علامہ اقبالؒ کااصل کارنامہ!
سید ابوالاعلیٰ مودودی…ترتیب: عبدالعزیز
’’ایک تقریر جو21؍اپریل1938ء کو یوم اقبال کے موقع پر پنجاب یونیورسٹی ہال میں کی گئی‘‘
علامہ محمد اقبالؒ نے اسلامی تاریخ میں جو عظیم الشان اصلاحی کارنامہ انجام دیا ہے اگرچہ وہ بجائے خود نہایت قیمتی ہے لیکن اس کی قدروقیمت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ہم اس بات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ انہوں نے کن حالات میں یہ کارنامہ انجام دیا۔کسی مصلح کے کام کو جانچنے کے لئے صرف یہی دیکھنا کافی نہیں ہوتا ہے کہ اس نے کیاکام کیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ حالات کیاتھے جن میں اس نے وہ کام کیا۔
38 – 1924 ء تک کاہندوستان اور علامہؔ اقبالؒ
میں ایک مختصر طریقے سے آپ حضرات کے سامنے ماضی قریب کی تاریخ کاایک ورق کھولنا چاہتا ہوں ۔اس تاریخ سے میں خود بھی گزرا ہوں اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس کامشاہدہ کیا ہے۔ 1924ء سے 1938ء تک کازمانہ ہندستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا نازک ترین زمانہ تھا۔ اس وقت مسلمانوں نے تحریک خلافت میں اپنی تمام تر پونجی لگادی تھی۔ ان کو یہ احساس تھا کہ خلافت اسلامیہ کو بچانے کے لئے اور مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کو اغیا رکے قبضہ سے چھڑا نے کے لئے جو کچھ ہم سے ہوسکتا ہے وہ ہمیں کر گزرنا چاہئے۔ اس غرض کے لئے انہوں نے نہ اپنا مال خرچ کرنے میں کوئی کسراٹھارکھی اور نہ اپنی جانیں قربان کرنے میں کوئی دریغ کیا۔ وہ اس مقصد کیلئے اس حد تک گئے کہ جن ہندوئوں کے متعلق ان کوصدیوں سے تجربہ تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیاجذبات رکھتے ہیں انہوں نے ان کے ساتھ بھی محض اس امید پر اتحاد و تعاون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ کسی طرح سے ہم خلافت کے ادارے کو بچالے جائیں اور اپنے مقامات مقدسہ کواغیار کے قبضے سے چھڑالیں ۔ لیکن آخر کار اس ساری تگ و دو کا جو انجام ہوا وہ یہ تھا کہ جس خلافت کو بچانے کے لئے انہوں نے سردھڑ کی بازی لگائی تھی اس کی بساط انہی لوگوں نے پلٹ دی جن کی خلافت کے لئے مسلمان کوشش کررہے تھے اور جن مقامات مقدمہ کی حفاظت کے لئے وہ اپنی جان لڑارہے تھے انہی مقامات مقدسہ کے رہنے والے قومیت کے بت کے پرستار بن گئے اور انہوں نے آپس میں کشت و خون شروع کردیا۔ آپس میں عداوتوں اور لڑائیوں پراتر آئے اور وہ خود ہی مقامات مقدسہ پر اغیار کے مستقبل قبضے اور تسلط کا ذریعہ بن گئے۔ ایک طرف تو ہندی مسلمانوں کو خلاف کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی ساری کوششوں کا یہ نتیجہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا اور دوسری طرف جس کانگریس کے ساتھ انہوں نے اتحاد اور جن ہندوئوں کے ساتھ انہوں نے تعاون کیاتھا وہی ان پر ٹوٹ پڑے اور 1924ء سے ہندو مسلم فسادات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ اس سارے عرصے میں کانگریس کے لیڈروں کو ان لوگوں کی مذمت کرنے کی کبھی ہمت نہ ہوئی جو مسلمانوں کے ساتھ یہ مظالم کررہے تھے۔
گویا مسلمانوں کو اس موقع پر دوہری شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک طرف جن مقصد کے لئے جان لڑائی تھی وہ مقصد فوت ہوگیا اور دوسری طرف جن لوگوں سے اتحاد کیا تھا وہ مسلمانوں سے لڑنے اور ان کو تباہ کرنے کے درپے ہوگئے۔ سب سے زیادہ انہوں نے گاندھی جی پر اعتماد کیا تھا اور انہیں اپنا لیڈر بنایا تھا مگر خود انہی کو کبھی اس بات کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس مرحلے پر مسلمانوں پر ہندوئوں کی زیادتیوں کے خلاف زبان کھولتے۔ اس صورت حال کانتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں پر یکایک ایک سخت مایوسی طاری ہوگئی اور ان کی ہمتیں ٹوٹ گئیں ۔ میں اس زمانے میں ہونے والے ان سارے حالات کا شاہد ہوں اور بکثرت ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے سامنے یہ ساری تاریخ گزری ہے کہ کس طرح مسلمان ایک شدید مایوسی کاشکار ہوکر رہ گئے۔ اس کے ساتھ اس ساری لیڈر شپ سے مسلمانوں کااعتماد اٹھ گیا جنہوں نے تاریخ خلافت اٹھائی تھی اور اس میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیاتھا۔
اس طرح مسلمان مایوس بھی ہوگئے اور بے قیادت بھی رہ گئے۔ پوری قوم میں ایک ہمہ گیر اور شدید انتشار کی کیفیت رونماہوگئی۔ اس انتشار کی حالت میں مسلمان اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہے تھے کہ غیر مسلم ایک لیڈر کی لیڈر شپ میں پوری طرح سے متحد ہیں اور ہندوستان پر اپنے قبضے کو مکمل کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد میں مصروف ہیں اور دوسری طرف مسلمان بالکل اس قابل نہیں تھے کہ اس صورت حال کامقابلہ کرسکیں اور اپنے تحفظ کی کوئی تدبیراختیار کرسکیں ۔ایک طرف تویہ مصیبت تھی اور دوسری طرف عین اسی زمانے میں یہ فتنہ رونماہو اکہ مسلمانوں کے اندر الحادودہریت کی تحریکیں اٹھنی شروع ہوئیں اور اسلام کی حقانیت کو کھلم کھلا حملے کئے جانے لگے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کبھی اس طرح علانیہ الحادودھریت کی دعوت نہیں اٹھی تھی جس طرح کی اس زمانے میں اٹھی۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں کمیونزم کی اشاعت شروع ہوگئی۔
پورے پورے رسائل وجرائد اس غرض کیلئے نکلنے شروع ہوگئے کہ مسلمانوں میں الحادودہریت کی تبلیغ کریں ۔اخلاقی بے قیدی کی تعلیم مسلمانوں کو دی جانے لگی اور کھلم کھلادی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ حالت یہ ہوگئی کہ لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہونے لگی کہ کوئی شخص پڑھا لکھا بھی ہو اور وہ خدا کو بھی مانتا ہو اور نماز روزہ جیسے احکام کی پیروی بھی کرتا ہو۔انداز نظر اس حد تک بدلہ کہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اس کو اپنی حرکت پر شرمانا چاہیے ، جو نہیں پڑھ رہا ہے اس کو شرمانے کی ضرورت نہیں ۔ ایک طرف تو مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی و نظریاتی اختلال کایہ عالم تھا اور اس کے ساتھ جس مصیبت میں وہ گرفتار تھے وہ یہ تھی کہ ان کی کوئی قابل اعتماد قیادت اس وقت موجود نہیں تھی۔ جن لوگوں نے جنگ عظیم اول سے پہلے اور جنگ کے زمانے میں جس حد تک بھی ہوسکا تھا اسلام کے علم کو بلند رکھا تھا وہ یا تو خاموش ہوچکے تھے، یامسلمانوں کے اندر ان کے اثرو نفوذ کو نقصان پہنچ چکا تھا، انہوں نے اسلام کی دعوت کاراستہ چھوڑ کر قومیت اور وطنیت کی دعوت کاراستہ اختیار کرلیا تھا۔ اس عالم میں صرف اقبال وہ شخص تھا جس نے اس پوری صور ت حال کا مقابلہ کیا اور واقعہ یہ ہے کہ 1924ء سے 1938 ء تک چودہ سال کی مدت میں اسلامی تحریک اور اسلامی جذبے کے احیا کیلئے اور مسلمانوں میں اسلامی اور ملی شعور کو ابھارنے اور بیدار رکھنے کے لئے اگر کوئی سب سے بڑی طاقت کام کررہی تھی تو وہ اکیلے اقبالؒ کی طاقت تھی۔جولوگ بھی کلام اقبال پر نگاہ رکھتے اور انہوں نے ان کی نظم و نثر پڑھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اقبال نے ہندی مسلمانوں کے گرتے ہوئے وقار کو بچانے اور انہیں اپنے مٹتے ہوئے ملی تشخص کو بچانے کیلئے کس طرح آمادہ کار کیا اور اس غرض کے لئے انہوں نے نظم و نثر دونوں کی قوت سے کام لیا اقبال کے کارنامے کو ہم مختلف عنوانات کے تحت بیان کرسکتے ہیں ۔
مغربی تہذیب پر ضرب کار
سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے مغربیت اور مغربی پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علمائے دین اور اہل مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کرنظرانداز کردیاجاتا تھا اور کیاجاسکتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفہ اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہل علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے توواقف تھے لیکن مغربی علوم،مغربی فلسفے، مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ان کے برعکس اقبالؒ وہ شخص تھا کہ وہ اس سے زیادہ مغرب کو جانتا ہے اور اس سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف ہے اس لئے جب اقبال نے مغربیت مغربی مادہ پرستی،مغربی فلسفے اور مغرب افکار پر چوٹ لگائی تو مسلمانوں پر مغرب کی جو مرعوبیت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی او رواقعہ یہ ہے کہ اس مرعوبیت کو توڑنے میں اکیلے اقبال کاکارنامہ سب سے بڑھ کر ہے۔
اگرچہ علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی جسمانی غلامی توڑنے کے لئے بھی کوشش کی اور ان کو آزادی کا سبق بھی دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کاذہن اگر غلام ہو تو خواہ اس کاجسم آزاد بھی ہوجائے تب بھی وہ قوم آزاد نہیں رہ سکتی۔اس وجہ سے اقبالؒ نے مسلمانوں کی اس ذہنی غلامی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جو ان پر طاری ہو گئی تھی۔ اقبالؒ کا یہ خودی کافلسفہ جس کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی چیستاں یامعمہ ہے ، یہ درحقیقت اس بات کے لئے تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں کہ وہ کیا ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو بھول گئے تھے ان کو اپنی تاریخ سے شرم آتی تھی، وہ اپنی روایات، اپنی تہذیب، اپنے عقیدے اور اپنی اخلاقی اقدار کے بارے میں شدید احساس کمتری کاشکار ہوچکے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر دنیا کی تاریخ میں کوئی قابل قدر چیز ہے تو وہ صرف اہل مغرب کی پیش کی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ان کا اپنا سرمایہ کیا ہے۔ اس موقع پر اقبال مرحوم نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ تم دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب رکھتے ہو تمہارے پاس دنیا کا بہترین نظام حیات ہے اور تم سب سے زیادہ صحیح اور اعلیٰ اخلاقی اقدار رکھتے ہو۔ اپنی خودی کو پہچانو اور اپنے آپ کو جانو کہ تم کیا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو کھودیا ہے اور اپنی حقیقت کو گم کردیا ہے۔اپنے قومی تشخص کو سمجھو اور اپنی تہذیبی سربلندی اس کے ساتھ اقبالؒ نے مسلمانوں کے اند ریہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور اذکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کرسکتا ہو۔
انہوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی اور ابدی اصولوں کاحامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہوسکتا اس کے اصول ہر زمانے میں یکساں قابل عمل ہیں ۔اگرچہ اسلام کی حقانیت کی شہادت اس وقت علمائے دین منبروں پر بھی دے رہے تھے او رمدرسوں میں بھی لیکن جب اس مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائے ہوئے اور مغربی فلسفے پر عبور رکھنے والے آدمی نے اٹھ کر اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر ا س کانہایت گہرا اورپائیدار اثر پڑا۔ اس وقت مختلف قسموں کی یلغار کے درمیان مسلمانوں کی جو نسل گمراہ ہورہی تھی اس کو بچانے کیلئے اہل منبر وہ کام نہیں کرسکتے تھے جو مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی علوم میں مہارت کاملہ رکھنے والا یہ آدمی انجام دے سکتا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ جب اس نے ایک باوقارو اعتماد اور مجتہدانہ شان کے ساتھ اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو نئی نسل کے اندر ایک نیااسلامی شعور پیدا ہوا۔
وطنی قومیت کی تردید
اس کے ساتھ علامہ اقبال نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے وطنی قومیت اور قوم پرستی پر ایک شدید ضرب لگائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انہوں نے قوم پرستی، نیشنلزم اور وطنی قومیت پربروقت ضرب کاری نہ لگائی ہوتی تو آگے چل کر مسلمانوں کو کانگریس میں جذب کرنے کے لئے جو تحریک اٹھی تھی اس سے مسلمانوں کا بچ جانا محال تھا۔ ایسے حالات میں کہ جب علمائے دین تک اٹھ کرمسلمانوں کو وطنی قومیت کا درس دینے لگے تھے اور مسلمانوں کے بڑے بڑے متقی علما تک مسلمانوں سے یہ کہنے لگے تھے کہ وطنی قومیت سے تمہارے دین کو کوئی خطرہ نہیں ۔ اس موقعے پر یہ صرف اقبال تھا جس نے پوری شدت کے ساتھ اس تباہ کن تصور کے تاروپود بکھیرا، اور لوگوں کو پوری قوت کے ساتھ یہ بتایا کہ وطن بھی ایک بت ہے اور وطن کی پرستش کرنا بھی ویسا ہی شرک ہے جیسا کہ کسی بت کی پرستش کرنا شرک ہے۔ اگر اقبال نے یہ تعلیم بروقت نہ دی ہوتی تو بعد میں کانگریس نے رابطہ عوام (Mass Contact) کی جو تحریک شروع کی تھی اور جس میں علما اوراشتراکی حضرات بھی شریک تھے، وہ تحریک مسلمانوں کو ہندوئوں کے اندر اس طرح سے گھلادیتی جیسے کہ نمک پانی کے اندر گھل جاتا ہے۔ لیکن اقبال نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ قومیت،وطن اور زبان سے نہیں بنتی ہے بلکہ قومیت دین اور عقیدے سے بنتی ہے۔ اس نے مسلمانوں میں اس شعور کو بیدار کیا کہ تم ایک عقیدہ اور ایک تہذیب رکھنے والی قوم ہو،تمہاری قومیت ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جن کی تہذیب اور عقیدہ و مسلک تم سے الگ ہے۔
وحدت ملی کااحساس
اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس بھی ابھارا کہ تمام دنیا میں ملت اسلامیہ ایک وحدت ہے اور اس کو ایک وحدت ہوناچاہئے۔ اس طرح انہوں نے بیک وقت دوکام کئے۔ باہر کی دنیامیں مسلمان جس طرح قوم پرستی میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے سے کٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے اور جس طرح ترکوں اور عربوں کے درمیان ایک المناک کشمکش برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں شرق اوسط پر جو تباہی آئی اور تمام ممالک اسلامیہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے وہ اس اس قوم پرستی کانتیجہ تھا۔ جس کی تبلیغ و اشاعت عیسائیوں نے عربوں اور ترکوں کے درمیان کی تھی۔ایک طرف تو اقبال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دی کہ تم ایک ملت واحدہ ہواور جس قوم پرستی میں تم مبتلا ہو یہ ایک بالکل غلط اور مہلک تصور ہے اور دوسری طرف انہوں نے ہندی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ تم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قوم اور ایک ملت ہو۔ تمہارا کسی دوسری قوم میں جذب ہونا سراسر ایک باطل نظریہ ہے۔ اگر اقبال نے بروقت یہ اقدام نہ کیاہوتا اور اسلامی قومیت کے صحیح تصور کی تبلیغ کرکے مسلمانوں کے اندر اپنی اسلامی قومیت کااحساس پیدا نہ کردیا ہوتا تو آج اس ملک کا کہیں وجود نہ ہوتا…‘‘آج اگر ہندوستان میں مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے اپنے تہذیبی وجود پر اصرار کررہے ہیں تو وہ بھی اسی تعلیم کی وجہ سے کررہے ہیں جو اقبال نے اس وقت دی تھی اور یہ ملک بھی اسی تعلیم کی وجہ سے معرض وجود میں آیا جس نے مسلمانوں میں اس احساس کو بیدار کردیا کہ وہ ایک قوم اور ایک ملت ہیں ۔
دین و سیاست کے متعلق باطل تصور کی بیخ کنی
اقبال نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ دین اور سیاست کی علیحدگی اور دنیا و دین کی تفریق کا جو تصور مغرب سے آکر مسلمانوں میں پھیل رہا تھا اور جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اہل دین کو سیاست سے کیا تعلق اور دین کو سیاست میں گھسیٹنے کاکیا کام،اقبال نے اس باطل تصور کاٹھیک وقت پر مقابلہ کیا۔ اس نے دین بے سیاست کی بھی برملامذمت کی اور سیاست بے دین کو بھی علانیہ مذموم قرار دیا۔سیاست بے دین کے متعلق اقبال کاایک مصرع ایسا ہے کہ اس موضوع پر تمام دنیا کا لٹریچر ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف ۔ انکاکہنا ہے کہ
جداہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اگر آپ اس موضوع پر دنیا بھر کی کتابیں پڑھ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس مصرع میں ان کا سب سے خلاصہ ا نکال کر رکھ دیاگیا ہے۔اقبال نے ان الفاظ سے دراصل یہ بات ذہن نشین کی ہے کہ جب تم سیاست کو دین سے الگ کرتے ہو تو اس کانتیجہ سوائے وحشت و بربریت اور ظلم و ستم کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ سیاست صرف اسی صور ت میں ٹھیک رہ سکتی ہے جب کہ دین اس کو صحیح راستے پر قائم رکھنے کیلئے ایک رہنما قوت کی حیثیت سے اس کے ساتھ موجود ہو۔
اسی طرح سے مسلمانوں کے دماغوں میں جو یہ خیال جاگزیں ہوچکا تھا کہ اہل دین کاکام توبس اللہ اللہ کرنا ہے یامسجدوں او رمدرسوں میں فقط قرآن و حدیث پڑھنا ہے، ان کاسیاست سے بھلا کیا تعلق۔ اس غلط تصور پر بھی اقبال نے ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اس کو بھی ایک مصرع میں بیان کردیا اور واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنا کچھ لکھاجاسکتا ہے وہ سب ایک طرف اور ایک وہ مصرع ایک طرف … اقبال کہتا ہے کہ ؎
عصانہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
اس ایک مصرع میں یہ سب حقیقت کھول دی گئی ہے کہ اگر دین کے پاس اپنے عقیدے اور نظام کو نافذ کرنے کیلئے طاقت نہیں ہے تو طاقت جس شخص یا گروہ یانظام کے پاس ہے وہ دنیا کو اپنے راستے پر ہانک کرلے جائے گا۔ آپ کیلئے کلیمی کرنے کا کیاموقع باقی رہے گا اور وہ کلیمی کہاں بروئے عمل آئے گی۔اقبالؒ نے پورے زور کے ساتھ یہ بات بھی لوگوں کے ذہن نشین کی کہ موجودہ زمانے کے ازم انسانیت کے دکھوں کامداوا نہیں ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جتنا ظلم و ستم ، فسادوغارت گری او رانسانیت کیلئے آلام ومصائب رونماہوئے ہیں وہ سب انہی ازموں کاکیادھرا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے جس طرح ان ازموں میں سے سرمایہ داری کی مذمت کی ہے اسی طرح سے اس نے اشتراکیت کی بھی مذمت کی ہے۔ ان کاآخری پیغام جو انہوں نے اپنی وفات سے دوڈھائی مہینے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے دیا تھا اور غالباً ان کو یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ آخری پیغام دنیا کو دے رہے ہیں ۔
اس میں انہوں نے بالکل وضاحت کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ اس وقت انسانیت جن مصائب میں گرفتار ہے اور جس ہلاکت و تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے وہ سب ان ازموں کی وجہ سے ہے۔ان کے اس پیغام پر مشکل سے دو سال گزرے تھے کہ وہ تباہی جنگ دوم کی صورت میں دنیا پر مسلط ہوئی اور اس کے بعد بھی اس کاخطرہ مستقل طور پر موجود ہے، انہوں نے وضاحت کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ انسانوں کے یہ خود تراشیدہ ماڈرنازم ہی دراصل انسان کے مصائب کاسرچشمہ ہیں اور انہی ازموں نے اس وقت انسانیت کومصیبت عظمیٰ میں مبتلا کیا ہے اور اس کے لئے تباہی اور ہلاکت کی راہیں ہموار کی ہیں ۔انہوں نے اپنے اس پیغام میں اشتراکیت ، سرمایہ داری،ملوکیت، آمریت،نازیت،فسطائیت سبھی کی مذمت بھی کی ہے اور انہیں انسانیت کے لئے مہلک قرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ اقبالؒ نے مثبت طور پر یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی ہے کہ تمہاری مصیبتوں اور مسائل کااگر کوئی حل ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرو، اور اپنی زندگیوں پر اسلام کے آئین کو نافذ کرو، انہوں نے ۱۹۳۷ء میں محمد علی جناح کے نام جو خط لکھا تھا اس میں واضح طور پر بتایا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کااگر کوئی حل ہے تو وہ صرف اسلامی آئین کے نفاذ میں مضمر ہے۔یہ وہ کارنامہ تھا جو اقبال نے اپنی زندگی میں انجام دیا۔ اب اس کے مقابلے میں اس الزام کی حقیقت دیکھئے کہ اقبالؒ خدانخواستہ سوشلسٹ تھے۔
کسی آدمی کی فکر اور اس کے نقطہ نظر کو چانچنے کیلئے اس کی کسی عبارت سے کوئی ایک آدھ فقرہ سیاق و سباق سے الگ نکال کر اس سے کوئی نتیجہ اخذکرنا درست نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص بحیثیت مجموعی کسی نظام فکر کیلئے برسوں کام کرتا رہا۔ کس خیال اور نظرئیے کو زندگی بھر لوگوں کے ذہن نشین کرتا رہا اور فی الجملہ اس نے کیا کارنامہ انجام دیا۔ اس لحاظ سے اگر اقبال کے سارے کام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اسلام کاداعی تھا کسی دوسرے نظرئیے اور نظام کاداعی نہ تھا۔ وہ اس بات کا ہرگز قائل نہیں تھا کہ اسلام کے سوا کسی چیز کو یا اسلام کے ساتھ کسی چیز کو اختیار کرکے ہماری نجات ہوسکتی ہے۔ اب یہ ایک عجیب لطیفہ ہے کہ جن لوگوں نے اقبال کی زندگی میں اس کے اس کام کی وجہ سے اس رجعت پسند قرار دیا تھا اور اس بناپر قرار دیاتھا کہ یہ شخص ایک صدیوں پرانے نظام کی طرف لوگوں کو بلارہا ہے اور اس کی بنیاد پر لوگوں و جمع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔آج وہی لوگ اس کی وفات کے بعد کہہ رہے ہیں کہ وہ اسلام کانہیں بلکہ سوشلزم یااسلامی سوشلزم کاقائل تھا۔ یعنی پہلے اس شخص کو جب کہ اس کے اصلی خیالات سامنے آئے اس بنا پر رجعت پسند قرار دیا کہ اس کے دلائل و نظریات کاتوڑ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا اور جس نظرئیے اور نظام کی طرف وہ ان کو بلارہا تھا اس کے یہ لوگ دشمن تھے ، لیکن اس کے بعد جب دیکھا کہ اس شخص کی گرفت (Hold) تعلیم یافتہ طبقے کے دماغوں پر بہت مضبوط ہوچکی ہے اور اس کی فکر قبول عام کی سندحاصل کرچکی ہے اس لئے اب اس کی مذمت نہیں کی جاسکتی تو انہوں نے کہا کہ اچھا اگر اس کو Condemnنہیں کرسکتے تو اس کو Convertکرو اور کہو کہ وہ تو سوشلزم کاقائل تھا اور یہ سوشلزم بھی اقبال کے کلام سے برآمد کس طرح کیاجاتا ہے ذرا ایک نظر ایس بھی دیکھ لیجئے۔
اس کامشہور شعر ہے کہ ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہرگوشۂ گندم کو جلادو
اول تو آپ یہ دیکھیں کہ جس سلسلہ کلام میں انہوں نے یہ بات فرمائی ہے اس کے اندر اس شعر کایہ مفہوم نہیں ہے کہ اسے اشتراکی گوریلو اٹھو اور لوگوں کے کھیتوں کو جلادو۔ سلسلہ کلام یہ تھا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرما رہا ہے کہ دنیا میں جو ظلم و ستم برپا ہے یہ ہمارے عذاب کو دعوت دے رہا ہے اور اگر لوگوں کے درمیان انصاف قائم نہ کیاگیا تو تمہیں یہ اجازت بلکہ حکم ہے کہ ان سب کھیتوں کو جلادو جن سے دہقان کو روزی میسر نہیں آتی گویا یہ فرمان آدمیوں کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ بات شاعر کے تخلیل کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہی تھی۔
لیکن فرض کیجئے کہ اگر اس سلسلہ کلام سے صرف نظر بھی کرلیا جائے تب بھی شعر کایہ مفہوم اخذ کرنا صحیح نہیں ۔ ایک شاعر کسی مضمون کو ادا کرنے کے لئے جب کسی بات پر زور دیتا ہے تو وہ مبالغے کی زبان استعمال کرتا ہے۔ یہ سخن فہمی سے آدمی کی محرومی کی علامت ہے کہ وہ شاعر کے کسی شعر کو مفتی کافیصلہ سمجھ بیٹھے مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ غالبؔ نے کہا تھا ؎
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
اب کیا واقعی غالب کے پیش نظریہ بات تھی کہ اس کا ممدوح کروڑوں سال زندہ رہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے پیش نظریہ چیز نہیں تھی بلکہ اس کامقصد اس کے حق میں درازی عمر کی دعا کرنا تھا۔ اس بات کو ادا کرنے کیلئے اس لئے مبالغے کی زبان استعمال کی اور مبالغہ شعر میں حسن پیدا کرتا ہے۔ اگر اقبال اس موضوع پر کوئی تقریر کرتے کہ لوگوں کے اندر بے انصافی پائی جاتی ہے اور ان کے حقوق پامال کئے جارہے ہیں اس لئے اس ظلم اور بے انصافی کاآزادہونا چاہیے تو وہ کبھی اس مقصد کے لئے لوگوں کو یہ نہ کہتے کہ جائو اور جاکر کھیتوں کے ہر خوشہ گندم کو جلادو۔ اور بالفرض اگر کوئی شخص جاکر ان سے کھیتوں کوجلانے کی اجازت مانگتا تو وہ کبھی اس کی اجازت یا حکم نہ دیتے۔شعر کی زبان میں یہ بات سمجھانے کیلئے کہ جہاں فی الواقع لوگوں کے ساتھ انصاف نہ ہورہا ہو وہاں لوگوں کو سبق سکھانے اور سزا دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مبالغے کی زبان اور شاعرانہ طرز ادا سے کام ضرور لے لیا لیکن یہ کسی مفتی یا قاضی کا فیصلہ نہیں تھا۔
اقبال اور عدل اجتماعی
اسی طرح اگر اقبالؒ نے کبھی اپنی کسی تحریر میں اسلامی سوشلزم کالفظ استعمال کیا تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اقبال نے اسلامی سوشلزم کاکوئی فلسفہ ایجاد کیا تھا اور اور اپنی ساری عمروہ اس فلسفے کی تبلیغ کرتے رہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ آگے چل کر بعض خاص لوگ کسی لفظ کو کیامعنی پہنانے والے ہیں ۔اس وقت اقبالؒ نے جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ معاشرتی اور اجتماعی انصاف Social Justiceکے لئے کسی کو سوشلزم کی صرف جانے کی ضرورت نہیں یہ سب کچھ اسلام میں بھی توموجود ہے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ
اسلام ہی میں موجود ہے۔ اس غرض کیلئے اگر کسی وقت انہوں نے یہ لفظ استعمال کربھی لیا۔ جیسا کہ کسی اور نے بھی کبھی یہ لفظ استعمال کرلیا ہوگا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ ان کاکوئی مستقل فلسفہ یانظریہ تھا۔ آدمی کافلسفہ یا نظریہ وہ ہوتا ہے جس کی تبلیغ وتلقین اور اس کی تشریح و توضیع میں وہ اپنی قوتیں کھپاتا ہے۔اقبالؒنے تبلیغ میں تو اپنی ساری قومتیں اسلام کیلئے کھپائیں اور سارازور لوگوں کو اس بات کی طرف بلانے کیلئے صرف کیا کہ تم اسلام کے فلسفہ زندگی او رنظریہ حیات کو اختیار کرو۔ لیکن اگر اٹھ کر اس کی طرف یہ بات منسوب کرلی جائے کہ وہ سوشلزم کاقائل تھا تو اس سے زیادہ بے انصافی کی بات کیا ہو سکتی ہے۔اگر اقبال اسلامی سوشلزم کے قائل ہوتے تو اس کے اصول اور تفاصیل بیان کرتے اور بتاتے کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے اور پھر لوگوں کو اس کی تبلیغ و تلقین بھی کرتے مگر اس بات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی ایسا کیا ہو۔ اس لئے یہ ایک صریح علمی بدیانتی Intelectual Dishonesty ہے کہ کوئی آدمی کسی صاحب فکر کی طر ف ایک ایسا نظریہ منسوب کرے جو درحقیقت اس کا ہے نہیں ۔
سوشلزم یاکسی دوسرے غیر اسلامی نظریہ و فکر کے برعکس اقبالؒ نے تو بری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تصور دیا کہ محض سیاسی آزادی یااقتصادی بہبود ہی تمہارا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلام کی حفاظت تمہارا اصل مقصد ہے۔اس نے بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی تھی کہ ہمارا عقیدہ ، ہماری تہذیب، ہماری روایات اور ہماری اخلاقی اقدار ہی ہمارے لئے اصل چیزیں ہیں ۔ محض روٹی یا زمین کاٹکڑا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کیلئے ایک مسلمان جئے یا مرے۔ اقبال نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کو ایک وطن صرف اس لئے چاہیے کہ وہ وہاں اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کرسکین۔ان کی ۱۹۳۰ء کی تقریر سے جس میں انہوں نے ایک وفاق کی ملک کا تخیل پیش کیا تھا۔ یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں اگر کوئی چیز اہم تھی تو صرف یہ کہ کسی طرف اسلام اور اہل اسلام کو سربلندی نصیب ہو۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمان اپنی تہذیب پر قائم نہیں رہ سکتے اس لئے انہوں نے مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی اسلامی تہذیب آندہ ہے اس کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ اس سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد محض کسی ایسے لفط یا اصطلاح کی بنیاد پر جو انہوں نے اتفاقاً کسی موقعے پر کسی دوسرے سیاق و سباق(Context) میں کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کی ہو۔ اس کی طرف کسی خاص نظریئے کو منسوب کرنا صریح بدیانتی بھی ہے اور دنیا کو دھوکا اور فریب دینا بھی ہے ۔
تبصرے بند ہیں۔