شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی سمینار اختتام پذیر
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں آئے دن جس طرح کی ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں، یادگاری خطبات، توسیعی خطبات، سمینار اور مختلف ادبی و ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کے علاوہ یہاں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کی جیسی عمدہ کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں اور یہاں کے اساتذہ میں بہت ہی اچھے ادیب و شعرا اور نقاد و فکشن نگارموجود ہیں اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابھی پورے ہندوستان میں یہ شعبہ اردو زبان و ادب کے فروغ و اشاعت میں سب سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار ممتازنقاد، فکشن نگار اور شاعر پروفیسر انیس اشفاق نے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اردو اکادمی دہلی کے مالی تعاون سے منعقد سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کے اختتامی جلسے میں کیا۔
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ غیر افسانوی ادب کے حوالے سے یہ سہ روزہ سمینار بہت بامعنی ثابت ہوا اور ان مقالات کو کتابی صورت میں شائع کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ اردو دنیا ان سے مستفید ہوسکے۔صدارتی خطبے میں پروفیسر وہاج الدین علوی (ڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز) نے کہا کہ صحیح معنوں میں یہ ایک تاریخی سمینار تھا جس میں ملک کے گوشے گوشے سے ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کے ماہرین اور دانشوروں نے پر مغز مقالے پیش کیے۔پروفیسر خالد محمود نے تاثراتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو کی سرگرمیوں کی مثالیں اب ہندوستان کے دیگر بڑے اداروں میں بھی دی جانے لگی ہیں اور اردو دنیا میں یہ ایک مثالی ادارہ بن کر ابھرا ہے، جہاں نہ صرف اساتذہ لائق ہیں بلکہ طلبا بھی قابل فخر ہیں۔ پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خوبی یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کے مابین نظریاتی اختلافات کے باوجود کسی قسم کی پست سیاست نہیں ہوتی۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی (صدر شعبۂ اردو، بنار س ہندو یونیورسٹی) نے شعبۂ اردو کے اساتذہ کی باہمی محبت و اتحاد اور باہمی ربط و ضبط کے ساتھ طلبا کی ڈسپلین اور جذبۂ مہمان نوازی کی دل کھول کر پذیرائی کی۔ڈاکٹر سرور ساجد (علی گڑھ ) نے کہا کہ غیر افسانوی ادب کی تاریخ میں اس سمینار کو فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے ملک و بیرون ملک سے شریک تمام مندوبین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کا غیر معمولی تعاون ہمیں ہمیشہ حاصل رہا ہے اور یہ ان کے اردو سے والہانہ عشق کا ثبوت ہے۔اختتامی اجلاس میں سمینار کے کنوینر ڈاکٹر ندیم احمد نے سمینار کی روداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سمینار میں افتتاحی اور اختتامی اجلاس کے علاوہ چھ تکنیکی اجلاس منعقد کیے گئے جس میں کل چونتیس مقالے پیش کیے گئے۔ اس سمینار میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ غیر افسانوی ادب کی تمام اصناف سوانح، خودنوشت، سفرنامہ، خاکہ، انشائیہ، مکتوب، طنز و مزاح، روزنامچہ اور رپورتاژ وغیرہ پر مقالے پیش کیے جائیں اور اس میں بیرونی ممالک جاپان، ایران، مصر، یو۔ ایس، ازبکستان کے علاوہ ہندوستان بھر سے اپنے موضوع کے ماہرین نے شرکت کی۔
سمینار کے آخری دن تین اجلاس منعقد کیے گئے۔ چوتھے اجلاس کے صدارتی کلمات میں پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ ادب حقیقت کا ترجمان نہیں ہوتا بلکہ نئی حقیقت کو جنم دیتا ہے۔ اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر کوثر مظہری نے شکلووسکی کے حوالے سے کہا کہ اعلیٰ ادب جانی پہچانی چیزوں کو اجنبی بنا کر پیش کرتا ہے۔اس اجلاس میں ڈاکٹر سید تنویر حسین نے ’’اردو میں دوسری زبانوں سے مترجمہ سفر ناموں کا جائزہ‘‘، ڈاکٹر نوشاد عالم نے ’’اردو میں مکتوب نگاری کا فن اور آغاز و ارتقا‘‘، مصطفی علاء الدین محمد علی(مصر) نے ’’محمود درویش اور غالب کی خطوط نگاری‘‘، منیرہ نژاد شیخ (ایران) نے ’’خواجہ حسن نظامی کی انشائیہ نگاری‘‘، مہدیہ نژاد شیخ (ایران) نے ’’احتشام حسین کی مضمون نگاری‘‘، ڈاکٹر سلطانہ واحدی نے ’’صالحہ عابد حسین کا سفر نامہ: سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔
پانچویں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہا کہ سوانح، خودنوشت اور خاکہ بنیادی طور پر اخلاقی اور اصلاحی اصناف ہیں اور ان اصناف کا مطالعہ اسی تناظر میں ہونا چاہیے۔ اس اجلاس میں پروفیسر محمد علی جوہر نے ’’معاصر اردو خودنوشت ایک جائزہ‘‘، ڈاکٹر ریاض احمد نے ’’انشائیہ نگاری اور سجاد انصاری‘‘، ڈاکٹر احمد امتیاز نے’’بیسویں صدی میں اردو انشائیہ ایک جائزہ‘‘، ڈاکٹر ارشاد نیازی نے ’’بیسویں صدی کے نصف اول میں خود نوشت سوانح نگاری‘‘، ڈاکٹر جاوید حسن نے ’’غالب کی تین سوانح عمریاں تعارف اور تجزیہ‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ جب کہ چھٹے اجلاس میں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے ’’بیسویں صدی کے سفرناموں کی زبان اور اسلوب‘‘، ڈاکٹر مظہر احمد نے ’’انشائیہ کی زبان و اسالیب‘‘ اور ڈاکٹر محمد کاظم نے ’’بیسویں صدی کے نصف آخر میں سفر نامہ نگاری‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ تمام اجلاس میں شرکا نے مختلف مقالات پر بھرپور سوالات قائم کیے اور نئے مسائل و مباحث اٹھائے۔ مختلف اجلاس کی نظامت کے فرائض بالترتیب ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر عال حیات، ڈاکٹر محمد مقیم اور ڈاکٹر عمران احمد عندلیب نے انجام دیے۔
اس موقع پر پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، محمد خلیل سائنس داں، ڈاکٹر احمد کفیل، خان احمد فاروق، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر حنا آفرین اور ڈاکٹر نوشین حسن کے علاوہ شعبے کے اساتذہ پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر ثاقب عمران، شاداب تبسم، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر محضر رضا، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر واثق الخیر، سلمان عبدالصمد، حفیظ الرحمن، امیر حمزہ اور عبدالباری صدیقی کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور طلبا و طالبات موجود تھے۔
تبصرے بند ہیں۔