طرحی غزل
احمد علی برقی ؔاعظمی
ہے ضروری اک موقر زندگانی کے لئے
’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘
…
رکھ سکے اب بھی نہ گر اپنی صفوں میں اتحاد
رہئے پھر تیار مرگِ ناگہانی کے لئے
…
اب ابابیلوں کے لشکر کا کریں مت انتظار
ہے عمل کی بھی ضرورت کامرانی کے لئے
…
آپ کے پیشِ نظر ہے گر بقائے باہمی
سوچئے اپنی حیاتِ جاودانی کے لئے
…
مُہرۂ شطرنج بننے سے نہیں کچھ فایدہ
کیا کریں گے جی کے اس دنیائے فانی کے لئے
…
مال و دولت اور حکومت پر جنھیں ہے اپنی ناز
قطرہ قطرہ وہ ترس جائیں نہ پانی کے لئے
…
اُن کی غیرت اور حمیت کا یہی ہے امتحاں
موردِ الزام ہیں جو بے زبانی کے لئے
…
سب دھرا رہ جائے گا دنیا میں یونہی تخت و تاج
دیں نہ دعوت وہ بلائے ناگہانی کے لئے
…
دوسروں کی دستگیری کا بھروسہ چھوڑ کر
اپنا گھر خود ہی سبنھالیں حکمرانی کے لئے
…
کیجئے رب سے دعائے خیر اپنے صبح و شام
نوجوانوں کی سلامت نوجوانی کے لئے
…
جاگ جائیں خوابِ غفلت سے حرم کے پاسباں
ورنہ رہ جائیں گے برقیؔ بس کہانی کے لئے
تبصرے بند ہیں۔