’راہل اکھلیش‘ کی جوڑی ’مودی امیت‘ جوڑی کا جواب

2014ء میں  نریندر مودی نے جو بھی کھیل کھیلا،  کامیاب ہوئے۔ دہلی کی تاج پوشی بھی بڑی دھوم دھام سے ہوئی مگر دہلی کے الیکشن میں  بی جے پی کی کراری ہار سے مودی کی شان میں  کمی آئی۔  بہار میں  شکست فاش سے مزاج کچھ درست ہوا مگر آسام میں  بی جے پی کی کامیابی سے مودی کا مزاج پھر بگڑ گیا اور نوٹ بندی کا بوجھ پورے ملک کے غریب عوام پر بغیر سوچے سمجھے مسلط کر دیا۔ لاکھوں  افراد کو اپنی نوکریوں  سے محروم ہونا پڑا، سیکڑوں  کل کارخانے بند ہوگئے، ڈیڑھ سو سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کے حاشیہ بردار مودی کی خوشامد میں  لگے ہوئے ہیں۔  کوئی انھیں  ’’مودی بھارت اور بھارت مودی‘‘ کہہ رہا ہے تو کسی نے بھگوان کے تحفے سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن پانچ ریاستوں  کے الیکشن میں  اتر پردیش اب مودی امیت شاہ کیلئے اس وقت سے پریشانی کا سبب بن گیا ہے جب سے راہل اور اکھلیش کی بے مثال جوڑی نے امیت شاہ صاحب کو کھلا چیلنج کر دیا ہے۔

 راہل گاندھی-اکھلیش یادو کے اتحاد سے پہلے نریندر مودی-امیت شاہ کی تقریروں  میں  بڑا فرق آگیا ہے۔ امیت شاہ دونوں  کو دو شہزادوں  کی جوڑی کہہ رہے ہیں  جبکہ مودی راہل، اکھلیش اور مایا وتی کو اسکیم (SCAM) سے جوڑنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔  مودی اور امیت شاہ کے پسینے پہلی بار چھوٹنے لگے ہیں  کیونکہ راہل اکھلیش کی جوڑی کی کیمسٹری اس قدر پر اثر ہوگئی ہے کہ دونوں  نے جو لکھنؤ کی پہلی ریلی میں  نعرہ لگایا تھ کہ ’’یوپی کو یہ ساتھ پسند ہے‘‘ یہ چیز مقبول عام ہوگئی ہے۔ اس کی خبر امیت شاہ کو پہلے ہی ہوگئی تھی، اب ان کے صاحب کو بھی ہوگئی ہے، اس لئے اول فول بکنے لگے ہیں۔  معاملہ یہ ہے کہ راہل اکھلیش کی جوڑی اتر پردیش کے الیکشن سے بھی دور رس نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ راہل گاندھی کی نظر نہ صرف اتر پردیش کے الیکشن پر ہے بلکہ 2019ء میں  لوک سبھا کے ہونے والے الیکشن پر بھی ہے۔ یہ ایک ایسی جوڑی ہے جو 2019ء میں  بھی پُر اثر ثابت ہوگی۔ اتر پردیش میں  اس نئی جواں  پیڑھی کی جوڑی کی کامیابی کے آغاز نمایاں  ہوتے جارہے ہیں۔  کانگریس کو بھی اب اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ اکیلے مودی کی پارٹی کا منہ توڑ جواب نہیں  دے سکتی ہے۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ بالکل بدلا ہوا ہے۔ ریاستی پارٹیاں  بہت سی ریاستوں  میں  اپنا پیر جماچکی ہیں۔  ایسی تمام پارٹیوں  سے کانگریس اب اتحاد کی خواہاں ہے۔ اس نئی پالیسی سے کانگریس کو فائدہ پہنچے گا تو بی جے پی کے پاؤں  جہاں  جمنے والے تھے وہ اکھڑنے شروع ہوجائیں  گے۔ بہار میں  لالو پرساد اور نتیش کی جوڑی سے بی جے پی کو کراری شکست ضروری ہوئی مگر دونوں کی جوڑی کی کیمسٹری بہت اچھی نہیں  ہے۔ اروند کجریوال کے بارے میں  جو لوگوں  کی توقع تھی اس پر بھی وہ پورے اترتے نظر نہیں  آرہے ہیں،  اس لئے مودی امیت کی جوڑی کا بہتر اور دندان شکن جواب اتر پردیش کی نئی جوڑی دینے کے قابل نظر آرہی ہے۔ راہل گاندھی کی تقریروں  اور بیانات میں  بھی پہلے کے مقابلے پختگی آگئی ہے۔ تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔

اکھلیش یادو اپنے باپ اور چچا کے رشتوں  میں  ایسے بندھے ہوئے تھے کہ اتر پردیش میں  وہ بھی صحیح حکمرانی نہیں  کرسکے۔ ان کو بھی احساس تھا کہ اگر وہ اکیلے مودی بھگتوں  سے ٹکرا ئیں  گے تو کامیابی ممکن نہیں  ہوگی کیونکہ مسلمان اکھلیش کے طرز حکومت اور ان کی پارٹی کے رویہ سے ناخوش اور ناراض تھے، مسلمانوں  نے اپنا من بنالیا تھا کہ مایا وتی کو ووٹ دیں  گے لیکن اب اتحاد میں  زیادہ دم دکھائی دے رہا ہے، اس لئے مسلمانوں  کا رجحان بدل گیا ہے۔ اگر چہ مسلم لیڈرس مایاوتی اور اتحاد میں  بٹ گئے ہیں  تو وہ یکسوئی سے محروم نظر آتے ہیں  مگر ووٹرس میں  خبروں  کے مطابق بہت حد تک یکسوئی آگئی ہے۔  مسلمان طے کرچکے ہیں  کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کا اتحاد بی جے پی کی فرقہ پرستی کا جواب ہے۔ مایا وتی بھی فرقہ پرستی کے خلاف ہیں  اور مسلمانوں  کو امیدوار بنانے میں  ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے مگر ایک ایک دو ہوتا ہے اور ایک ایک گیارہ بھی ہوسکتا ہے، ایک نہ دو ہوسکتا ہے اور نہ گیارہ۔  اس لحاظ سے مایا وتی کی پارٹی بھی ایس پی اتحاد سے پیچھے ہوگئی ہے۔ مسلمانوں  کی حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ جہاں  بھی جو امیدوار خواہ اتحاد کا ہو یا بی ایس پی کا ہو فرقہ پرست اور فسطائی پارٹی بی جے پی کو کنارہ لگا سکے اسے ووٹ دیں  کیونکہ بی جے پی کی فرقہ پرستی اور فسطائیت سے نہ صرف مسلمانوں  کو نقصان ہے بلکہ ملک اور قوم کا بھی یکساں  نقصان ہے۔

بی جے پی اور آر ایس ایس نے ڈھائی تین سال میں  ملک کی حالت کو ہر شعبہ زندگی میں  بدل دیا ہے۔ نہ ملک کے نظم و نسق کی حالت بہتر ہے اور نہ معاشی حالت مضبوط و مستحکم ہے۔ ہندو اور مسلمانوں  میں  نفرت بھی پہلے کے مقابلے میں  بہت بڑھ گئی ہے۔ اگر قانون کی بہتری، معاشرہ میں  ہم آہنگی اور اخوت و بھائی چارہ کا ماحول سازگار ہوسکتا ہے تو بی جے پی کے زوال ہی سے ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ جو چیز دہلی کی ہار یا بہار کی شکست سے پیدا نہیں  ہوسکی وہ اتر پردیش میں  بی جے پی کی کراری شکست سے پیدا ہوگی اور بی جے پی ایسے زوال کا منہ دیکھے گی کہ پھر اسے عروج کبھی اور نصیب نہیں  ہوگا۔ کسی نے سچ کہا ہے ؎

ہر عروج را زوال است (ہر عروج کیلئے زوال ہے)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔