لے لیتا۔ اسی دوران ایک فقیرنے صدالگائی۔

’’بابااندھے فقیرکی مددکر۔ ‘‘

کوئی جواب نہ پاکرفقیرنے ایک بارپھرصدالگائی۔

’’سیٹھ جی……اللہ آپ کوبہت دے گا۔ ‘‘

’’راجو……اَو راجو!‘‘احمدرئیس نے کسی کو پکارا۔

چندلمحوں کے بعد مجھے ایک چھوٹاسا دُبلاپتلالڑکاجومشکل سے سات آٹھ سال کاہوگا آتا ہوا دکھائی دیا۔

’’دھکّا مارکراس خبیث کوآگے کر……سوائے ما نگنے کے ان کو اورکوئی کام نہیں ……… مفت خورے……‘‘

انہوں نے میری طرف دیکھا تومیں موقع پاکر مخاطب ہوا۔

’’جناب……میں پنجاب سے آیا ہوں۔ ‘‘

’’……توآپ مسٹر آصف……اس طرح اچانک ……میاں ٹیلی فون کر دیتے۔ میں خود جناب کو لے کرآتا۔ ’’وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر استقبالیہ اندازمیں میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بولے۔

’’اَوراجو………جاؤ میاں ………کچھ کھانے پینے کو لاؤ۔ ‘‘انہوں نے ایک بارپھراس لڑکے کوآوازدی۔ پھران کے ساتھ کافی دیررسمی سی گفتگو ہوتی رہی۔ اسی بیچ وہ لڑکا چائے لے آیا۔ اس نے میرے آگے ایک پلیٹ جو مختلف قسم کی مٹھائیوں سے سجی ہوئی تھی اور چائے کی پیالی رکھی۔ اچانک تھوڑی سی چائے کاؤنٹرپرگرگئی۔ احمدرئیس اسی بات پرآگ بگولہ ہوگئے۔ انہوں نے کمزوراورکمسن راجوکوایک زوردار تھپّڑ رسیدکردیا۔ راجوسنبھل نہ سکااورمنہ کے بل کرسی پر گرپڑا۔ اس کانچلاہونٹ پھٹ گیا اور وہ لہولہان ہوگیا۔

اب میں کبھی بے بس راجوکی طرف توکبھی اس دردمند، غریبوں کے مسیحا، کمزوروں کے سہارے کو دیکھ رہاتھا۔ جس پراس معصوم اورکمزوربچے کے ہونٹ سے ٹپکتے خون کا کوئی اثرنہ ہوا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔