رمضان کے بعد بے قیدی

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ      ترتیب: عبدالعزیز
مجھے بتائیے یہ ماجرا کیا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً 360 گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے۔ اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کاکوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا اور نفسانیت میں کیا کمی آجاتی ہے؟
عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ: سوچئے اور غور کیجئے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نامز روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لئے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جان پر بھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامل ہوتا ہے، لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں۔
یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے، مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور ان صفات کو جس اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں انگلی ڈال کر قے کردے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ رکھنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ رمضان اور ا س کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کر دینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے ہونی چاہئے، جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اسی طرح روزے سے بھی روحانیت طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال، نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔
روزہ، متقی بننے کا ذریعہ: یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا: ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘o یعنی تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے، شاید کہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی پرہیز گار بن جاؤگے۔ اس لئے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے۔ جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا، اسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔ (خطبات، ص:198-196)۔

تبصرے بند ہیں۔