سمندر کو ابالا جا رہا ہے 

عمران فاروقی

 سمندر کو ابالا جا رہا ہے

زمیں کا دم نکالا جا رہا ہے

ترے ٹوٹے ہوے خوابوں کا ملبہ

میرے بستر پہ ڈالا جا رہا ہے

اندھیرا کر رہا ہے رہبری اور

تعاقب میں اجالا جا رہا ہے

کمی تو ہے نیولوں کی جہاں میں

مگر سانپوں کو پالا جا رہا ہے

فرشتے چھوڑنے آےُ ہیں بس تک

کوئی اللہ والا جا رہا ہے

خردمندوں کو دینے دعوت کیف

صراحی اور پیالہ جا رہا ہے

بدن کو دھوپ کے پگھلا کے عمرانؔ

میرے سائے میں ڈھالا جا رہا ہے

تبصرے بند ہیں۔