زعفرانی خوف

محمد جمیل اختر جلیلی

’’ش ش شٹرگرایئے شٹرگرایئے‘‘، اس نے ہانپتے ہوئے دکان کے مالک سے کہااوروہیں زمین پرڈھہ گیا، اس کی دگرگوں حالت کودیکھتے ہوئے بناکچھ پوچھے دکان دارنے شٹرکھینچ لیا،باہربھاگتے قدموں اور’’ماروسالے کو‘‘کی آواز سن کروہ اوربھی سہم گیاتھا،دکان دارنے ترحم کی نظرڈالتے ہوئے اس کی طرف پانی کابوتل بڑھایا، ایک ہی سانس میں غٹاغٹ آدھی بوتل حلق سے نیچے انڈیل گیا، اب وہ کچھ پرسکون نظرآرہاتھا۔

            دکان دارایک میٹرک پاس شخص تھا، وہ روزانہ اخبارپڑھتاتھااورہرروز ایک نئے ہجومی قتل کی خبرپڑھ کراس کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں،  اسے اس دن کی یادآجاتی،  جب وہ چھ سال کاتھا، گھرمیں ماں اورایک بڑی اورایک چھوٹی دوبہنوں کے ساتھ رہتاتھا، والدصاحب گاؤں کے ایک زمیندارکی کھیت میں کام کرتے تھے، اور اپنے پریوارکوخوش دیکھنے کے لئے کبھی بھی محنت سے جی نہیں چراتے تھے، روزانہ صبح اپنے کالے رنگ کے گمچھے میں تھوڑاسا ستویا چوڑاباندھ لیاکرتے تھے،  جوان کے دوپہرکے کھانے میں کام آتاتھا، کھیت کی محنت سے جوکچھ ملتا، بیٹی کے بیاہ کے لئے دوچارپیسے اٹھاکررکھ لیاجاتا۔

            بڑی بہن اب بارہ سال کی ہوچکی تھی،گاؤں کی آب وہوانے اس کاجسم بھی بھردیاتھا، وہ بالکل جوان لگتی تھی، کھیتوں میں جاتے ہوئے کبھی کبھارلڑکے چھیڑنے بھی لگے تھے، ایک دن وہ کھیت سے آرہی تھی کہ اس پرزمیندارکے سالے کی نظرپڑگئی، زمیندارکاسالاایک بدفطرت انسان تھا، گاؤں کا ہرباپ اپنی بیٹی کواس کی نظرسے اس طرح چھپاکر رکھنے کی کوشش کرتاتھا، جیسے وہ زیورات رکھتاہے، اس لڑکی کوبدقسمت سمجھاجاتاتھا، جس پراس کی نظرجااٹکتی تھی، اب تک کئی لڑکیاں بدقسمت بن چکی تھیں،  اب بدقسمتی کے کالے ناگ کاسایہ اِس پرپڑچکاتھا۔

            زمیندارکاسالا اپنے گرگوں کی مددسے اس کی تاک میں لگ گیا، تقریباً دوہفتے بعدجب وہ کھیت سے لوٹ رہی تھی، اچانک زمیندارکے سالے نے اس کاراستہ روک لیا، اس نے راستہ کاٹ کرجانے کی کوشش کی توایک گرگا بول اٹھا:

            ’’کہاں جائے گی چھمیا؟ میرے صاحب کوخوش کردواورچلی جاؤ‘‘۔

            دکان دارکی کی بہن اس سچویشن سے گھبراگئی اورپیچھے ہٹنے لگی،  پیچھے ہٹتے ہوئے وہ ایک پتھرسے ٹکرائی اورزمین پرگرگئی؛ لیکن جلدہی سنبھالالیااورپتھرکوہاتھ میں لئے ہوئے اٹھی، جیسے ہی سالے نے قدم بڑھایا، اس نے ہاتھ کاپتھردے مارا، سالابلبلااٹھا، اس کے سرکے اگلے حصہ سے خون بہہ رہاتھا، دکان دارکی بہن اپنی پوری رفتارکے ساتھ بھاگی ؛ لیکن نہ تووہ پٹی اوشاتھی اورناہی کھیت کی پکڈنڈیاں ریس کامیدان، سالے کے گرگروں نے اسے جنگلی کتوں کی طرح گھیرلیا، سالابھی اول فول بکتاوہاں پہنچا، اس بھاگ دوڑکے نتیجہ میں کھیتوں میں کام کرنے والے کچھ مزدوربھی وہاں پہنچے؛ لیکن زمیندارکے سالے کودیکھ کردم سادھ کررہ گئے۔

            دکاندارکی بہن کوسالے کے گرگوں کی بھیڑ نے دبوچ کرمارناشروع کردیا، وہ چلاتی رہی، مددکی دہائی دیتی رہی؛ لیکن کھیت کے مزدورآگے نہیں بڑھے،کھیت سے کام کرکے لوٹتے ہوئے دکاندارکاباپ بھیڑ چیرتے ہوئے آگے بڑھاتواس کاہوش اڑگیا، وہ سالے کے پیروں پرگرکرگڑگڑانے لگا، اپنی ایمانداری اوروفاداری کاواسطہ دینے لگا؛ لیکن ایمانداری اوروفاداری کاواسطہ کچھ کام نہ آیا، سالے نے ایسی کک ماری کہ وہ دورایک پتھر سے جاٹکرایااوراس کے سرسے خون ابلنے لگا، اپنے بہتے خون کی پروانہ کرتے ہوئے مارکھاتے خون کوبچانے کے لئے پھرلپکا؛ لیکن تب تک کافی دیرہوچکی تھی۔

            دکاندار کی آنکھوں سے نمکین پانی کاچشمہ باقاعدہ بہہ رہاتھا، وہ سوچ رہاتھا کہ طاقت کازوراس دن بھی چلاتھا اورآج بھی چل رہاہے، کمزوراس دن بھی دبک گئے تھے اورآج بھی ڈرے سہمے ہیں،  دکاندارکوسوچوں میں گم آنسوبہاتے دیکھ کراس نے ہمت جٹائی اورماجرا پوچھا، اس نے بیتی کہانی شفاف آئینہ کی طرح اس کے گوش گزارکردئے۔

             باہرکی ہنگامہ خیزی دم توڑچکی تھی، شورتھم گیاتھا، دکان دارنے اس کے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی:

            ’’تم کون ہو؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟ اوریہ لوگ تمہارے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘۔

            ’’میں یہاں سے پانچ کلومیٹردور…بستی کارہنے والاہوں،  میرانام …ہے، میں بازارسے آرہاہوں،  دوسال سے پیٹ کاٹ کاٹ کر کچھ پیسے جمع کئے تھے، اس سے ایک گائے خریدی تھی؛ تاکہ اس کادودھ استعمال بھی کروں اوربیچ کرکچھ پیسے بھی کماؤوں ؛ لیکن ابھی آدھاراستہ ہی طے ہواتھاکہ سرپرزعفرانی پگڑی باندھے ہاتھ میں ڈنڈے لئے ہوئے چھ سات لوگوں کواپنی طرف آتے دیکھااوردوسال سے پیٹ کاٹ کرجمع کئے ہوئے پیسوں سے خریدی گائے کی رسی کوچھوڑچھاڑکرسرپٹ بھاگ کھڑاہوا‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔