جو کور چشم کے ہاتھوں میں رہبری ہوگی

نہال جالب

جو کور چشم کے ہاتھوں میں رہبری ہوگی

وہ مصلحت تو نہیں ہوگی، خودکشی ہوگی

وفا کی آس میں ہوں گے گدا گرانِ عشق

زمین اپنے خزانے اگل رہی ہوگی

وہ شہرِ حسن بھی ماتم کدہ بنا ہوگا

ہمارے مرنے کی افواہ جب اڑی ہوگی

تری جبیں کے نشاں سے بھی ہوگی روشن تر

جو میرے ہاتھ کےچھالے کی روشنی ہوگی

مرا دماغ نہیں تیرے حسن کا محتاج

کہ تیری یاد جو آئے تو شاعری ہوگی

یہیں پہ ختم سفر زندگی کا ہونا ہے

مری یہ پہلی محبت ہی آخری ہوگی

امیرِ شہر کی من مانیاں جو بڑھ جائیں

تمام شہر میں اک روز بھُکمری ہوگی

دلوں سے خوف کا جو خاتمہ نہیں ہوگا

گھروں میں زندگی سہمی ہوئی پڑی ہوگی

اب ایسا بھی نھیں "جالب” کہ بھول ہی جائے

کبھی تو وہ مرے بارے میں سوچتی ہوگی

تبصرے بند ہیں۔