سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
رشید انصاری
مودی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی نہ صرف مسلمانوں کے تئیں بلکہ اپنے پسندیدہ وزرائے اعلیٰ کو بچانے کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانے کی پالیسی اختیار کرکے عوام پر واضح کردیا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ ملک کی بدقسمتی تو یہ تھی دورِ اول میں اپنی نااہلی اور عوام سے عدم دلچسپی کی پالیسی پر عمل کرنے والی مودی حکومت دوبارہ برسراقتدار آگئی۔ اس موقع پر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مودی کے دوبارہ برسراقتدار آنے میں سب سے بڑا عنصر ہندو عوام خاص طور پر نوجوانوں میں مودی کا یہ پروپیگنڈہ کے ملک کو کسی سے بھی اور خاص طور پر مسلمانوں اور پاکستان سے مودی ہی بچاسکتے ہیں۔ مودی کے بڑا کام آیا۔ اس طرح ملک کے ماحول کو فرقہ پرستی سے مسموم کرنے والے اصحاب مسند اقتدار پر براجمان ہوگئے جس طرح اپنے پہلے دور میں مودی نے اپنے پہلے دور میں اصولوں سے عاری سیاست کی تھی وہ اپنے دورِ دوم میں بھی اسی پر عمل کرنے کا عندیہ دے چکے ورنہ پٹنہ میں سینکڑوں معصوم بچوں کی اموات، جس کی بڑی وجہ بہار میں نہ صرف ہسپتالوں کی کمی بلکہ ہر قسم کی طبی سہولیات سے محروم ہسپتال مرنے والے بچوں کو موت کے منہ سے بچانے سے قاصر رہے اور بہار میں نتیش کمار کے 15 سالہ دور سے یہی بے انتظامی اور لاپرواہی چلی آرہی ہے۔ واضح ہو نتیش کمار انتظامیہ کی ملک میں بڑی شہرت ہے اور آر ایس ایس کا غلام میڈیا اس کے مقابلہ میں لالو پرساد یادو کے دور کو جنگل راج یا سیاہ دور کہتا رہا ہے جبکہ بہار میں مرنے والے بچوں کی اموات سے ہی نتیش کمار کی انتظامیہ کی خوبی کا پول کھل گیا ہے۔ بے شمار لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ ہسپتالوں میں ایک پلنگ پر تین تین بچے لٹائے گئے ہیں اور ہسپتال کا وارڈ کسی ریلوے اسٹیشن کے پرہجوم ویٹنگ روم کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک و قابل مذمت بات تو یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم مودی نے عرصہ تک اس سلسلہ میں زبان تک نہیں کھولی۔ قبل ازیں گورکھپور میں کسی قسم کے وبائی مرض میں گرفتارسینکڑوں بچوں کی ہلاکت پر یوپی کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ سے مودی حکومت یا آر ایس ایس میں کوئی سوال تک نہیں کیا اور جب ادتیہ ناتھ کی حکومت کی انتظامیہ کی نااہلی کھل کر سامنے آئی تو آدتیہ ناتھ نے اس بات کو اولین ترجیح دی کہ اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرکے مریض بچوں کو آکسیجن فراہم کروانے والے ڈاکٹر کفیل احمد کو سب سے پہلے برطرف کردیا گیا۔ شائد یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ یوگی حکومت نے کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں کی اور یہ ناقدری اس صورت میں شدید اور ظالمانہ ہوسکتی ہے جب حکومت کا کوئی کارکن مسلمان ہو (خواہ وہ خطاکارہو نہ ہو) اور اب بہار کے بارے میں ایک انسانی مسئلہ (یعنی بچوں کی اموات )سے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ لگانے والی مودی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مسلمانوں کے طئے مودی حکومت کی کیا پالیسی ہوسکتی ہے اس کا اندازہ اس کے دو حالیہ انتظامات سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو وہ جس کے ذریعہ پارلیمان کے پہلے اجلاس میں ہی پہلی کارروائی کے طور پر طلاق ثلاثہ کے بارے میں بل پیش کیا جانا ہے اور دوسر ا اقدام مسلمان طالب علموں کی مدد اور دینی مدارس کی انتظامیہ کو بہتر بنانے اور مدارس میں نصاب کی تبدیلی وغیرہ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کا موڑ کیا ہوسکتا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے بارے میں نہ صرف ماضی میں بلکہ حال ہی میں کافی بحث ہوچکی ہے لیکن مدارس کے بارے میں مودی حکومت کے اقدامات پر مسلمان قائدین اور علماء کو خاص نظر رکھنی ہوگی۔ ویسے ہر سال ایک کروڑ روپے کے وظائف مسلمان طالب علموں کو دینے کا اعلان بڑا دل خوش کن ہے لیکن بات تو جب ہوگی کہ اس پر واقعی پوری طرح عمل کیا جائے اور جن طالب علموں کو وظیفہ دیا جارہا ہو ان طالب علموں اور ان کی درسگاہوں پر کوئی شرائط عائد نہ کی جائیں اور تعلیمی وظیفہ طالب علموں کی مالی مدد کی غرض سے دیا جائے نہ کے اس کے پیچھے سیاسی عوامل بھی ہوں اس طرح دینی مدارس اور تعلیم کے بارے میں آر ایس ایس کے مخالف مسلم ایجنڈہ پر عمل درآمد کیا جائے۔ ایک طرف پانچ کروڑ روپے کے پانچ سال میں تعلیمی وظائف کی کشش ہے تو اس کے پیچھے پتہ نہیں کونسے خطرناک عوامل پوشیدہ ہیں۔ مسلمانوں کو اس سلسلہ میں بڑی بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا۔
ہم مسلمانوں کا ایک حزنیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ہمارا مخالف ہماری طرف زرا سی بھی توجہ کرے تو ہم بغیر سونچے سمجھے خوش ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں مسلمانوں کے تعلق سے وزیر اعظم مودی کے جو بیانات اور تعلیمی وظائف کے بارے میں اعلانات سے مسلمانوں کا خوشامد پسند اور دانشمندی اور مصلحت پسندی سے عاری طبقہ بڑا خوش نظر آتا ہے۔ اس سے قبل اپنے پہلے دور میں جب مودی نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا تھا تب بھی مسلمانوں کا ایک مختصر ٹولہ اپنے کو مذہبی شخصیت ظاہر کرکے مسلمانوں کو بدنام کرچکا ہے گوکہ اس خوشامد پسند اور مصنوعی مولویوں کی مٹھی بھر تعداد نے خوب مزے کئے اور ثابت کیا کہ انگریزوں کا دور ہو یا جمہوری حکومت ہو میرجعفر اور میر صادق ہر دور میں ضرور پائے جاتے ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر میر جعفر اور میر صادق قسم کے لوگ امت مسلمہ کے مفادات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ نہ صرف عوام بلکہ مسلمان دانشوروں، قائدین اور علماء کا فرض ہے کہ وہ حکومت کے اعلانات کے پس منظر میں چھپے ہوئے خطرناک عزائم کو محسوس کریں اور مناسب انداز میں مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ حکومت کی مخالفت برائے مخالفت مسلمانوں پر فرض ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت کہ ہر اقدام پر ہم بغلیں بجانے لگیں اور سہولتوں کے نام پر ملنے والی اذیتوں کو فراموش کردیں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔