سوشل میڈیا

نادیہ عنبر لودھی

زمانے نے بہت ترقی کی حالات کروٹیں بدلتے بدلتے اس موڑ پہ آپہنچے جہاں آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ریڈیو کی ایجاد نے دنیا کو ور طٰہ حیرت میں ڈالا۔ ریڈیو پہ پروگرام سننا ایک سنسنی خیز تجربہ بن گیا۔ اس کے بعد ٹیلی ویژن میدان میں آیا اور چھا گیا اب ٹیلی ویژ ن کے سامنے لوگ برا جمان ہو تے اور اظہار حیرت کرتے۔ بزرگ عینک ناک پہ ٹکاتے اور پوچھتے موا یہ آدمی اس کے اندر کیسے گیا ؟پھر رنگین ٹیلی ویژن آگئے بمعہ ریموٹ۔ لیجئے دیکھنے والوں کے تو مزے ہو گۓ رنگ بر نگے کپڑے خوب صورت چہرے مزید خوش نما لگنے لگے۔ اب آواز بیٹھے بیٹھے تبدیل ہو نے لگی ریموٹ کی بدولت۔ پی۔ ٹی۔ وی کا ڈرامہ عیاشی سمجھا جاتا تھا اسُ دور میں۔ انتہائی خاموشی اختیار کی جاتی کہ کہیں کوئی ڈائیلاگ رہ نہ جاۓ۔ ریپیٹ ٹیلی کاسٹ کی سہولت نہیں تھی اس لئیے وقت کا خاص خیال رکھا جاتا۔

مزید وقت گزرا پاکستان میں پرائیویٹ پروڈکشن شروع ہو گئی۔ بیسیوں چینل کھل گئے اب نہ وہ معیار رہا نہ اقدار۔ ریٹنگ کے چکر میں چھچوراپن عام ہو گیا۔ ادبی محافل قصہ پارینہ ہوئی۔ چینلز کے بعد زمانہ نے مزید کروٹ لی۔ نیٹ کا دور آگیا۔ جس کو فروغ موبائل فونز نے پہنچایا ہر نئی ایجاد کی طرح حیرانگی کا اظہار ہوا۔نیٹ کا جو شکار ہوۓ وہ اس میں مگن ہو گئے۔ جو محروم رہ گئے وہ نالاں۔ بزرگ حضرات کو تو اس سوچ نے لے لیا کہ موے فون میں سارا دن نوجوان نسل کرتی کیا ہے ؟ سواۓ آنکھیں پھوڑنے کے۔ فیس بک کا استعمال بڑھ گیا ہر انسان کی دسترس میں ہوئی اب وہ طا لب علم جو دین کے تھے نہ دنیا کے وہ تو کام سے لگ گئے۔ چیٹنگ،  پوسٹنگ،  ہیکنگ۔

وہ لوگ جو علم سے بے بہرہ تھے فلاسفربن گئے۔ لکھاری جو علم عروض سے لاعلم تھے شاعر بن گئے۔ جنکی املا بھی درست نہ تھی افسانہ نگار بن گئے۔

اردو کوتڑوڑ مروڑ کر صوتی غلطیوں سے بھری ایک گلابی اردو وجود میں آگئی۔ دوسری طرف ہر انسان کی دسترس نے فائدے بھی دیے اور نقصان بھی۔ کتاب پڑھنے کا رجحان کم ہو نے لگا۔ کہیں وقت کی کمی آڑے آئی تو کہیں سوچ ہی بدل گئی۔ ہر نئی ترقی لوگوں میں شعور پیدا کرے۔ ہماری اقدار کو بہتر کرے۔ اس کے لئیے صاحب علم لو گوں سے التجا ہے کہ بر ملا اصلاح کیجئے۔ ادب کا فروغ فیس بک پیجز بنانے یا گروپ تشکیل دینے سے نہیں آۓ گا۔ اس کے لئیے تنقید کی روش اپنانا ہو گی۔ ہماری آنے والی نسل تک ہم نے صحیح علم پہنچا نا ہے۔ اس کے لیے مجھے آپ کو ہم سب کو کوشش کر نی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔