صحابۂ کرام اور قرآن مجید

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

صحابۂ کرام کی زندگیا ں قرآن کریم سے اثرپزیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کااولین نمونہ ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے کیسا تعلق تھا؟ قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں اور وہ انھیں سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ ان کی تلاوت کرنے اور انھیں یاد کرنے کا، ان کاکیا معمول تھا؟ اس کے احکام و تعلیمات سے انھوں نے کس طرح اپنی زندگیوں کو آراستہ کیاتھا؟ اس کاپیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے انھوں نے کتنی جدوجہد کی تھی ؟ اور اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا قربانیاں دی تھیں ؟

صحابۂ کرام کے قرآن مجید سے تعلق کے متعدد پہلو ہیں۔ ذیل میں ان پر روشنی ڈالی جا رہی ہے:

تلاوت ِ قرآن 

 صحابہ کرامؓ نے تلاوت میں آسانی کے لیے قرآن کو مختلف احزاب، یعنی حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ حضرت اوسؒ کہتے ہیں کہ میں نے متعدد صحابہ کرام ؓسے دریافت کیاکہ آپ قرآن کس طرح پڑھا کرتے تھے؟ اور آپ نے قرآن کو کتنے حصوں میں تقسیم کررکھا تھا؟کسی نے جواب دیا:تین، کسی نے جواب دیا: پانچ، کسی نے جواب دیا: سات، کسی نے جواب دیا: نَو اور کسی نے جواب دیا: گیارہ۔ یعنی صحابہ نے قرآن مجید کوجتنے احزاب میں تقسیم کر رکھا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قرآن کو اتنے دنوں میں ختم کرتے تھے۔ ( سنن ابی داؤد:۱۳۹۳)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓنے اللہ کے رسول ﷺ سے ایک مرتبہ سوال کیا: میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں ؟ آپ نے فرمایا: تیس (۳۰)دن میں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس سے کم دنوں میں قرآن پڑھنے کی سکت رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اچھا تو بیس (۲۰) دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ انہوں نے پھر عرض کیا: میں اس سے بھی کم دنوں میں ختم کر سکتا ہوں۔ ان کے اصرار پر آپ نے پندرہ (۱۵)، پھر دس (۱۰)، پھر سات (۷) دنو ں میں ختم کرنے کی اجازت دی اورفرمایا: سات دن سے کم میں قرآن نہ ختم کیا کرو۔ دوسری روایت میں ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ میں سات دن سے بھی کم میں ختم کر سکتا ہوں تو آپؐ نے انہیں تین دنوں میں ختم کرنے کی اجازت دی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تم تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی کوشش ہرگز نہ کرو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :’’لا یفقہ من قرأ في أقلّ من ثلاث‘‘۔ (جو آدمی تین دن سے کم میں قرآن ختم کرے گا اس کا مطلب ہے کہ وہ قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھ رہا ہے)۔ (سنن ابی دائود:۱۳۹۴۔ مسند احمد: ۶۷۷۵)

امام نووی ؒنے اپنی کتاب ’آداب حملۃ القرآن ‘ میں قرآن کی تلاوت کے آداب بیان کیے ہیں۔ انہوں نے اس میں بعض ایسے بزرگوں کابھی ذکر کیا ہے جوتین دن سے کم میں قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں اور بعض دو قرآن روز۔ (نووی، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، طبع دمشق، ص۴۶۔ ۴۹) لیکن رسول اللہ ﷺکے اس ارشاد کی رُوسے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا پسندیدہ نہیں۔ کوئی کتنا بھی بڑا بزرگ ہو، اگر وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت کے خلاف کرتا ہے تو اس کا یہ عمل قابل ِاتباع نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓکہتے ہیں کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں کوئی ایک سورت ترتیل کے ساتھ پڑھوں، یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں پورا قرآن بغیر ترتیل کے ختم کر لوں۔ (التبیان، ص۷۰)ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سوال کیا کہ میں ’سور مفصل‘ ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ (سورۂ حجرات، جو چھبیسویں پارے میں ہے، وہاں سے آخر ِقرآن تک کی سورتوں کو’ سور مفصل ‘کہا جاتا ہے)  اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے فرمایا:’’یعنی تم اسی طرح قرآن کو جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو جس طرح شعر پڑھا جاتا ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری:۷۰۴۳، صحیح مسلم:۸۲۲) گویا  انہوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔

قرآن کو خوش آوازی اور قراءت کے ساتھ پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’زیّنوا القرآن بأصواتکم‘‘ (سنن ابی دائود:۱۴۶۸)’’قرآن کو اپنی آواز سے زینت دیا کرو، یعنی اس کوترتیل سے پڑھا کرو‘‘۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’ لیس منا من لم یتغنّ بالقرآن‘‘ (صحیح بخاری: ۷۵۲۷)’’جو شخص قرآن کو سوز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

متعدد صحابہ کو اس معاملے میں شہرت حاصل تھی کہ وہ قراءت کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی آواز میں بہت سوز تھا۔ وہ جب قرآن پڑھا کرتے تھے تو سننے والے بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ خود اللہ کے رسول ﷺنے کئی مرتبہ ان کی قراءت سنی اور تعریف کی۔ اصحاب ِ رسول جتنا قرآن پڑھتے تھے اس کو سمجھتے بھی تھے، اس بنا پر اس کا غیر معمولی اثر ہوتا تھا۔ قرآن میں ہے: ’’وَیَخِرُّونَ لِلْا َذْقَانِ یَبکُونَ ویَزِیدُھُمْ خُشُوعًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۰۹) ’’جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو ان پر گریہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور ان پر بہت زیادہ خشوع  خضوع کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ‘‘ صحابہ کرامؓ کا یہی معاملہ تھا کہ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے تودوران ِ تلاوت جنت کی آیات آتیں تو وہ تلاوت روک کر دعا کرنے لگتے تھے اور اگر جہنم کی آیات سے گزرتے تھے تو تلاوت روک کر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے  تھے۔

تدبر ِقرآن:        

 صحابہ کرام ؓ آیات ِقرانی پر غورو تدبر کرتے تھے۔ جو شخص قرآن میں گہرائی سے غور کرے گا اس کو معانی کا استنباط ہوگا۔ عربی زبان جاننے والا بھی اگر قرآن کو سرسری انداز سے پڑھے تو ایسے معانی مستنبط نہیں کر سکتا جو غور سے قرآن پڑھنے والا مستنبط کرسکے گا۔ صحابۂ کرام کے بارے میں ایسے واقعات مروی ہیں کہ قرآن کی کوئی آیت پڑھی گئی۔ عام صحابہ اس کا کوئی اور مطلب سمجھتے تھے، لیکن بعض صحابہ نے کہا کہ نہیں، اس کا مطلب دوسرا ہے۔ انہوں نے زیادہ غور کیا، زیادہ گہرائی میں گئے تو اس کاجو مطلب  انہوں نے بتایا وہ دوسرے صحابہ کو نہیں معلوم تھا۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

معرکۂ قسطنطنیہ میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓبھی شریک تھے۔ قسطنطنیہ پر مسلمانوں نےکئی مرتبہ فوج کشی کی تھی، لیکن اس کو فتح نہیں کر سکےتھے۔ جس جنگ میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓشامل تھے اس میں بھی وہ اسے فتح نہیں کر پائے تھے۔ اس جنگ میں کئی فوجی شہید ہوئے تھے۔ اس موقع پر اہلِ لشکرکے درمیان چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا اچھی بات نہیں ہے۔ دشمن کی بہت بڑی فوج ہے۔ فتح اور کام رانی کا یقین ہو تب ہی حملہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے آیت پڑھی:’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘(البقرۃ:۱۹۵) اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا:اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ جب یہ بات حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے سامنے بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا:

’’تم لوگ اس آیت کا بالکل غلط مطلب نکالتے ہو۔ پوری آیت  یہ ہے:’’وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘(اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس میں اہل ِایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ گویا اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

سورئہ النساء کی تیسری آیت یہ ہے: ’’وان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث وربع‘‘ (اگر تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو تو دو، تین، چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو)۔ اس آیت میں تعدّدِ ازواج کی اجازت دی گئی ہے، مگر اس کا تعلق یتیموں سے کیا ہے؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے؟انہوں نے سمجھایا کہ کوئی یتیم لڑکی کسی کی سرپرستی میں ہوتی تھی اور وہ مال دار ہوتی تھی تو وہ اس سے شادی کرلیتاتھا اور اس کو پورے حقوق نہیں دیتا تھا۔ اس میں ایسے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تمہاری ماتحتی میں یتیم عورتیں ہوں اور تم ان سے شادی کرلو تو ان کو اسی طرح حقوق دو جس طرح دوسری عورتوں کو دیتے ہو۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو ان یتیم عورتوں کو آزاد چھوڑ دو کہ ان کی شادی کہیں اور ہو جائے اور تم دوسری عورتوں سے شادی کرنے میں آزاد ہو۔ (صحیح بخاری:۵۰۶۴)

قرآن مجید کی ایک آیت ہے:

 ’’إن الصفا و المروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوّف بہما‘‘ (البقرۃ: 158)

(صفا و مروہ اللہ کےشعائر میں سے ہیں، تو جو حج کرے یا عمرہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کا طواف کر لے)

 حرج کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ چاہے آدمی وہ عمل کرے یا نہ کرے۔ گویا اس آیت میں کہا گیا ہے کہ صفا و مروہ کا طواف، یعنی سعی کوئی ضروری نہیں ہے۔ کوئی شخص چاہے کر ے، چاہے نہ کرے۔ حضرت عروہ ؒنے حضرت عائشہؓسے پوچھا: اماں جان! کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو چاہے سعی کرے، جو چاہے نہ کرے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، سعی کرنی ضروری ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی تاکید کی ہے۔ اوس و خزرج کے لوگ، جن کا تعلق مدینے سے تھا، اسلام سے پہلے منات کو  پوجتے تھے، جو مشلّل میں نصب تھا، اس لیے وہ لوگ صفا و مروہ کاطواف کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد جب حج کی مشروعیت ہوئی تو کہا گیا کہ ان کو صفا و مروہ کی سعی کرنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو چھوٹ دے دی گئی ہے کہ چاہے سعی کریں، چاہے نہ کریں۔ گویا حرج کا مطلب چھوٹ دینا نہیں ہے، بلکہ سعی کا پابند کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری:۱۶۴۳)

جب سورۃ النصر (إذا جاء نصر اللہ والفتح….) نازل ہوئی تو کسی مجلس میں حضرت عمرؓ  نے صحابۂ کرام سے پوچھا: اس سورت کا کیا مطلب ہے؟ ہر ایک نے یہی کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب فتح حاصل ہو جائے تو استغفار کرو۔ حضرت عمرؓ نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کیا۔ انہوں نے جواب دیا: نہیں، اس میں اللہ کے رسول ﷺ کو خبر دی گئی ہے کہ آپ ؐکا مشن پورا ہوگیا ہے، اب آپ کی وفات کا وقت قریب آ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا:  ہاں۔ اس آیت کا مطلب میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ (صحیح بخاری:۴۲۹۴)

حفظ ِ قرآن             

متعدد صحابہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ قرآن مجید کو یاد کرنے کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضرت  ابی بن کعبؓ کے بارے میں مروی ہے :ابی اقرأنا۔ صحیح بخاری:۴۴۸۱( ابیؓ کو سب سے زیادہ قرآن یاد ہے)۔ نبی اکرم ﷺ نے خاص طور سے چار صحابہ( حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ، حضرت معاذبن جبل اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم)کا تذکرہ کیا ہے کہ ان لوگوں سے قرآن حاصل کرو۔ (صحیح بخاری:۴۹۹۹)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستّر(۷۰) سے زیادہ سورتیں اللہ کے رسول ﷺکے منھ سے سن کر یاد کی تھیں۔ (صحیح بخاری:۵۰۰۰)

جنگ یمامہ میں شریک ہونے والے صحابہ میں بہ کثرت حفّاظِ، قرآن تھے۔ ان کے شہید ہونے پر حضرت عمر ؓ کو جمعِ قرآن کا خیال آیا اور انھوں نے حضرت ابو بکر ؓ کو اس پر آمادہ کیا تھا۔

عربوں کا حافظہ بہت قوی تھا۔ وہ جو کچھ سن لیتے تھے وہ انہیں یاد ہوجایا کرتا تھا، لیکن بہرحال اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓکا قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کو یاد کرنے کا بھی معمول تھا۔

عمل بالقرآن    

محض قرآن پڑھنا کافی نہیں ہے، اسی طرح اسے سمجھنا بھی کفایت نہیں کرتا، جب تک اس کے ساتھ عمل شامل نہ ہو۔ صحابۂ کرام کے بارے میں متعدد واقعات ملتے ہیں کہ جہاں ان کے سامنے کوئی آیت آتی تھی وہ فوراً اس پر عمل پیرا ہو جاتے تھے۔

 حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں آتا ہے:کان وقّافاً عند کتاب اللہ۔ صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب قول اللہ تعالی و امرھم شوریٰ بینھم(وہ اللہ کی کتاب پرفوراً رک جایا کرتے تھے) یعنی اس کی بہت زیادہ پابندی کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک مجلس میں ایک شخص سےکسی بات پر بہت زیادہ خفا ہو گئے۔ ان کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے ہاتھ میں ایک دُرّہ ہوتا تھا۔ جہاں کوئی بات ناگوار ہوتی، فوراً دُرّہ استعمال کرتے تھے۔ اس مجلس میں ایک صحابی موجود تھے۔ انہوں نےحضرت عمر ؓ کی خفگی کو دیکھ کر یہ آیت پڑھی:خُذِ العفو و أمر بالعرف واعرض عن الجاہلین۔ الاعراف:۱۹۹(معاف کر دو، معروف کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔ ) راوی بیان کرتے ہیں :جیسے ہی حضرت عمرؓ  نے یہ آیت سنی، فوراً ان کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور چہرے کی ساری تمتماہٹ ختم ہو گئی۔ (صحیح بخاری:۴۶۴۲، ۷۲۸۶)

 مال دار صحابہ کا معمول تھا کہ مسجد ِنبوی میں جو غریب صحابہ کرام ؓرہتے تھے (جنہیں اصحابِ صفہ کہا جاتا تھا)  ان کے لیے کھجور کے خوشے لاکر ٹانگ دیا کرتے تھے۔ کچھ خوشوں میں اچھی کھجوریں ہوتی تھیں تو کچھ میں خراب۔ جب قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوئی:

یاایھا الذین آمنوا انفقوا من طیبٰتِ ما کسبتم و مما اخرجنا لکم من الارض و لا تیمموا الخبیث منہ تنفقون و لستم بآخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ البقرۃ :۲۶۷

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جو مال تم نے کمائےہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالاں کہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ )

روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ اپنے باغات میں جاتے تھے تو چھانٹ کر جو سب سے اچھا خوشہ ہوتا تھا اسے توڑ کر لاتے تھے اور مسجد نبوی میں رہنے والےصحابہ کے لیے لٹکایا کرتے تھے۔ (سنن ترمذی:۲۹۸۷)

جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی:ولیضربن بخمرھن علی جیوبھنّ۔ النور:۳۱ (عورتیں اپنے سینوں پر چادر ڈال لیا کریں ) تو تمام صحابیات کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی اپنی چادریں لیں، ان کے ٹکڑے کیے اور دوپٹے کی طرح انہیں استعمال کرنے لگیں۔ (سنن ابی داؤد:۴۱۰۲)

ام المومنین حضرت عائشہ ؓپر ایک الزام لگا، جسے ‘واقعۂ افک کہا جاتا ہے۔ اس میں نادانی سےبعض  مخلص صحابہ بھی شامل ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک صحابی حضرت مسطح ؓ بھی تھے۔ ان کے پورے خاندان کی کفالت حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابو بکرؓکیا کرتے تھے۔ بعد میں جب حضرت عائشہؓ کی براءت ثابت ہوگئی تو حضرت ابو بکر ؓنے قسم کھائی کہ اب آئندہ سے میں مسطحؓ اور اس کے خاندان کی کفالت نہیں کروں گا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:ولایأتل أولوا الفضل منکم والسعۃ أن یؤتو اأولی القربیٰ۔ النور:۲۲ (تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں کی مدد نہ کریں گے۔ ) اس آیت میں آگے ہے:ألاتحبّون أن یغفر اللہ لکم (کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم کو معاف کر دے)۔ روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو بکرؓ زور زور سے کہنے لگے:’’ہاں، میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری بخشش کر دے۔ ‘‘پھر انہوں نے عہد کیا کہ جو خرچ حضرت مسطح ؓکے خاندان والوں کو دیا کرتے تھے، اسے آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ (صحیح بخاری:۲۶۶۱)

  قرآن کریم کی ایک آیت ہے:لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔ آل عمران: ۹۲ (تم  ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتےجب تک کہ اپنی وہ چیزیں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو)۔ حضرت ابو طلحہؓکے بارے میں آتا ہے کہ وہ بڑے مال دار صحابی تھے۔ ان کےپاس کئی باغات تھے۔ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا: میرا سب سے اچھا باغ بیرحا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ اللہ کے رسول ﷺنے ان کو ہدایت کی کہ باغ اپنے پاس ہی رکھو اور اس کی پیداوار اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ (سنن ابی داؤد:۱۶۸۹)

حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ میں اپنے باپ ابو طلحہ ؓکے گھر پر تھا۔ شراب کی مجلس جمی ہوئی تھی۔ صحابہ شراب پی رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ایک آدمی یہ اعلان کرتا ہوا گزرا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے شراب حرام کر دی ہے۔ یہ سننا تھا کہ جس کے ہاتھ میں شراب کے جام جہاں تک تھے وہیں پر رک گئے، شراب کے جتنے مٹکے تھے سب پھوڑ دیے گئے اور شراب کو گلیوں میں بہا دیا گیا۔ (صحیح بخاری:۵۵۸۲)

سورۂ حجرات کی یہ آیت نازل ہوئی:یآیھا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی و لا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض(آیت۲) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو۔ تو بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمربن الخطاب ؓ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے اس قدر آہستہ بولنے لگے کہ ان کی بات ٹھیک سے نہیں سنائی دیتی تھی۔ (سنن ترمذی:۳۲۶۶) حضرت ثابت بن قیسؓ پر اس قدر اثر ہوا کہ بالکل خانہ نشین ہوگئے۔ کوئی روز تک نظر نہیں آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کوان کے گھر بھیج کر معلوم کروایا کہ کہیں بیمار تو نہیں پڑ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بولا کرتا تھا۔ میں تو جہنمی ہو گیا۔ آپؐ کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: نہیں، وہ جنتی ہیں۔ (صحیح بخاری:۳۶۱۳)

  ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کے سامنے قرآن کا جو بھی حکم آتا تھا، فوراً اس پر عمل کرنے کے لیےتیار ہو جایا کرتے تھے۔

تعلیم ِقرآن          

آخری بات یہ کہ قرآن کی تعلیم عام کرنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کو تجوید اچھی آتی ہے وہ دوسروں کو تجوید سکھائیں۔ جو قرآن یاد کرا سکتے ہوں وہ یہ خدمت انجام دیں۔ جو لوگ قرآن کا فہم رکھتے ہیں وہ دوسروں کو فیض پہنچائیں۔ عہد نبوی میں اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ صحابہ دو مجالس (گروپ میں ) بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک گروپ میں لوگ اکیلے اکیلے قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں۔ دوسرے گروپ میں لوگ اجتماعی طور پر قرآن پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔ آپ دوسرے گروپ والوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا: اِنَّما بُعِثتُ مُعَلِّماً۔ ابن ماجہ:۲۲۹(میں تو معلّم کی حیثیت سے بھیجا گیا ہوں )

 ایسے صحابہ جن کو پورا قرآن یاد تھا اور وہ دوسروں کو بھی قرآن یاد کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے، عہد نبوی میں ان کواصطلاحی طور پر  قرّاءکہا جاتا تھا۔ کچھ صحابہ ایسے تھے جن کو دن میں کاروبار کی وجہ سے اکٹھا ہو کر قرآن پڑھنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ یہ لوگ رات میں کسی ایک صحابی کے گھر اکٹھا ہوتے تھے، اس کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھتے اور ا س کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی پوری رات اسی میں گزر جاتی، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی تھی۔ (مسند احمد:۱۲۴۰۲)

صحابۂ کرام کی قرآن مجید کی تعلیم کا سلسلہ مکہ مکرمہ ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ بیعت ِعقبہ اولیٰ کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور حضرت ابن ام مکتومؓ کو لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے یثرب(مدینہ )بھیجا تھا، پھر ہجرت کے بعد مسجد نبوی میں قیام کرنے والے صحابہ، (جنھیں اصحابِ صفّہ کہا جاتا تھا) کی تعلیم کا خاص انتظام فرمایا تھا۔ آپؐ نے حضرت عبادہ بن صامت ؓ کو ذمے داری دی تھی کہ وہ اصحابِ صفّہ کو قرآن مجید کی تعلیم دیں اور لکھنا بھی سکھادیں۔ (سنن ابی داؤد:۳۴۱۶)شام فتح ہوا تو حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے حضرت عبادہ بن صامتؓ، حضرت معاذ بن جبل ؓ اور حضرت ابو الدرداءؓ کو وہاں کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بصرہ کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کے ساتھ حضرت عمران بن حصینؓ کو بھی بھیجا کہ لوگوں کو قرآن اور فقہ کی تعلیم دیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کوفہ میں قیام کیا تو ان کا ایک مستقل حلقۂ درس قائم ہو گیا تھا، جس میں وہ قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری:۴۹۴۳)

1 تبصرہ
  1. عثمان خان کہتے ہیں

    اس معلوماتی عمدہ مضمون میں رمضان میں تراویح میں قرا حضرات کے فراٹے والی تلاوت کے متعلق بھی کچھ باتیں شامل کر لی جاتیں توافادیت میں اوراضافہ ہو جاتا۔

تبصرے بند ہیں۔