غزل – دشت فرقت میں تری یاد کی آغوش، غضب!

جاوید جمیل

دشتِ فرقت میں تری یاد کی آغوش، غضب!
لب تھے گویا ترے اور میں ہمہ تن گوش، غضب!

سرسراہٹ تھی محبت کی فقط اور ہم تھے
جس طرف دیکھیے، ماحول تھا خاموش، غضب!

یاد کے ہونٹوں پہ رقصاں تھے سریلے نغمے
جسم بیہوش تھا اور جان تھی مدہوش، غضب!

ایسا لگتا تھا، ہر اک خار ہوا ہے معدوم
ایسا لگتا تھا چمن سارا تھا گل پوش، غضب!

منفرد ذائقه ہر ایک جھلک کا نکلا
میں نے ہر لقمہء دیدار کیا نوش، غضب!

جلوہ افروز ہوا حسن بھری محفل میں
ہوش میں لگتا نہیں تھا کوئی ذی ہوش، غضب!

ہر نظر تیری طرف، تیری نظر میری طرف
سب کو میرے لئے کر ڈالا فراموش، غضب!

جشن_معراج_محبت ہے عظیم آج کی رات
درمیاں جتنے تھے پردے ہوئے روپوش، غضب

کب محبت کے تقاضوں کو فراموش کیا
ہو گیا سارے فرائض سے سبکدوش، غضب

ایسا لگتا تھا، مٹا ڈالے گا مجھ کو جاوید
یادوں کا ایک تلاطم سا تھا پرجوش، غضب!

تبصرے بند ہیں۔