آتش رفتہ کا سراغ

ڈاکٹر محمد نعیم فلاحی  

(اسوسی ایٹ پروفیسر و صدرشعبۂ اردو، جنرل سکریٹری ادارۂ ادب اسلامی ہند)

 کتاب: آتش رفتہ کا سراغ

مصنف: ڈاکٹر حسن رضا

صفحات: 256

قیمت:  300.00

ناشر:  ادارۂ ادب اسلامی ہند، نئی دہلی، D321ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی

موبائل:   8709108154

ماہنامہ ’پیش رفت‘ پچیس برسوں سے مسلسل شائع ہورہا ہے اور ادارۂ ادب اسلامی ہند کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ ڈاکٹرسیدعبدالباری شبنم سبحانی کے دور صدارت سے اب تک پیش رفت کے اداریے پیش نامے کے عنوان سے صدر ادارہ لکھتے رہے ہیں۔ ابتدا میں جب جناب عزیزبگھروی مرحوم رسالے کے مدیر تھے تو انہوں نے عام طور سے اردوزبان و ادب کے انتہائی موقر حضرات سے اداریے لکھوائے۔ ان قلم کاروں میں ڈاکٹرابن فرید، پروفیسر عبدالمغنی، پروفیسر احمد سجاد، ڈاکٹرسید عبدالباری شبنم سبحانی، جناب طیب عثمانی، پروفیسر منظر اعظمی، پروفیسرعبدالحق، ڈاکٹر زینت اللہ جاوید، پروفیسر عمر حیات غوری، جناب کیف نوگانوی، ڈاکٹرمحمود شیخ، جناب پرواز رحمانی جیسے حضرات قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۰ء تک ۱۷ برسوں میں لکھے گئے ان اداریوں کو جناب انتظار نعیم نے ’’روشنی بکھرتی ہے‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے جو۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔

گزشتہ میقات (۲۰۱۳ء-۲۰۱۷ء) جب پروفیسر حسن رضا صاحب ادارے کے صدر منتخب ہوئے تو اپنی مدت کارمیں انہوں نے ’’پیش رفت‘‘ کے جو اداریے لکھے وہ مختلف ادبی اور فکری پہلؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان اداریوں کی افادیت کے پیش نظر ’’آتش رفتہ کاسُراغ‘‘ کے نام سے انہیں شائع کیا جارہا ہے۔ جس کو رِسَرچ اسسٹنٹ ساجدندوی نے موضوعاتی اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ترتیب دیا ہے۔ ان کے علاوہ اس مجموعے میں ان کا ایک مضمون بہ عنوان ’’تحریک اسلامی اور ادبی محاذ‘‘ اور دوانٹرویو بھی شامل ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ اداریہ کسی بھی رسالے کی منفرد حیثیت کی حامل وہ تحریر ہے جس میں مدیر اپنے علم و تجربے اور شعور و بصیرت کی روشنی میں کسی اہم موضوع پر اظہار خیال کرتا ہے۔ جس کی حیثیت رسالے کے فکری ترجمان کی ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے مدیر اپنے قارئین کی سوچ کو اپنے نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ قاری کے جذبات واحساسات کو متاثر کرتا ہے۔ اداریوں کے اثرات و مضمرات بہت دوررس اور دیرپا ہوتے ہیں۔

اس مجموعے کے پہلے حصّے ’’ادب اسلامی:پس منظر، مسائل اور حل‘‘ میں ۱۳ ؍اداریے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے اداریے ’’تحریک ادب اسلامی کا تاریخی پس منظر‘‘میں بہت مفصل اور جامع انداز میں ادب اسلامی کی تحریک کے تاریخی پس منظر سے بحث کی ہے اور اس کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ اس اداریے کے آخر میں وہ اس کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جب ہم اسلامی ادب کی تاریخ کے دوسرے مرحلے میں ہیں، ہمیں ادب اسلامی کی تاریخ، اس کا پس منظر، اس کا تسلسل، اس کی وسعت اور اس کے تاریخی روح کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے آگے کے سفر میں اس کو نشانِ راہ کے طور پر سامنے رکھیں اور صحیح منزل کی طرف رواں دواں رہیں۔ ‘‘

’’کاروان ادب اسلامی ہند کا پہلا عہد‘‘ میں پہلے دور کے خاتمے کے بعد اس کارواں کے عَلَم برداروں کو گزرے ہوئے عہد کا جائزہ لینے پر ابھارتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اگرچہ اپنے عمل کا احتساب ذرا مشکل کام ہے، پھر بھی یہ تاریخی فریضہ ہمیں انجام دینا چاہیے۔ اس پہلو سے اگر ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اعتراف کرنے میں جھجھک نہیں ہونی چاہیے کہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے ۶۵ سالہ تاریخی سفر میں ہم نے کئی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ کتنے جام وسبو ہم سے ٹوٹے ہیں …آخرکیا وجہ ہے کہ ادیبوں کے درمیان انسانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے دعوے کے باوجود ہم اس کو وسیع بنیادوں پر مضبوط نہ کرسکے۔ ‘‘

’’مابعد جدید عہد میں ادب اسلامی کا کردار‘‘ میں ڈاکٹر صاحب نے اکیسویں صدی کے مابعد جدید عہد میں انسانیت کو درپیش چیلنجز سے بحث کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ہمارے فن کار کے سامنے کون سا بنیادی چیلنج ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں :

’’ان حالات میں ایمان بالغیب کو اپنی تخلیقی توانائی اور فنی ہنرمندی سے حق الیقین میں بدل کر ایک متبادل حسین منظر بناکر دکھا دینا ہمارے فن کار کا بنیادی چیلنج ہے۔ صوفیائے کرام نے انسانی شعور کے لیے غیب میں حضور کی کیفیت پر بحثیں کی ہیں، ان سے روشنی لے کر اس کی ایک جھلک اسلامی ادب دکھا سکتا ہے۔ ‘‘

موجودہ دور میں ادب اسلامی میں نئی وسعت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے ’’چلتا نہیں ہے دشنہ وخنجر کہے بغیر‘‘ میں مختلف اقدامات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آخر میں وہ مشورہ دیتے ہیں :

’’لہٰذا ادارۂ ادب اسلامی کو ایک ایسا کشادہ اور وسیع فورم کا کردار ادا کرنا چاہیے جو ادب میں ہونے والی تمام کاوشوں اور کروٹوں کو اپنے اندر سمونے کی استعداد رکھتا ہو۔ زبان وادب کے تنوع سے ادب اسلامی کے دامن کو مالامال کرکے ہم اس کو وسعت دے سکتے ہیں اور تب ہم مخصوص دائرے اور محدود حلقوں سے نکل کر وسعتِ افلاک میں تخلیق مسلسل کی راہ پر گامزن رہ سکتے ہیں۔ میدان جب وسیع ہوتا ہے اور کارجہاں دراز ہوتا ہے تب ہر سطح اور صلاحیت کے تازہ دم افراد اس میں شریک ہوتے ہیں۔ ‘‘

اس مجموعے کا دوسرا حصّہ ’’ادبی تخلیق اور ادب اسلامی‘‘ ۱۱؍ اداریوں پر مشتمل ہے۔ اس حصّے کے پہلے اداریے میں ’’ادب اسلامی کی تحریکی جہت‘‘ سے بحث کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری اور مولانا مودودیؒ کی نثر کا وہ اس پہلو سے جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’علامہ اقبال کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کو ملّی اور روایتی حسن و عشق کی سطح سے بلند کرکے تحریکی جہت عطاکی۔ اپنی شاعری میں رسولؐ اور ان کے مشن کے عشق سے تحریکی حرارت پیدا کی۔ اس طرح برصغیر میں تحریکی ادب کی بنیاد بیسویں صدی میں پڑی۔ اسی کام کو مولانا مودودیؒ نے اپنی علمی نثر کے ذریعے منظم طور پر انجام دیا۔ ‘‘

اس مجموعے کا تیسرا حصّہ ’’تحریکات، اصناف ادب اور شخصیات‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس میں ۱۳؍اداریے ہیں۔ اس حصّے میں موصوف نے مختلف تحریکات ورجحانات، اصناف و اسالیب اور شخصیات کا جائزہ لیا ہے۔ تمام مضامین کا ذکر کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ البتہ موجودہ دور کے ایک اہم رجحان تانیثیت پر دو اداریے ہیں۔ ’’تانیثی تحریک اور ادب اسلامی‘‘ میں موصوف تانیثیت کے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ اس حصّے میں اس کی منصفانہ بنیادوں کو واضح کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام کے موقف کو مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ تانیثیت کے حوالے سے اسلامی ادب کے چیلنج کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’آج اسلامی ادب کا چیلنج یہ ہے کہ تانیثیت کے حوالے سے ادب میں جس نسائی سرشت کا اظہار یا داخلی سرگذشت کا بیان اعتدال سے ہورہا ہے، ان کا اعتراف کرے اور انتہاپسندی و انحراف کی تمام شکلوں پر تنقید کرے جن سے اسلامی تہذیب کے تناظر میں ادبی اور اخلاقی قدروں کی نفی ہوتی ہے۔ ‘‘

اس حوالے سے دوسرا اداریہ ’’اسلامی ادب میں نسائی آوازیں (تانیثیت کے پس منظر میں )‘‘ہے۔ انہوں نے موجودہ تانیثی ادب کی حامیوں کی نشان دہی کیا ہے کہ مغربی تانیثی ادیبوں سے فرد و جماعت دونوں سطح پر غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اس لیے تانیثی تحریک نے معاشرے میں عدل و انصاف کی بنیاد تلاش کرنے کے بجائے معاشرے میں جنس کی بنیاد پر ایک کش مکش، انتقام اور بغاوت کی فضا تیار کردی ہے۔

اسی حصّے میں انہوں نے اردو ادب کے نمائندہ تخلیق کاروں امیر خسروؔ، میرؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، فیضؔ اور محمد حسن عسکری کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ ’’فیض کی شاعری اور اس کی معنویت‘‘ کے عنوان سے فیض کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو پڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ’’وہ ہماری اردو شاعری کی روایت کا ایک معتبر حصّہ ہیں اور ان کی شاعری کے وسیلے سے جمالیاتی شعور کی معنویت کو ایک نئی گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی استعداد پیداہوتی ہے اور جمالیاتی احساسات کی تہہ در تہہ کیفیتوں سے گزرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اس طرح وہ ہمارے ادبی ذوق کی نشوونما اور تربیت میں معاون ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’تحریک اسلامی اور ادبی محاذ‘‘ کے عنوان پر ایک مضمون بہ طور ضمیمہ اس مجموعے میں شامل ہے۔ جس میں انہوں نے دوٹوک انداز میں لکھا ہے:

’’یہ جو ہندستان میں انسانوں کا جنگل ہے۔ اس کو ادب کا جوگی فتح کرسکتا ہے۔ اگر یہاں کی تمام زبانوں میں ہم اعلیٰ درجے کا اسلامی ادب پیدا کرکے اس ملک کو جمالیاتی سطح پر مالامال کردیں تو ہمیں تہذیبی سطح پر اس کو اسیر کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ یہی تحریک اسلامی کا مقصود ہے۔ ‘‘

پروفیسرحسن رضا کے اداریوں کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر بہت غور وفکر کے بعد قلم اٹھایا ہے۔ ان کے تمام اداریے اسلامی فکر کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ مدلل انداز اور بے باکی کے ساتھ اپنی بات کو پیش کرنا ان کے اداریوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ اپنی بات کو قاری پر تھوپنے کے بجائے استدلال کے ساتھ اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ جیسے جیسے قاری آگے بڑھے گا ان کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتا چلاجائے گا۔ ان کے اداریے زیادہ طویل نہیں ہوتے۔ کم الفاظ میں وہ زیادہ سے زیادہ مواد قاری کے مطالعے کے لیے فراہم کردیتے ہیں۔ انہیں زبان وبیان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ وہ صاف و شفاف زبان اور سادہ و سلیس اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ موضوع کی ضرورت کے لحاظ سے وہ علمی انداز سے بھی گریز نہیں کرتے۔

 موصوف نے جابہ جا تلمیحات کا استعمال بھی کیا ہے بالخصوص قرآن مجید کی آیات کا برمحل استعمال ان کا نمایاں وصف ہے۔ تلمیحات کے استعمال سے ان کی بات زیادہ واضح، پُراثر اور مدلل ہوجاتی ہے۔ حسب ضرورت انہوں نے اردود اور فارسی اشعار کا استعمال بھی کیا ہے جس سے تحریر میں جاذبیت اور ادبی چاشنی پیدا ہوگئی ہے۔

مجھے امید ہے کہ پروفیسر حسن رضا صاحب کے ان اداریوں کے ذریعے قارئین اور بالخصوص ہماری نئی نسل اسلامی ادب کے مزاج اور ادبی جہات کو بہتر انداز سے سمجھ سکے گی اور تہذیبی کش مکش کے اس نئے دور میں ادب کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے کو تیار کرسکے گی۔

تبصرے بند ہیں۔