سر سیّد احمد خان: ایک محب قوم

محمد امام الدین امام

(شیام نندن سہائے کالج، مظفرپور،بہار) 

سر سیّد احمد خاں کی پیدائش  ۱۷؍ اکتوبر  ۱۸۱۷ ؁ء میں دہلی کے ایک معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گرامی کا نام میر مُتّقی اور والدہ کا نام عزیز النساء بیگم تھا۔ سر سیّد کی بسم اﷲ کی تقریب حضرت شاہ غلام علی صاحب کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی۔ سر سیّد کی تعلیم و تربیت ان کے والد کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ ان کے دادا کا نام سیّد ہادی اورنانا کا نام خواجہ فرید الدین تھا۔ سر سید کی پرورش و پر داخت پر ایک خادمہ کو مامور کیا گیا تھا جو ماں بی بی کہلاتی تھیں۔ جب سر سیّد پانچ برس کے ہوئے تو ماں بی بی کا انتقال ہو گیا۔ اب ان کی پرورش و پر داخت کی مکمل ذمہ داری ان کی ماں کے سر آگئی جسے  انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ ان کی تعلیم و تریت اپنی نگرانی میں کرائی۔ نانا خواجہ فریدالدین نے بھی ان کی تعلیم و تربیت میں اہم حصّہ لیا تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت دینی ماحول میں ہوئی تھی۔ نانا کی شخصیت نہایت رسوخ والی تھی۔ ان کے مراسم انگریز افسروں کے ساتھ ساتھ باد شاہ ِ وقت سے بھی تھے۔

سر سیّد بچپن سے اپنے نانا کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا کر تے تھے۔ سرسیّد کی تعلیم و تربیت میں مولانا حمید الدین (ان کے ماموں )زین العابدین اور دیگر مختلف علم و فنون کے ماہرین نے الگ الگ حصہ لیا۔ سیاسی اور معاشی معاملات کی تفہیم میں عہد حاضر کی سر گرمیوں نے اہم رول ادا کیاتھا۔ جب ۱۸۳۸ ؁ء میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تو انہیں تلاشِ معاش کی فکر لاحق ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ سرشتہ داری کی حیثیت سے ملازمت ۱۸۳۹ ؁ء میں شروع کی پھر آگرہ آکر نائب منشی کے عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس کے بعد  ۱۸۴۱ ؁ء میں منصفی کا امتحان پاس کر کے مین پوری میں منصف کا عہدہ سنبھالا پھر ایک سال بعد فتح پوری سیکڑی میں یہی کا م انجام دیا۔ لیکن جب ان کے بڑے بھائی سیّد محمد خان کا انتقال  ۱۸۴۵ ؁ء میں ہو گیا۔ تو اس حادثے  نے انہیں بے حد متاثر کیا اور ان کی زندگی ایک نئے خطوط پر چل پڑی۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا وضع قطع بدلا، داڑھی بڑھائی، شرعی پہنا وا اختیار کر لیا۔ پھر ۱۸۴۶ ؁ء میں دہلی آکر منصفی کا عہدہ سنبھال لیا۔ محض ۲۹؍ سال کی عمر میں دہلی کے مشہور و معروف عالموں سے عربی اور فارسی کی میں استفادہ کیا اور بڑے انہماک و اطمینان سے تصنیف و تالیف کے کام میں لگ گئے۔ اسی ملازمت کے دوران انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’ آثار الصنادید‘‘ ۱۸۴۷ ؁ء میں شائع کروائی۔ جس میں دہلی کی نامور شخصیات کے حالات اور دہلی کی مشہور عمارتوں کا ذکر بذات خود چھان پھٹک کے بعد درج کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بڑے جوکھم بھی اُٹھائے۔

        ۱۸۵۷ ؁ء کا زمانہ کسی بھی ہندوستانی کے لیے اہم رہا ہے۔ سر سیّد نے اس غدر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس کی واقعیت کا بھی انہیں خوب اندازہ تھا۔ اس لیے انہوں نے اس موضوع پر ایک رسالہ ۱۸۵۹ ؁ء میں شائع کیاجس میں اسباب بغاوت سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا کرنل گراہم نے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس رسالے کا نام اسبابِ بغاوت ہند رکھا۔ اسی سلسلے کی ایک کتاب ’’ تاریخ سرکشی بجنور‘‘ بھی ہے جس میں مئی ۱۸۵۷ ؁ء سے اپریل ۱۸۵۸ ؁ء کے واقعات و حادثات درج ہیں۔ ۱۸۶۲ ؁ء میں انہوں نے ’’ سائنٹفک سوسائٹی ‘‘ نام سے ایک انجمن بنائی اس انجمن کی غرض و غائت ہندوستانیوں میں مختلف سائنسی علوم کو فروغٖ دینا تھا۔ ۱۸۶۹ ؁ء میں انگلینڈ کا دورہ بھی کیا۔ واپسی کے بعد ’’ تہذیب الا خلاق ‘‘ نام سے ایک رسالہ نکا لنا شروع کیا۔ انہوں نے پہلے مدرسۃالعلوم کی بنیاد رکھی تھی جو  ۱۸۷۸ ؁میں ’’ اینگلو اورینٹل کالج‘‘ بن گیا پھر ۱۹۲۰ ؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں تبدیل ہوگیا۔ جو آج کل دنیا کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن چکا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ علم ریاضی اور علم نجوم کی تعلیم ماموں زین العابدین سے حاصل ہوئی تھی۔ اس لیے وہ اس علم کے بھی ماہر تھے۔ قومی سر گرمیوں کی تفہیم راجا رام موہن رائے سے ملی تھی۔ اس لیے وہ تصنیف و تالیف کے کاموں کے علاوہ دیگر سر گرمیوں میں بھی حصّہ لیتے تھے۔ ان کے تصنیف وتالیف کی ایک لمبی فہر ست موجود ہے۔ ارد و ادب میں ان کی تمام نثری فتوحات اضافے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی شخصیت عبقری گردانی جاتی ہے۔ انہوں نے اردو نثر نگاری کو جو رتبہ عطا کیا ہے اس سے کوئی عاشق اردو انکار نہیں کر سکتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کوجو سمت و رفتار عطا کیا ہے اس پر چل کر اردو زبان آج دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہے۔ سر سیّد کا انتقال علی گڑھ میں ۱۸۹۸ ؁ء میں ہوا اور وہ وہیں سپرد ِ خاک ہیں۔

          سر سیّد احمد خاں کی شخصیت اردو ادب میں بلند اور قدآور ہے۔ اردو ادب میں ان کی خدمات فقید المثال ہیں۔ ان کے احسان سے اردو ادب اور قوم و ملت کبھی سبکدوش نہیں کر سکتے۔ ان کی شخصیت کی بو قلمونی ان کی فتوحات سے مترشح ہے۔ سر سیّد ایک مصلح قوم ہیں انہوں نے اپنی قوم و ملت کی فلاح و بہود اور اس کی آبرو مندانہ زندگی کے لیے تمام عمر وقف کر دی تھی۔ ان کے تمام مضامین اصلاحی نوعیت کے ہیں جو اپنے اقوام وملل اور اپنے معاشرہ سے جذبہ ہمدردی کے مظہر نظر آتے ہیں، موضوعات کے اعتبار سے ان کے مضامین میں بو قلمونی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پرانے خیالات سے یعنی عشق و عاشقی کے دائرے سے نکل کر موجودہ معاشرتی مسائل سے وابستہ ہو سکے اور اس میں عصری خوبیوں سے  نبر د آزماہونے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اسی وجہ کر سر سید احمد خاں نے اردو ادب کو ایک نئی ڈگر، ایک نیا زاوئیہ نگاہ دیا۔ اس سلسلے میں شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی کا خیال ملاحظہ فرمائیں  :

’’ سر سیّد کے جس قدر کار نامے ہیں اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے۔ لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں۔ ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سر سید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے  دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی،  اخلاقی، تاریخی، ہر قسم کے مضامین  اس زور و اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے کہ خود  اس  کے استاد  یعنی فارسی  زبان کو آج تک  یہ بات نصیب نہیں۔ ‘‘( مقالاتِ شبلی (جلد دوم )  ادبی   ص  ۵۵)

        مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہے کہ سر سید احمد خان نے اردو ادب کوعروج بخشا۔ اتنا ہی نہیں سر سید کے ان کارناموں کا ایسا اثر ہوا کہ تمام اہل علم و ادب اعلیٰ و ادنیٰ سب ان کے احسان مند ہیں اور ان کی خدمات پر سر سید کے افکار و نظریات کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اردو ادب کے ایک معتبر اور مشہور و معروف ناقد آل احمد سرور سر سید احمد خان کے خدمات اور ان کی عظمت کا یوں بیان کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں  :

’’ سر سیّد علی گڑھ کے ادارے کے بانی ہی نہیں، ہندوستان کی ان عظیم شخصیتوں میں سے ہیں۔ جنہوں نے ہماری تاریخ پر ایک غیر فانی نقش چھوڑا ہے۔ سر سید نے زندگی کے ہر شعبے پر اثر ڈالا۔ انہو ں نے خواب دیکھے اور دکھائے  اور پھر  خوابوں کو حقیقت بنانے  میں لگے  رہے۔ انہوں نے مذہب، سیاست، تعلیم، معاشر ت ، ادب، صحافت سب میں بڑے بڑے انقلابی کارنامے انجام دئے۔ وہ بہت بڑے مصلح اور مجدد، معلم اور مجاہد تھے۔ انہوں نے اپنی ذہنی  اور علمی قیادت سے قوم کا رُخ مایوسی سے اُمید کی طرف ، سستی اور بے عملی سے سعی اور جستجو کی طرف، ماضی کے نشے سے  حال کی ترشی کی طرف ، ذاتی فلاح سے قوم کی بہبود کی طرف، رسم پر ستی اور اندھی تقلید سے  حریت، فکر اور عقلیت کی طرف اور قدیم اسالیب فکر سے جدید عالمی  معیاروں کی طرف پھیر دیا۔ اپنی پُر سوز اور پُر خلوص شخصیت کی وجہ سے انہوں نے علم و ادب کے کتنے ہی آفتاب و ماہتاب  اپنے گر د جمع کر لیے اور مخلص، ہوش منداور  باعمل نوجوانوں کی ایک پوری نسل تیار کردی۔ ‘‘(انتخاب ِ مضامین ِ سرسید مرتبہ پروفیسر آل احمد سرور  ص  ۵)

        مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات مترشح ہے کہ سر سید احمد خان نے قوم و ملت کو ایک نئی فکر، نئی راہ اور نئے خواب سے روشناس کرایا اور اس خواب کو حقیقت بنانے کا راستہ بھی دکھایا۔ انہوں نے بڑے انقلابی کارنامے انجام دئے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کی شخصیت بڑی بو قلموں بن گئی ہے۔

        سر سید احمدخان کے مضامین کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے بنی نوع انسان کی ایک بہترین جماعت تیار کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کی شخصیت بذات خود ایک نمونہ بن کر سامنے آئی ہے۔ سر سید احمد نے جن موضوعات پر مضامین لکھے ہیں وہ تعصب، تکمیل، رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات، عورتوں کے حقوق، تعلیم و تربیت، کاہلی، اخلاق، ریا، مخالفت، خوشامد، گزراہوازمانہ، بحث و تکرار، امید کی خوشی، سولزیشن یا تہذیب، اپنی مدد آپ، سمجھ، اور آخری پرچہ تہذیب الاخلاق وغیرہ ہیں۔ تمام مضامین ہمارے معاشرے میں موجود مسائل کی آئینہ داری کرتے ہیں اور ہمیں ان مسائل سے  نکلنے میں راہ نمائی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے تمام موضوعات میں مقصد صرف اصلاحی ہے۔ جو ہمدردی کے جذبے سے سر شار نظر آتا ہے۔ مضمون تعصب میں تعصب کے متعلق موصوف کے خیالات ملاحظہ فرمائیں  :

’’  انسان کی بدترین خصلتو ں  میں سے تعصب  بھی ایک بدترین خصلت ہے یہ ایسی بد خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی  ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے مگر اس کا طریقہ یہ بات بتلاتا ہے کہ عدل و انصاف کی خصلت جو عمدہ ترین خصائل ِ انسانی سے ہے اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف با ت سننے اور سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے  بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے  اور عام ہونے نہیں دیتا کیونکہ اس کے مخالفوں کو اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ ‘‘   (انتخاب مضامینِ سر سیّد  مرتبہ  آ ل احمد سرور  ص   ۲۷)

        سر سیّد احمد خان کے مضامین کی بوقلمونی صرف ان کا ہی حصّہ ہے۔ ان کی انشا پر دازی کا عنصر جابجا منعکس ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے مضامین کی سب سے بڑی خوبی ان کاا سلوبِ بیان ہے۔ ان کی تحریروں میں سلاست روانی، صفائی، اور دل آویزی ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ قاری کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی دلچسپ قصّہ پڑھ رہا ہے۔ سر سید کی یہ خوبی ہے کہ وہ جس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں اس موضوع کو درجئہ کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔ یعنی وہ موضوع اور نفس ِ موضوع کی تمام جذبات بروئے کار لاتے ہیں۔ اسی طرح و ہ جب مناظر قدرت کا بیان کرتے ہیں تو ایک مکمل نقشہ سامنے رکھ دیتے ہیں۔

         سر سید احمد خان نے جو اسلوب ِ بیان وضع کیاتھاوہ اس دوڑ میں رائج اسلوب سے بالکل مختلف تھا اور پرانی روایت کو توڑ کر نئے اقدار و معیار قائم کرنے کی راہ میں بیش قیمتی ثابت ہوا۔ سر سید احمد خاں کے مضامین کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ سر سید احمد خاں کے مضامین تین طرح کے ہیں۔ پہلا خالص مذہبی اور دینی مضامین، دوسرا سیاسی مضامین اور تیسرا اصلاح و اخلاق و معاشرت سے تعلق رکھنے والے مضامین۔ لیکن تمام مضامین کی روح رواں انسانی ہمدردی ہی ہے۔ جو ایک آبرو مندانہ زندگی کا خواہاں نظر آتا ہے۔ ان کے مضامین کے مطالعے سے ایک بات اور صاف ہو جاتی ہے کہ سر سید کے عہد میں دو نثری اسالیب مروج تھے۔ ا یک فارسی زدہ نثر دوسرا فورٹ ولیم کالج کے زیر اثر نثریں۔ لیکن سر سید احمد نے اپنا ایک الگ اسلوب اختیار کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

         ۱۸۵۷ ؁ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔ سر سید احمد خان ایک دور اندیش انسان تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ ٹھان لیا کہ انگریزی حکومت کو ملک میں امن و امان قائم کرنے میں اپنا تعاون پیش کریں گے۔ دوسری طرف ان کے دل میں یہ بات بھی تھی کہ جو لوگ غیر مطمئن ہیں انہیں بھی اطمینان حاصل کرانا ان کا اہم فریضہ ہے۔ اس لیے انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں پر جو الزام لگائے جارہے تھے۔ اس سے مبّرا کرانے کی غرض سے کتاب ’’ اسباب ِ بغاوت ہند‘‘ لکھی اور اس کتاب میں ثابت کیا کہ مسلمان حکومت کے دشمن نہیں ہیں۔ جِسے کرنل گراہم نے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر انگریز کے ظلم و تشددکم ہونے لگے۔ اب سر سید مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی طرف پیش رفت کرنے لگے جس کے نتیجے میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کا سنگ بنیاد پڑا۔ یعنی پہلے مدرستہ العلوم کی بنیاد رکھی پھر اس کا نام بدل کر ۱۸۷۶ ؁ء میں انگلو اوریئنٹل کالج رکھ دیا جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس طرح انہوں نے اپنی قوم و ملت کی فلاح و بہبود کی خاطر بے شمار خدمات انجام دئے۔ جسے ہرگز ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

تبصرے بند ہیں۔