علامہ شبلی نعمانیؒ کامؤرخانہ امتیاز: تفہیم وتوسیع (آخری قسط)

 اس حصے میں خلافتِ اسلامیہ پراجمالی روشنی ڈالنے کے بعدبنوامیہ و بنوہاشم کی باہمی آویزش اور پھربنوعباس کی سلطنت کے آغازکوبیان کیاگیاہے،اس کے بعدمامون کی پیدایش،تعلیم و تربیت،اس ضمن میںاس کی بے مثال ذہانت و فطانت اور حاضردماغی کے مختلف واقعات،ہارو ن رشیدکامامون پرحد درجہ اعتمادواعتبار،مامون کی ولی عہدی،مامون و امین کی جانب سے لکھے جانے والی دستاویزات،مامون و امین کے درمیان برپاہونے والے سیاسی اختلافات، نزاعات، معرکے،مامون کی افواج کے ذریعے بغدادکامحاصرہ،امین کاقتل اور مامون کاتختِ خلافت پربراجمان ہونا،مامون کے دورِحکومت میں رونما ہونے والی مختلف بغاوتوںکاذکراورمامون کاان سے بخوبی نمٹنا،مامون کے عہدکی فتوحات اور اس کی وفات کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔دوسرے حصے میںعہدِ مامونی کے سیاسی حالات،سماجی انتظامات،مامون کی نجی و سیاسی زندگی کے نشیب و فراز،اس کے خصائص و عادات،اس کی علمی حیثیت،فکری مبلغ،علم حدیث،تفسیر،فقہ،ایام العرب،ادب،انساب،فلسفہ،شعر وشاعری،ریاضی ،فنونِ لطیفہ وغیرہ میںمامون کی مہارت اوراس کے طرزِزندگی پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،چوںکہ مامون مصنف کاہیروہے؛اس لیے انھوںنے اس کی زندگی کے ہر واقعے اور ہر پہلو کونہایت وضاحت اوردلائل کے ساتھ پیش کیاہے اوربسااوقات توایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ اس ہیروکی خامی کوبھی اپنے زورِبیان اور قوتِ استدلال سے خوبی بناکر پیش کررہے ہیں۔

اس حصے کا آغاز بغداد -جوخلفاے بنوعباسیہ کادارالخلافہ تھا-کی سیاسی،سماجی،علمی و جغرافیائی حیثیت پر گفتگوکی گئی ہے،اس کے بعدمامون کے زمانے میں حکومت کے ذرائعِ آمدنی کی تفصیلات کابیان ہے،ملکی آبادی میں امن و امان کی فضاکاعام ہونا،مامون کی بیدارمغزی اور رعایاکے احوال و کوائف سے باخبری،عدل وانصاف کے قیام پر زوراور اقلیتوںکے حقوق کی رعایت وغیرہ کو بیان کیاگیاہے اوراس ضمن میں کئی ایسے واقعات ذکرکیے گئے ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ مامون نہایت ہی قابل اور عوامی مفادات کومدنظررکھنے والاحکمران تھا،اس کی انصاف پسندی اور عوام کی بے خوفی کے حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکرہے:

’’ایک دن ایک شکستہ حال بڑھیانے دربارمیں آکرزبانی یہ شکایت پیش کی کہ’’ ایک ظالم نے میری جائدادچھین لی ہے‘‘مامون نے کہاکہ’’ کس نے اوروہ کہاںہے؟‘‘تواس نے اشارہ سے بتادیاکہ’’ وہ آپ کے پہلومیں ہے‘‘۔مامون نے دیکھاتوخوداس کا بیٹاعباس تھا،وزیر اعظم کوحکم دیاکہ عباس کوبڑھیاکے برابرلے جاکر کھڑاکردے اوردونوںکے اظہارسنے،شہزادہ عباس رک رک کرآہستہ گفتگوکرتاتھا؛لیکن بڑھیاکی آوازبے باکی کے ساتھ بلندہوتی جاتی تھی۔ وزیر اعظم نے روکاکہ’’ خلیفہ کے سامنے چلاکر گفتگوکرناخلافِ ادب ہے‘‘مامون نے کہا’’نہیں! جس طرح چاہے،آزادی سے کہنے دو، سچائی نے اس کی زبان تیزکردی ہے اور عباس کوگونگابنادیاہے‘‘۔آخرمقدمہ کافیصلہ بڑھیاکے حق میں ہوااورجائدادواپس دلادی گئی‘‘۔(ص:113)

   مامون نہایت ہی ذکی الحس،بیدارمغزاور دوراندیش حکمراںتھا،وہ اپنے عاملوںاور گورنروںکومختلف مواقع پر جوفرامین لکھ کربھیجاکرتاتھا،وہ وقتی احکام ہونے کے علاوہ حکمت و تدبرکے عمدہ نمونے ہواکرتے تھے،علامہ نے اس کے بعض تاریخی فرامین کوذکرکیاہے۔اس حصے میںمامون کے عہدمیں ہونے والی بغاوتوںکے اسباب وعوامل پر بھی تفصیلی گفتگوکی گئی ہے،اس ضمن میں شبلی نے جن اسباب کی نشان دہی کی ہے،کوئی ضروری نہیں کہ ہر مؤرخ ان سے متفق ہو ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ شبلی نے نہایت تحقیق کے بعدان کاذکرکیاہے اورمعقول توجیہات پیش کی ہیں۔مامون کے علمی ذوق اور علومِ اسلامیہ کے علاوہ فلسفہ و حکمت کے حصول وترویج میں اس کے حد درجہ انہماک کوتفصیل سے بیان کیاگیاہے،وہ خودبھی ایک بڑاعالم فاضل انسان تھااور حکمراںہونے ، رات دن انتظاماتِ سیاسی میں مصروف رہنے کے باوجودعلماوفضلاکی مجلسیں برپاکرواتا،ان کے ساتھ مذاکرے کرتا،مختلف مسائل و موضوعات پرماہرینِ علوم و فنون سے کتابیں اور تصنیفات تیارکرواتااور اہلِ علم کی حددرجہ قدرکرتاتھا،اس ذیل میں علامہ نے مستندحوالوںسے مامون کی علمی قابلیت اورذہنی استحضارکے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔

 مامون گوشبلی کاہیروہے اوروہ اس کے کمالات اور محاسن کودل کھول کربیان کرتے ہیں،مگر چوںکہ وہ ایک غیر جانب دارمؤرخ ہیں،سوانھوںنے اس کی خوبیوںکے دوش بدوش اس کی شاہانہ خامیوں،بے جا شان وشوکت اور عیش وطرب کی مجلسوںکوبھی تفصیل سے بیان کیاہے،جہاںوہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک خوش اخلاق انسان تھا،وہیں اس کے اندرروایتی شاہانہ چونچلے بھی پائے جاتے تھے،مثلاً یہی کہ اس کی ایک شادی میںکل پانچ کروڑدرہم خرچ ہوئے، مسلسل اُنیس دنوںتک بارات کی خاطرداری ہوتی رہی،مہمانوںپرمشک و عنبرمیں بسائی ہوئی گولیاں نچھاورکی گئیں،جوکاغذکے ٹکڑوںمیں ملفوف تھیں اور ان پرغلام،باندی،نقد،املاک،خلعت،اسپِ خاصہ اور جاگیروغیرہ کی خاص تعداد لکھی ہوئی تھی اوریہ عام حکم تھاکہ جس کی گولی پرجولکھاہو،اسے اسی وقت دلادیاجائے،مامون کے لیے جوفرش بچھایاگیا،اس میں سونے کے تاراستعمال کیے گئے تھے اور گوہرویاقوت سے مرصع تھا،مامون جب اس پر براجمان ہوا، تواس کے پاؤںپربیش قیمت موتی نچھاورکیے گئے،زفاف کی شباب جب دولہادولہن بیٹھے،تولڑکی کی دادی نے دونوںپرہزارقیمتی موتی نچھاورکیے۔یہ ساری تفصیلات خود شبلی نے مختلف تاریخی کتب کے حوالوں سے بیان کی ہیں،جوبظاہرکسی کوبھی اچھی نہیں لگیں گی اوراس فضول خرچی کوکوئی بھی نگاہِ تحسین سے نہیں دیکھ سکتا،خودشبلی کوبھی اس کا بخوبی احساس ہے،مگرمامون بہرحال ان کاہیروہے؛اس لیے لکھتے ہیں:

’’مامون کی ایک شادی کی تقریب جس شان وشوکت سے اداہوئی،وہ اس عہدکی مسرفانہ فیاضی اور حشمت و دولت کاسب سے بڑھاہوانمونہ ہے۔عربی مؤرخوںکا دعویٰ ہے کہ گذشتہ اور موجودہ زمانہ اس کی کوئی نظیرنہیں لاسکتا،ہماری محدودواقفیت میں اب تک کسی نے ان کے اس فخریہ ادعاپراعتراض کرنے کی جرأت نہیں کی ہے‘‘۔(ص:151)

سیدصباح الدین عبدالرحمن نے شبلی کے اس بیان کی معقول مدافعت کی ہے:

’’(شبلی)اس مسرفانہ فیاضی سے بیزاری کااظہارکرکے اس کی تفصیل کونظراندازکردیتے،تویہی ان کے لیے مناسب ہوتا،مگرایک مؤرخ کی حیثیت سے وہ اس موقع کی شان وشوکت اور حشمت سے متاثرہوئے،تواس سے صرفِ نظرکرنا بھی صحیح نہیں تھا‘‘۔(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر، معارف، شمارہ: جنوری1985،ص:32)

     اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ نے مامون کی نجی زندگی کے بھی ہر پہلوپر کھل کرلکھاہے اور حتی الامکان مؤرخانہ غیرجانب داری کا بھی ثبوت دیا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی مامون جومیدانِ جنگ میں ایک جری و بہادرانسان اور علمی مجلسوںمیں باریک سے باریک نکتوںکوحل کرنے والاشناورہے،وہی  عیش وطرب کی مجلسوںکابھی صدرنشین بناہواہے۔اس بارے میں شبلی لکھتے ہیں کہ آغازِ خلافت میں بیس مہینے تک وہ نغمہ و سرودسے بالکل محترزرہا،مگر چند روز کے بعد شوق پیداہوا،مگراتناہی کہ احتیاط کے ساتھ کبھی کبھی سن لیتاتھا،یہ حالت بھی چاربرس تک قائم رہی،پھرتوایسی چاٹ پڑگئی کہ ایک دن ان صحبتوںکے بغیر بسرنہیں کرسکتاتھا۔اس سلسلے میں عام انسانی فطرت کوسامنے رکھتے ہوئے شبلی کاکہناہے:

’’لیکن اگر انصاف سے دیکھیے تواس میں تعجب کی کیابات ہے،آزادی،حوصلہ مندی،لطافتِ طبع،جوشِ شباب ہمیشہ زہدکی حکومت سے باغی رہتے آئے ہیں‘‘۔(ص:155)

اس ضمن کے سارے واقعات شبلی نے اس دل آویزی کے ساتھ بیا ن کیے ہیںکہ ان میں مخصوص قسم کی طرب ناکی وسحرانگیزی پیداہوگئی ہے۔بالکل اسی طرح جب وہ غم و اندوہ کے مناظروواقعات کی نقشہ کشی کرتے ہیں،توایسامعلوم ہوتاہے کہ لخت ہاے جگرکوبکھیرکررکھ دیاہے ،یقیناً یہ اسلوب ِشبلی کا امتیاز ہے، سید صباح الدین عبدالرحمن نے لکھاہے:

’’مولانانے اس(مامون)کی وفات کی سوگواری کی جودردناک تصویر کشی کی ہے،اس میں ان کے قلم کاوہی زورہے،جومامون کے شبستانِ عیش کی مرقع آرائی میں ہے،فرق صرف غمناکی اور نشاط انگیزی کاہے۔مولانانے اپنے زمانے کی کم مایہ اردونثرنگاری میں اپنے قلم کاجواعجازدکھایاہے،اس کی مثال اردوکے ان کے معاصر اہلِ قلم کے یہاں کم ملے گی‘‘۔(معارف،جنوری 1985،ص:41)

    شبلی نے مامون کے مذہبی افکاروخیالات کوبھی موضوعِ گفتگوبنایاہے؛لیکن ان پرکھل کرنہیں لکھاہے،شیعیت کی طرف اس کے رجحان،متعہ کے جوازکی عام منادی اور قرآن کے حادث ہونے کے عقیدے کی اشاعت وترویج پر اصراراوراس سلسلے میں علماوائمۂ وقت کے ساتھ کی جانے والی زیادتیاں یقیناً مامون کے شدیدترین فکری انحرافات ہیں۔اہلِ بیت سے اس کی محبت یقیناً قابلِ تعریف اورلائقِ تقلیدہے،اس نے بنوہاشم کے ساتھ جس دادودہش کا معاملہ کیا،اس میں بھی کسی کواشکال نہیں ہوسکتا،نبی پاکﷺسے اس کوجوگہری عقیدت ومحبت تھی،وہ بھی قابلِ رشک ہے؛لیکن برامکہ کی صحبت اور پھرفضل بن سہل جیسے اعلیٰ درجے کے درباری ارکان جومتشیع تھے اور پھربعدمیں معتزلہ کی رسائی وحاشیہ نشینی نے اسے اپنے موروثی عقائدونظریات سے بہت حد تک دورکردیاتھا،یہ چیزاچھی تھی کہ اس کی علمی انجمن میں مسلمانوںکے علاوہ عیسائی،یہودی،مجوسی اور ہندوہر مذہب کے ماہرینِ فن جمع تھے،جومختلف علوم وفنون کی تحقیق ،تدقیق و ترجمہ نگاری پرمامورتھے،مگرنظریاتی اور فکری طورپرمامون کادوسروں سے متاثرہوجانااندوہ ناک تھااوراس کے نقصانات خودسنی مسلمانوں کو اٹھانے پڑے،شبلی نے صراحت کی ہے کہ مامون کامتعہ کے عام جوازکااعلان کروانا’’شیعہ پن کے جوش‘‘میں تھا،جوبالآخرقاضی یحی بن اکثم کے جرأت مندانہ مکالمے کی وجہ سے منسوخ ہوا،اسی طرح فلسفہ میں حد درجہ استغراق نے اس کوبہت سے مسائل ونظریات میں معتزلی الفکربنادیاتھا،جن میں سے ایک قرآن کے حادث ہونے کاعقیدہ بھی ہے،جس پراس کواصرارتھااوراس کی وجہ سے اس نے علماے اسلام پربے پناہ مظالم ڈھائے۔

     دوسرے حصے میں مامون کے عہدکی یورپی سلطنتوںکابھی اجمالی جائزہ لیاگیاہے،اس کے علاوہ مختلف سرکاری عہدوںاور مناصب اوران پرمامورہونے والے افرادکی ذمے داریوںکی تفصیلات،مامون اوراس کے اہلِ دربارکے متعدددلچسپ لطائف اوراخیرمیں مامون کے عہدکے بہت سے اہلِ فضل وکمال کاذکرِجمیل ہے۔

     اس کتاب میں شبلی نے واقعات و جزئیات کے نقدوتحلیل کے بعدمختلف موقعوںپر جورائیں قائم کی ہیں،ان سے بعض دفعہ بعض قاری یامؤرخ کو اختلاف بھی ہوسکتاہے؛لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شبلی نے’’ المامون‘‘ کے ذریعے سے اسلامی تاریخِ حکومت وسیاست کی بہترین مرقع نگاری کی ، اردو زبان میں تاریخ نگاری کی انتہائی مہتم بالشان بنیاداٹھائی اور پھر بعدکے تصنیفی مرحلوںمیں اسے قوی سے قوی تر کرتے گئے۔

    ’’المامون‘‘اپنی مذکورہ ٔ بالامتنوع خوبیوںکی وجہ سے اس بات کی حق دارتھی کہ’’ الفاروق‘‘ و’’سیرۃ النبیﷺ‘‘وغیرہ کی طرح اس کتاب کابھی عربی ودیگرزبانوںمیں ترجمہ کیاجاتا؛تاکہ اس کی رسائی کادائرہ بڑھے اوراتنی قیمتی تصنیف کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوںکواستفادہ کرنے کاموقع نصیب ہو؛ لیکن اب تک ’’المامون‘‘کا عربی ترجمہ بھی نہیں ہواتھا۔اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت خطۂ اعظم گڑھ کے ہی کے ایک باکمال فرداورعربی زبان وادب و تحقیق کے فاضل ڈاکٹراورنگ زیب (اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) کے حق میں مقدر کر رکھی تھی،سوانھوںنے اس اہم تالیف کے عربی ترجمے کابیڑہ اٹھایااوراس کے شایانِ شان اس کام کوپایۂ تکمیل تک پہنچایاہے،ان کایہ ترجمہ حال ہی میں ’’دارالکتب العلمیہ‘‘بیروت سے شائع بھی ہوگیا ہے۔ ترجمہ نہایت شگفتہ،سلیس اور خوب صورت ہے،ترجمے کے الفاظ میں بھرپورروانی ہے ،تعبیرات وتراکیب کوبوجھل بنانے سے احترازکیاگیاہے ،جس کی وجہ سے ترجمے میںاصل کتاب کالطف پیداہوگیا ہے، مترجم نے مؤلف کے مقاصدومفاہیم کوفصیح اورواضح زبان میںمنتقل کیاہے ،ترجمے کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مترجم نے نہایت ہی عرق ریزی سے اصل متن کوکئی بار پڑھااوراس کے بعداسے عربی کاجامہ پہنایاہے،علامہ شبلی نعمانی نے نہایت دقتِ نظری سے تاریخی مآخذتک رسائی حاصل کرکے ان کے حوالے درج کیے ہیں اور جگہ جگہ بعض واقعات یاجزئیات کی توضیح کے لیے حاشیے اورنوٹس بھی تحریرکیے ہیں، مترجم نے اصل مراجع سے رجوع کرکے جن حوالوںمیںاصل کتاب کاصفحہ نمبردرج نہیں تھا،ان کاصفحہ نمبراور اگرکہیں کوئی سہوواقع ہواہے،تواس کی تصحیح بھی کردی ہے۔کتاب کے شروع میں ’’المامون‘‘ کی تنقیدوتجزیہ پر مشتمل دبستانِ شبلی کے معروف محقق اورصاحبِ قلم سیدصباح الدین عبدالرحمن کے وقیع مقالے(جس کاحوالہ اوپردیاگیاہے)کاترجمہ بھی شامل کردیاہے؛تاکہ قاری اصل کتاب کوپڑھنے سے پہلے اس کی اہمیت اور قدرومنزلت سے آگاہی کے ساتھ اس کے مشمولات سے بھی اجمالی واقفیت حاصل کرلے۔ترجمہ علمی وفنی اعتبار سے اصل کتاب کے شایانِ شان ہے اوراس کے لیے مترجم لائقِ صدتبریک وتحسین ہیں کہ ان کے ذریعے ایک طویل عرصے کے بعدہی سہی،’’المامون‘‘کاوقیع ترجمہ ہوا ہے۔قابلِ ذکرہے کہ ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی نے اب تک علامہ شبلی نعمانی کی متعدداہم تاریخی وعلمی تحریروںکاعربی ترجمہ کیاہے،جن میںسے کئی شائع ہوچکیںاوربعض اشاعت کے مرحلے میں ہیں،جبکہ انھوں نے ’’مقالاتِ شبلی‘‘جلدششم کے مقالات(کتب خانہ اسکندریہ،اسلامی کتب خانے،اسلامی حکومتیں اورشفاخانے،مکینکس اورمسلمان) کاعربی ترجمہ(مترجمہ: ڈاکٹرہیفاشاکری،اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ)اپنے زیراہتمام شائع کیاہے،اس سے قبل انھوںنے ’’شبلی صدی‘‘ کے موقع پراپنے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ’’مجلۃ الہند‘‘مغربی بنگال کا شبلی نمبردو ضخیم جلدوں میں(ایک ہزارسے زائدصفحات پر مشتمل) شائع کیا تھا، جس میںعلامہ شبلی نعمانی کی حیات اوران کی خدمات کے مختلف گوشوںپر مختلف محققین اور اصحابِ قلم کے مقالات اوراردومقالوںکے عربی ترجمے شامل کیے گئے ہیں،ان عظیم الشان خدمات کے لیے پورے دبستانِ شبلی اورہندوستان کے علم دوست طبقے کی جانب سے ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی شکریے کے مستحق ہیںکہ انھوںنے ہندوستان کے ایک جلیل القدرمصنف،سوانح نگار،مفکراوریگانۂ روزگارفاضل کے افکارکے دائرے کووسعت بخشی ہے ۔ان کے علاوہ افکاروتصانیفِ شبلی کی تعریب وتوسیع کے کئی اہم منصوبے ان کے پیشِ نظرہیں،دعاہے کہ ان کایہ علمی وتحقیقی سفریوںہی جاری وساری رہے اور علامہ شبلی نعمانی کی دقتِ نظری وجودتِ طبع کے بیش بہانمونے بتدریج عالمِ عرب کے سامنے آتے رہیںگے۔(ان شاء اللہ)

تبصرے بند ہیں۔