سمندر کو ابالا جا رہا ہے
عمران فاروقی
سمندر کو ابالا جا رہا ہے
زمیں کا دم نکالا جا رہا ہے
…
ترے ٹوٹے ہوے خوابوں کا ملبہ
میرے بستر پہ ڈالا جا رہا ہے
…
اندھیرا کر رہا ہے رہبری اور
تعاقب میں اجالا جا رہا ہے
…
کمی تو ہے نیولوں کی جہاں میں
مگر سانپوں کو پالا جا رہا ہے
…
فرشتے چھوڑنے آےُ ہیں بس تک
کوئی اللہ والا جا رہا ہے
…
خردمندوں کو دینے دعوت کیف
صراحی اور پیالہ جا رہا ہے
…
بدن کو دھوپ کے پگھلا کے عمرانؔ
میرے سائے میں ڈھالا جا رہا ہے
تبصرے بند ہیں۔