شوق کے بخت میں ثبات کہاں

افتخار راغبؔ

شوق کے بخت میں ثبات کہاں

لے چلی گردشِ حیات کہاں

خشک سالی کہاں محبت کی

آپ کا سیلِ التفات کہاں

کتنی میٹھی زبان ہے تیری

غیر کے منھ میں ایسی بات کہاں

دل پہ قابو کا خواب رہنے دو

دسترس میں یہ کائنات کہاں

تیری خوش بو نے باندھ رکھّا ہے

اب مجھے خواہشِ نجات کہاں

جنگ جاری ہے مستقل مجھ میں

عقل سنتی ہے دل کی بات کہاں

نفسانفسی کی بھیڑ میں راغبؔ

کھو گئے سب تعلّقات کہاں

تبصرے بند ہیں۔