زکوٰۃ دیجیے، مگر مستحق کو

ڈاکٹر علیم خان فلکی

رمضان آتے ہی زکٰوۃ کی لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ قربان جایئے اس دین کے کہ زکوٰۃ، صدقات و خیرات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والے غربا ومساکین کی مدد کے لئے ایک ایسا دروازہ کھول دیا کہ انہیں بغیر کسی سرکاری مدد کے بھی زندہ رہنے کا سہارا ہے۔ دشمن یہی سوچتے ہوں گے کہ اگرچہ کہ اس قوم کو ختم کرنے کے لئے بستیاں اور کاروبار جلادیئے جاتے ہیں، ان سے روزگار چھین لئے جاتے ہیں، اس قوم سے زیادہ رشوت لینا ایک پنّیاسمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود یہ قوم زندہ ہے۔ ورنہ کوئی دوسری قوم ہوتی تو دشمنوں کے قدموں میں گِرجاتی۔ علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

 صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

زکٰوۃ بے شک ایک بہت بڑا خدائی منصوبہ ہے جس کے ذریعے اسلام نے غربت و افلاس کے خاتمے کا طریقہ دیا ہے،مگر افسوس اسی بات کا ہے کہ زکٰوۃ دینے والوں کو اس بات کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا ہے کہ ”جس طرح نماز میں کوئی فرض چھوٹ جائے تو نماز کا لوٹانا واجب ہے، اسی طرح اگر زکٰوۃ بھی صحیح مستحق کے ہاتھوں نہ پہنچے تو اس کا دوبارہ دینا واجب ہے“۔ دس بیس ہزار روپئے زکٰوۃ نکالنے والے تو پھر بھی مستحق کو تلاش کرلیتے ہیں لیکن لاکھوں کی زکٰوۃ نکالنے والوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ مستحق کی تحقیق کریں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج زکٰوۃ وصولی کا مافیا جتنی زیادہ زکوۃ وصول کرتا ہے، اصل مستحقین اس سے محروم رہتے ہیں۔ اصل سانحہ یہ بھی ہے کہ ہم یہ باتیں جن اہلِ ثروت حضرات کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں، وہ اردو نہیں جانتے، انگریزی میں پڑھنے کا ان کے پاس وقت نہیں، جمعہ کا خطبہ سنتے نہیں، اور جن لوگوں سے زکٰوۃ کے بارے میں مشورے لیتے ہیں، وہ اتنے ایماندار ہوتے نہیں کہ اصل مستحقین تک اس زکٰوۃ کو پہنچنے دیں، وہ پہلے ہی اپنے مدرسوں یا اداروں کے لئے زکٰوۃ کے ایک بڑے حصے پر ہاتھ مارلیتے ہیں۔ قارئین ہی سے یہ درخواست ہے کہ ان باتوں کو دوسری زبانوں میں ترجمہ کرکے مضمون یا آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں ایسے لوگوں تک پہنچائیں جو امت کے لئے اپنی دولت کی وجہ سے ایک سہارا ہیں۔

            ہر سال زکٰوۃ اگرچہ کہ ہزاروں کروڑکی نکلتی ہے، لیکن تقسیم کس طرح ہوتی ہے یہ ایک سانحہ ہے۔ اگرچہ کہ کئی ایک بیت المال اسی مقصد سے قائم کئے گئے ہیں، لیکن ان کے پاس بھی زکوۃ کی تقسیم کا تصور یہی ہے کہ پریشان حالوں کی وقتی ضرورت پوری کردی جائے۔ کسی کا مہینہ دو مہینہ پیٹ بھردینے سے وہ خودکفیل نہیں ہوجاتا، باقی آٹھ دس مہینے پھر مانگنے پر مجبور رہتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے حضرت عمرؓ کے اِس قول پر غور فرمایئے کہ ”دس آدمی مل کر گیارہویں آدمی کو اس طرح زکوٰۃ دیں کہ وہ اگلے سال خود زکوۃ نکالنے کے قابل ہوجائے“۔ اس میں بین السطور یہ بات کہی گئی ہے کہ لوگوں کے ہاتھ میں کاسہ دینے کے بجائے کوئی ہنر دے دو، تاکہ وہ خود کما کرکھانے والا بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اس زکوٰۃ سے ٹکنیکل انسٹیوٹس، بنک، انشورنس، فیکٹریز، انڈسٹریز اور مختلف چھوٹی بڑی صنعتیں وجود میں آئیں، جہاں لوگ بھیک مانگ کر نہیں بلکہ محنت کرکے ایک مستقل روزگار خودداری کے ساتھ کما سکیں۔ یہ کام نہ مولوی کرسکتے ہیں، نہ سماجی جہدکار اور نہ لیڈر۔ سانحہ یہ ہے کہ یہی لوگ ایسے پروجیکٹ لے کر اٹھتے تو ہیں لیکن اپنا اور اپنے قریبی لوگوں کاہی فائدہ پہنچا کر دو چار سال میں سارا سرمایہ ہڑپ کرجاتے ہیں۔ اس لئے قوم  زکٰوۃ کے کسی اجتماعی نظم پر بھروسہ نہیں کرتی۔ زکوٰۃ کو ایک بڑے پیمانے پر وصول کرکے فیکٹری یا انڈسٹریز یا انسٹیٹوٹ قائم کرنے کا کام خود امیر لوگ ہی Experties  کو ملازم رکھ کر، کرسکتے ہیں، یہ کام حیدرآباد میں غیاث الدین بابو خان نے اور یوپی میں ڈاکٹر محمود صاحب نے بخوبی کیا ہے لیکن دونوں حضرات نے یہ کارنامے تعلیمی میدان میں انجام دیئے ہیں۔ قوم میں ایسے کئی قابل لوگ اور بھی ہیں جو دوسرے میدانوں میں بھی زکٰوۃ کو استعمال کرکے قوم کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

آج بالاجی اور سائی باباجیسی کئی مندروں کے دان سے جو دواخانے کھولے گئے ہیں، ان میں مفت علاج کی سہولتیں دستیاب ہیں، فائدہ  اٹھانے والوں میں بے شمار برقعے اور داڑھیاں والے بھی نظرآتے ہیں۔ اسی طرح غیروں نے دان کے پیسے سے کئی کالج اور ٹکنیکل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کئے ہیں، جن سے فائدہ اٹھانے والوں میں ہر مذہب کے نوجوان ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری قوم کے پاس زکوٰۃ کا پیسہ صرف انہی لوگوں کو دینے کا تصوّر ہے جو اپنے باپ دادا کے زمانے سے مانگتے چلے آرہے ہیں۔ گویا زکٰوۃ وصولی ایک موروثی پیشہ ہے۔ کبھی جن عورتوں کی نانی یا دادی زکٰوۃ وصول کرتی تھیں پھر ان کے بعد ان کی ماں آنے لگی اور اب بیٹیاں آتی ہیں، رمضان سے پہلے ہی آکر سلام کرکے جاتی ہیں۔ دینے والے بھی پہلے سے ہر سال مانگنے والوں کی فہرست بنالیتے ہیں، اور مروّت میں دیئے چلے جاتے ہیں۔ زکٰوۃ کی رقم کا سب سے بدترین استعمال اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ ہے ”غریب لڑکیوں کی شادیاں“۔ شرعی طور پر شادی کے لئے مرد کی مدد کرنا تو جائز ہے لیکن لڑکی والوں کو جہیز اور کھانوں کا انتظام کرنے کے لئے دینا قطعی جائز نہیں۔ کیونکہ خود جہیز اور کھانا لڑکی پر نہیں لڑکوں پر واجب ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ مِڈل کلاس کے لوگ اتنی پرتکلّف شادیاں نہیں کرتے جتنی یہ زکٰوۃ لینے والا طبقہ کرتا ہے۔ پورا پیسہ جہیز یا پھر کھانوں میں اڑاتا ہے جیسے منگنی کا کھانا، شادی کے دن کا کھانا، مانجے، سانچق اور جمعگیوں اور مبارکہ کا کھانا۔ ایک وقت کا کھانا جو اگلے دن فلش ہوجاتا ہے، اس پیسے کا اگر صحیح استعمال ہو تو لڑکا اور لڑکی کاروبار کرکے یا کوئی پالیسی خرید کر کم از کم اپنے ہونے والے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں۔ ان غریب لڑکیوں کی شادیوں پر زکٰوۃ دینے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی خادماوں کی بیٹیوں، نواسیوں یا پوتیوں کی شادیوں کے لئے خوب زکٰوۃ دیتے  ہیں، تاکہ ایک طرف خادمہ کہیں نوکری چھوڑ کر نہ جائے دوسری طرف زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے۔ یہ چالبازی ہے۔

            مدرسوں پر جو زکوۃ کے مال کو لٹایا جارہا ہے، اس کے سخت احتساب کی ضرورت ہے۔ ہم ایسے مدرسوں سے واقف ہیں جن کے نام کروڑہا روپئے کی اوقافی جائیدادیں ہیں، آمدنی بھی خوب ہے۔ لیکن مولوی صاحبان جن کے شاگردانِ رشید اور معتقدین سعودی، کویت، دوبئی اور امریکہ وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ان سے جاکر خوب زکٰوۃ وصول کرتے ہیں، اور پچاس تا ساٹھ فیصد کفاف کی رقم جس کو آپ کمیشن کہہ سکتے ہیں، حاصل کرکے اپنے بنک بیلنس بڑھاتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے بھی مدرسوں سے ہم واقف ہیں جو زکٰوۃ کے حقیقی مستحق ہیں۔ جہاں نومسلم خاندانوں کی تعلیمِ دین اور رہائش کا انتظام ہے، ایسے ایسے دور دراز کے علاقوں میں دین سکھارہے ہیں جہاں دور دور تک کوئی تعلیم یافتہ مسلمان نہیں ملتا۔ اگر ان مسلمانوں کو دینی تعلیم نہ ملے تو چند سالوں میں کہیں کوئی کلمہ پڑھنے والا مسلمان بھی نہیں ملے گا، لیکن ان مدرسوں کے ذمہ داروں کی شہروں تک پہنچ نہیں ہے۔

زکٰوۃ کے سب سے پہلے مستحق قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ زکٰوۃ کی تقسیم شریعت کے حکم کے مطابق نہیں بلکہ مروّت، نیک نامی اور شہرت کی خاطر زکٰوۃ دی جاتی ہے۔ بالخصوص جماعتوں اور مختلف اداروں یا تنظیموں کے ذمہ دار حضرات زکٰوۃ کی بڑی رقمیں دینے والوں کو اپنے جلسوں میں صدارت یا مہمانانِ خصوصی کی نشستیں دے کر ایک طرح سے اڈوانس میں  ان سے زکوٰۃ کا کمٹمنٹ لے لیتے ہیں۔ کئی رشتہ دار جو مستحق تو ہوتے ہیں لیکن ان کی خودداری انہیں آکر مانگنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ نظر انداز ہوجاتے ہیں، اور دوسرے لوگ آکر، البم اور اخباری تراشے دکھا کر، دینے والوں کی خوب تعریفیں کرکے ساری زکٰوۃ وصول کرلیتے ہیں۔ ورنہ دیکھا جائے تو خود آپ کے خاندان میں کئی یتیم اور بیوائیں ہیں، طلبا و طالبات ہیں جن کو فیس، ٹرانسپورٹیشن اور کتابوں یا ٹیوشن کی ضرورت ہے، کئی بیمار ہیں، کئی بوڑھے اور ضعیف ہیں جن کی اولاد ہوتے ہوئےزکٰوۃ کے سب سے پہلے مستحق قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ زکٰوۃ کی تقسیم شریعت کے حکم کے مطابق نہیں بلکہ مروّت، نیک نامی اور شہرت کی خاطر زکٰوۃ دی جاتی ہے۔ بالخصوص جماعتوں اور مختلف اداروں یا تنظیموں کے ذمہ دار حضرات زکٰوۃ کی بڑی رقمیں دینے والوں کو اپنے جلسوں میں صدارت یا مہمانانِ خصوصی کی نشستیں دے کر ایک طرح سے اڈوانس میں  ان سے زکوٰۃ کا کمٹمنٹ لے لیتے ہیں۔ کئی رشتہ دار جو مستحق تو ہوتے ہیں لیکن ان کی خودداری انہیں آکر مانگنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ نظر انداز ہوجاتے ہیں، اور دوسرے لوگ آکر، البم اور اخباری تراشے دکھا کر، دینے والوں کی خوب تعریفیں کرکے ساری زکٰوۃ وصول کرلیتے ہیں۔ ورنہ دیکھا جائے تو خود آپ کے خاندان میں کئی یتیم اور بیوائیں ہیں، طلبا و طالبات ہیں جن کو فیس، ٹرانسپورٹیشن اور کتابوں یا ٹیوشن کی ضرورت ہے، کئی بیمار ہیں، کئی بوڑھے اور ضعیف ہیں جن کی اولاد ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان تک پہنچ کر ان کے گھر ڈھونڈھ کر پہنچانا فرض ہے۔ ان لوگوں کے لئے  صرف زکٰوۃ کی ڈھائی فیصد رقم سے ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی اپنے مال سے نکالنا اہم ہے۔ حضرت عمرؓ ہی کا فرمان ہے کہ ڈھائی فیصد تو منافق نکالا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو ایک اسلامی ریاست میں رہنے اور وہاں کی سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ نمازوں اور زکوٰۃ کا ثبوت دینا ہوتا تھا۔ مومن کے لئے ڈھائی فیصد کی کوئی قید نہیں، اس کا سارا مال اللہ کا دیا ہوا ہے، اگر وہ حساب رکھ کر خرچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اسے حساب رکھ کر ہی دے گا۔ اللہ کی راہ میں بے حساب دینے والے کو اللہ تعالیٰ بھی اپنے خزانے سے بے حساب ہی دیتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ زکوۃ  کے مانگنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ سب کے حصہ میں دو چار ہزار روپئے ہی آتے ہیں۔ اس طرح ہر مانگنے والا ساری عمر زکٰوۃ مانگنے پر مجبور رہتا ہے۔ کسی طالب علم کو اگر بائیک دلادیں، کسی کو بڑے کالج میں داخلہ دلادیں، یا کسی بیمار کے آپریشن کے لئے تین چار لاکھ روپئے یکمشت ادا کردیں تو یہ بھی زکٰوۃ کا ایک بہترین مصرف ہے کہ آپ کسی کو اس کے پاؤں پر کھڑا سکتے ہیں، اور فائدہ اٹھانے والا بھی ایک دن زکٰوۃ دینے کے قابل ہوسکتا ہے۔

ہماری NRIs سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ اپنی زکٰوۃ  ادا کرنے کی ذمہ داری پوری کریں۔ عام طور پر یہ لوگ رقم اپنے گھر یا سسرال بھیج دیتے ہیں۔ وہاں سے جو تقسیم ہوتی ہے وہ مستحقین میں کم اور مصلحتوں میں زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ یہ NRIs مدرسوں، جماعتوں یا اداروں کے لوگ جو عامل بن کر آتے ہیں، جلسے یا میتنگس کرکے خوب انفاق و خیرات پر تقریریں کرتے ہیں، اپنے کارناموں کو خوب لفّاظی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، ان کے حوالے کرڈالتے ہیں۔ ان وصول کرنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو نہ حساب پیش کرتے ہیں اور نہ کبھی آڈِیٹ کرواتے ہیں۔ اور اگر دینے والے کبھی جاکر ان کی دی ہوئی رقم کا حساب چیک کریں تو انہیں خود اندازہ ہوجائیگا کہ وصول کرنے والوں کا وصول کرتے وقت جس زہدوتقویٰ کا اظہار تھا، خرچ کے معاملے میں وہ زہدوتقویٰ دور دور تک نہیں پایا جاتا۔

اِس وقت قوم کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ فاشسٹوں سے ہے۔ آج جن حالات کا ہمیں سامنا ہے، یہ پہلے کبھی نہیں تھے۔ اورقریب مستقبل میں یہ حالات اور بھی خطرناک صورت اختیار کرجائیں گے جب قانون میں آپ کو جو حیثیت آج حاصل ہے وہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ کی تہذیب، زبان، تاریخ، مذہب سب کچھ بہت تیزی سے ختم کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو یہ خبر ہی نہیں کہ جس تیزی سے انجذاب یعنی Assimilation کا کام ہورہا ہے، بہت جلد وہ دور آنے والے ہے کہ گاؤں کے گاؤں مذہب تو شائد تبدیل نہ کریں، لیکن مسلمانوں کی حالت شودروں کی طرح ہوجائیگی۔ حالات تو یہ بتارہے ہیں کہ اب آئندہ  وزیرِاعظم وہی ہوں گے جو مسلم دشمنی میں سب سے آگے ہوں گے۔ مسلمانوں کو پولیس، فوج، عدلیہ، بڑے سرکاری عہدوں اور تجارت، صنعت و حرفت وغیرہ میں کہیں داخل ہونے نہیں دیا جائیگا۔بدقسمتی سے  اتنے بدترین حالات کا مقابلہ ہم مدرسوں کی تعمیر، غریب بچیوں کی شادیوں،افطار راشن کِٹس کی تقسیم، آئی کیمپ، بلڈ ڈونیشن کیمپ، جلسوں اور مسلکوں کے فروغ کے ذریعے کررہے ہیں، گویا دشمن کلاشنکوف سے حملے کررہا ہے اور ہم اس کا مقابلہ غلیل یا صرف اور صرف دعاؤں اور عبادتوں سے کررہے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے صحابہ ؓکو  پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک کو برداشت کرکے اسلام کو قائم کرنے کی مثال قائم کی، لیکن ہمارے نزدیک پہلے لوگوں کا پیٹ بھرنا زیادہ اہم ہے۔ گویا جو شعور ہمیں حاصل ہے، وہ نبی ﷺ کو حاصل نہیں تھا، نعوذباللہ۔ آج خدمت خلق پر بے شمار تنظیمیں لگی ہوئی ہیں، جن کا محبوب مشغلہ یہ ہے کہ امیروں سے پیسہ وصول کریں اور غریبوں پر خرچ کریں۔ نہ کبھی غریب ختم ہوں گے اور نہ یہ دھندہ۔ رفتہ رفتہ پوری قوم جس تیزی سے اس ملک میں دوسرے اور تیسرے درجے کی شہری بن جائیگی، اِ س کا احساس دور دور تک نہیں۔ یوں تو ہم بے شمار محاذوں پر کام کررہے ہیں لیکن فاشسٹوں سے مقابلہ کرنے کوئی تیار نہیں۔ذہنوں پر خوف اتنا زیادہ طاری کردیا گیا ہے کہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بڑے بڑے لوگ گھبرانے لگتے ہیں۔ حکمت اور مصلحت کے نام پر بزدلانہ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اگر پڑوس میں کسی کو گرفتار کرلیا جائے، یا گولی ماردی جائے تو باہر نکل کر خیریت پوچھنے کے بجائے اپنے گھر کے دروازے بند کرلیتے ہیں۔ایک کے بعد ایک مسجدیں گرائی جائیں گی، ایک کے بعد ایک گجرات ہوتے جائیں گے، ایک کے بعد ایک نوجوان گرفتار ہوتے جائیں گے لیکن ہم صرف واٹس اپ فارورڈ کرنے کے کچھ اور نہیں کرسکیں گے۔ ان حالات میں بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر قوم کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنا بڑا کام جو تمام خدمت خلق کے دوسرے کاموں سے بہت بڑا کام ہے، کیا یہ بغیر مالی مدد کے ہوسکے گا؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اگلی نسلیں سر اٹھاکر اس ملک میں باعزت، باوقار اور خوشحال شہری بن کر چلیں تو آپ کو جتنا مال اپنے گھر کی تعمیر، شادیوں اور دوسری کئی خرافات پر خرچ کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اپنی نسلوں کے مستقبل کی تعمیر پر خرچ کرنا ہوگا۔ کیا ایسے کاموں کے لئے زکوٰۃ بھی نہیں دی جاسکتی؟ یہ تو علما اور مفتیانِ کرام، تعلیم یافتہ حضرات اور دانشور حضرات سوچیں، ہم نے تو بات رکھ دی۔

تبصرے بند ہیں۔