میانمار(برما)حکومت کی ہٹ دھرمی!

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 کیااقوام متحدہ کی بقاکاجواز باقی ہے؟؟؟اقوام متحدہ کاادارہ برائے انسانی حقوق  (United Nations Human Rights Council)ایک بین الحکومتی ادارہ ہے ۔اس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیامیں انسانی حقوق کاپرچارکرے اور ان حقوق کی پاسداری کرائے ۔اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے سنتالیس (47)ممالک تین سالوں کے لیے اس ادارے کے رکن منتخب کیے جاتے ہیں ۔ایک ملک دوبارمسلسل منتخب ہوکر تیسری باررکن منتخب نہیں ہوسکتا ۔یہ ممالک پوری دنیاسے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پرانسانی حقوق کی جانچ کرتے ہیں ۔انسانی حقوق کے کے علاوہ آزادی رائے،آزادی افکار،آزادی مذہب و عقیدہ،حقوق نسواں ،آزادی اجتماع اور اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی بھی اس ادارے کے فرائض میں شامل ہیں ۔اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی اس ادارے کاانتخاب کرتی ہے اور جنرل اسمبلی ہی اس ادارے سے رپورٹ لیتی ہے اور ادارے کی کارکردگی کاجائزہ بھی لیتی ہے۔ادارہ برائے انسانی حقوق کاکوئی رکن ملک اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کامرتکب پایاجائے توجنرل اسمبلی دوتہائی کی اکثریت سے اس رکن ملک کی رکنیت معطل یامنسوخ کرنے کااختیاربھی رکھتی ہے یااس رکن ملک کو اس کے مذکورہ حقوق سے محروم یا دستبردارکراسکتی ہے،بلکہ اس ادارے کی خالق قراردادمیں یہ بات لکھی گئی ہے کہ اس کے رکن ممالک میں انسانی حقوق کی پاسداری ممکنہ حد تک معیاری ہوگی۔انسانی حقوق کے اس ادارے کی سال بھرمیں تین اجلاس معمول کے مطابق ہونا طے ہیں ۔یہ اجلاس مارچ،جون اور ستمبرکے مہینوں میں منعقدہوتے ہیں ۔ان کے علاوہ ایک تہائی رکن ممالک کی درخواست پر خصوصی اجلاس بھی منعقد کیے جاسکتے ہیں ۔اس ادارے کی ذیلی کمیٹیاں بھی ہیں جن میں شامل ممالک اپنے اپنے ذمیہ کام کرکے اگلے اجلاس میں اس کام کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور پھر اجلاس میں فیصلے کیے جاتے ہیں ۔

 اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کا34واں اجلاس سوئزرلینڈکے دارالحکومت ’’جینیوا‘‘میں 27فروری سے 24مارچ 2017ء تک منعقد ہوا۔اس اجلاس میں 26صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں برما کے اندر انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا رونا رویاگیا تھا۔خاص طورپر برما کی ’’راخائن‘‘ریاست میں روہنگیا نسل کے انسانوں کے ساتھ وہاں کے عسکری ودفاعی اداروں نے بدترین سلوک کیاتھا۔رپورٹ کے مطابق 9اکتوبر2016سے برماکی سرکاری افواج نے ’’راخائن‘‘کی ریاست کو چاروں طرف سے محاصرہ کر کے بند کردیااورایک صفائی مہم(Clearance operation)کاآغازکردیا۔اس دوران 74,000سے زیادہ روہنگیانسل کے انسانوں کو بنگلہ دیش کی طرف ہانک دیاگیااوراس رپورٹ میں قتل،اجتماعی زیادتی اور املاک کو نذرآتش کرنے کی بے شمار وارداتوں کابھی ذکر کیاگیا۔رپورٹ پیش ہونے کے بعد اجلاس میں مختلف ممالک کے کم و بیش پچاس نمائندوں نے برماحکومت کے ان اقدامات کے خلاف کھل کرتقاریر کیں جن میں امریکہ ،چین،جاپان اور برطانیہ کے نمائندے بھی شامل تھے۔عراق،نیدرلینڈاور ڈنمارک سمیت متعدد ملکوں نے تجاویز دیں کہ ایک کمشن کی تشکیل ہونی چاہیے جوان واقعات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائے اور صاف اور شفاف طریقوں سے نتائج مرتب کرے۔

ان سب کے جواب میں برماحکومت کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ ہٹن لائن( Htin Lynn)نے بڑی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی انتہاکے ساتھ جواب دیا کہ مقامی حکومت خود ان واقعات کی تحقیقات کرارہی ہے اور ان واقعات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہاجاسکتا۔گویا ہزارہا انسان قتل ہوئے،خواتین اور بچے ذبح ہوگئے ،ملک بدرکردیے گئے،سمندروں کے بے رحم موجوں کے سپردکر کے انہیں کھلے آسمان کے نیچے دھکیل دیاگیااور سفیرموصوف کاکہناہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہیں ۔ادارہ انسانی حقوق کے اس فیصلے پر کہ ایک کمشن کی تشکیل عمل میں ائی جائے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی تحقیقات کاآغازکے،پر برما کی وزارت خارجہ نے  24مارچ 2017کی رات یہ تبصرہ کیاہے کہ اس طرح کاکمشن حالات کو سنوارنے کی بجائے جلتی پر تیل کاکام کرے گا۔کتنی جرات اورڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بولا جارہا ہے ۔اس کذب بیانی سے حکومت برما کی اپنی جانبداری ثابت ہوتی ہے کہ روہنگیانسل کے انسانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا گویا حکومت اس میں برابر کی شریک رہی ہے۔مسلمان نامہ نگار اور مسلمان تجزیہ نگارتو بہت پہلے ہی یہ بات کہتے تھے کہ ایک ریاست کے اندر ایک طویل مدت تک سرکاری عسکری و نیم عسکری اداروں کے ہاتھوں اس طرح مسلمانوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام حکومت کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتالیکن اب تو غیرمسلم اداروں اورعالمی تجزیہ نگاروں نے بھی یہ بات واضع کر دی ہے۔

 برما جیسے تیسری دنیاکے غریب ترین ملک نے بھی اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی توثیق سے انکار کردیاہے اور کہا کہ ہماری حکومت خود ان حالات کی تحقیقات کاآغاز کرے گی۔برماکایہ انکار اس عالمی ادارے کے منہ پر ایک کھلا طمانچہ ہے۔دنیاکے بڑے بڑے طاقتورممالک تو ببانگ دہل اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قراردادوں کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہیں لیکن اب تو برما جیسے ملک بھی اقوام متحدہ کو کسی خاطر میں نہیں لارہے اورجینوامیں ہونے والے فیصلوں کو جوتی کی نوک پررکھ رہے ہیں ۔برما کی حکومت نے واضع کیاہے کہ مسلمانوں کے قتل اور املاک کے نذرآتش ہونے کو سنجیدگی سے لیاجارہا ہے اور مسئلے کے مستقل حل کے بارے میں فیصلے کیے جارہے ہیں ۔یعنی دوسرے  معنوں میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کو ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے اور اقوام متحدہ کواپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔اقوام متحدہ میں برما کے مستقل مندوب ہٹن لائن( Htin Lynn)نے جینوا میں تقریرکرتے ہوئے تمام ممالک کے نمائندوں کے دوبدو یہ کہ دیاکہ  “not acceptable”.تمہارایہ فیصلہ ہمارے لیے قطعاََبھی قابل قبول نہیں ہے۔اپنی تقریر میں برماحکومت کے اس نمائندے نے اعتراض کیاکہ اس فیصلے کے لیے اجلاس میں رائے شماری نہیں ہوئی۔انسانی حقوق کا مذاق اڑاتے ہوئے اس نمائندے نے واضع طور پر کہا کہ ایسی قرارداد جسے یورپی یونین نے پیش کیاہواور امریکہ جیسے ملکوں نے اس کی حمایت کی ہواس کو ہم نہیں مانتے۔اس نمائندے کایہ موقف گویاآئینہ دکھانا تھا کہ یورپی یونین اور امریکہ اور اس کے ہمنوا ممالک پہلے اپنے جبڑوں سے توانسانی خون صاف کریں ،پھر ہم پر کیچڑ اچھالیں ۔

 تف ہے اقوام متحدہ کے دہرے معیار پر،اسی طرح کی خون کی ہولی میں اگر سفید چمڑی والے پس رہے ہوتے یاسیکولرازم اورسرمایادارانہ نظام کے مفادات داؤ پر لگے ہوتے تو کسی اجلاس کی ضرورت نہ سمجھی جاتی اور راتوں رات چھاتہ بردارافواج اتارکر اپنے ہم نسلوں کایااپنے مفادات کا تحفظ کرلیاجاتالیکن چونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کاہے اور اقوام متحدہ اس وقت پوری دنیاکی اسلام دشمن طاقتوں کی آلہ کار بن کر مسلمانوں پر کوہ گراں کی صورت میں ٹوٹ کر گر ری ہے اس لیے برماجیسے گئے گزرے ملک کاانکار بھی قابل قبول ہے اوراب اس ملک کے خلاف کوئی پابندیاں زیر غور نہیں آئیں گی اور نہ ہی اس کے گرد کسی طرح کا گھیراتنگ کیاجائے گا بلکہ عین ممکن ہے زیر خانہ برماکو آشیرباد دی جائے تاکہ اس کے دیکھا دیکھی دوسرے ممالک بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کریں ۔

 دنیامیں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ایک ایسی زبان ہے جسے ہر قوم سمجھتی ہے اور اس زبان کااحترام پوری دنیامیں ماضی سے حال تک اور آئندہ مستقبل تک بھی موجود رہے گا۔وہ زبان ’’طاقت کی زبان‘‘ہے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔صرف ارشادوتبلیغ اور صداقت و امانت سے دنیامیں کام چل پاتاتو مکی دورمیں اسلام نافذہوچکتالیکن یہ دنیاڈنڈے کی زبان جانتی ہے۔امت مسلمہ کے حکمران جب تک امن و آشتی کی زبان بولتے رہیں گے،پیاراور محبت کے راگ الاپتے رہیں گے،صلح اورمزاکرات پر یقین رکھیں گے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مسائل حل ہونے کے منتظر رہیں گے وہ اپنی نسلوں کو ذبح کراتے رہیں گے،اپنے وسائل کو گروی رکھ کراپنی ناک تک سود کی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور اپنے ہی گھروں میں غیرمحفوظ ہو کر اپنے دشمنوں کے رسالوں کو اپنے محلات میں حفاظت پر مامور کرتے رہیں گے اور پوری دنیامیں سوائے ذلت ومسکنت ورسوائی اور پسماندگی کے کچھ نہ پاسکیں گے۔آج بھی1974کی اسلامی سربراہ کانفرنس کے فیصلے موقرہیں کہ کل اسلامی ممالک اپنا مشترکہ دفاع مرتب کریں اور اپنی مشترکہ منڈی قائم کریں اور دفاع اور پیٹ کے لیے صرف اپنے انسانی و مالی وسائل پر بھروسہ کریں اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کریں ۔23مارچ کی عسکری قوت کے اظہارمیں دیگراسلامی ممالک کی افواج کی نمائندگی اسی منزل کی طرف ایک عمدہ قدم ہے اور اب اتحادامت کا سورج بہت طلوع ہونے والا ہے،انشااﷲتعالی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔