اردو وفاداری اور صحافتی دیانتداری کا ثبوت

پنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند (علامہ اقبال)

قابلِ مبارکباد ہے وہ اردو اخبار،جس نے یہ مضمون شائع کر کے غیر جانبداری اور صحافتی دیانیتداری کا ثبوت پیش کیا ۔یہ مضمون ہندوستان کے کئی مشہوراردو اخبارات کوبذریعہ ای۔میل انپیج فائل کی شکل میں مہیاکرایاگیا ہے۔
کہانیوں میں سنا تھا کہ صحافت پاکیزہ اور غیر جانب دار ہوتی ہے۔ حقیقت کی دنیا میں آنکھیں کھولی تو صحافت کو سیاست دانوں اور سرمایا داروں کی کٹھ پتلی پایا ۔کیا اردو اخبارات و میڈیا کو بھی مخصوص شر پسندوں نے ہائی جیک کر لیا ہے ؟ نا م نہاد فرقہ پرستوں کی مسلم دشمنی کے کارناموں کی شہ سرخیاں چھاپ کر واویلہ مچاتے وقت چند اردو اخبارات و میڈیا ،ظالم و جابر حکمرانِ وقت سے ذرا بھی نہیں کپکپاتے۔ پھر اردو کے متعلق یہ مضمون شائع کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟کیا صرف مسلمانوں میں خوف وہراس کا ماحول بنائے رکھنے کے لئے ہی اردو اخبارات کو سیاسی آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ؟
اردو کتاب میلے کے متعلق حقائق پر مبنی چند بنیادی سوالوں کو ایک مضمون میں بہت ہی مثبت انداز میں پیش کیا گیا۔ کہانیوں سے آگے جہاں اور بھی ہے۔ یہ مضمون شائع نہ کر کے مخصوص اردو اخبارات و میڈیا نے اپنی جانب داری کا مظاہرہ کیا ۔ کیا اردو صحافت و میڈیا میں بھی سوداگروں نے اپنے اثرو رسوخ کی دھاک جمالی ہے ؟
مضمون میں خاموش چیخیں کسی فردِواحد کی نہیں،بلکہ سسکتی و بلکتی زبانِ اردو کے مظلوم جان نثاروں کی آہ وبکا ہے۔ ہاں ، اردو کے شیدائیوں کی آواز ہے ۔ جنھو ں نے ایک کروڑ سے زائد کی خطیر رقم، اردو کے نام پر، اردو کے سوداگروں کو بطور ھدیہ ،کتابیں خرید کر پیش کی ہے۔ یہ کوئی ذاتی مفاد یا دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے ۔یہ زندہ دل قوم کی پیاری زبانِ اردو کی بقاء کا سوال ہے ۔
راقم الحروف سے ذاتی میٹنگ کر کے مطمئن کر نے کی کوشش کرنا، قوم سے غدداری ہو گی۔ یہ ایک سماجی و عوامی مدعا ہے۔ اسے عوام کے سامنے رکھنا چاہیے۔ کیا اردو میڈیا و اخبا رات یہ مضمون شائع کر کے اردو وفاداری اور صحافتی دیانتداری کا ثبوت پیش کریں گے ؟
میڈیا کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ صحیح وغلط کا فرمان جاری کر،مضمون کو شائع ہونے سے روک دے۔اگر کسی صاحبِ فہم و عقل کومضمون سے اعتراض ہے تو وہ جوابی مضمون شائع کرنے کی آزادی وپورا پورا حق رکھتا ہے ۔
مضمون شائع نہ کر کے فردِ واحد کی نہیں ،زبانِ اردو کی آواز کو دبایا جا رہا ہے ۔
افسوس صد افسوس ،آواز دبانے والے کوئی اور نہیں ،وہی لوگ ہے جو اردو کے نام پر چولھے جلا کر پیٹ کی آگ کو بجھاتے ہیں۔
کچھ نامور ایڈیٹر صاحبان صاف لفظوں میں مضمون شائع کرنے سے انکار کر رہے کیونکہ وہ مضمون نگار کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے ۔صاحب! آپ اخبارات میں کیوں لکھتے ہوکہ مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے؟ بے شرمی کی حد دیکھیے کہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہے کہ ہمارا نام اردو کے غداروں کی فہرست میں شامل کرلو لیکن ہم یہ مضمون شائع نہیں کریں گے۔
اس میں کچھ برائی نہیں ہے کہ اردو اور صحافت کو ذریعہ معاش بنا کر ضروریات زندگی حلال طریقے سے پوری کی جائیں۔ لللہ اپنے پیشے و زبان کے تئیں دیانتداری کا مظاہرہ کر، اسکا پورا پورا حق ادا کیجئے ۔کچھ خود ساختہ قائدِ قوم سوچ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی نئی نسل،بہت ہی احسان فراموش ہے۔ خود ساختہ قا ئدین کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو مقام سانسوں کا زندگی کے لیے ہے وہی مقام تنقید کا بھی ہے۔اتنی تنگ نظری کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ تنقید تو تنقید ہوتی ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ I am responsible for what I said, not for what you understood.
تنقید نگار اگر اصلاح کی قدرت رکھتا ہو تو تنقید کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ کی گئی تنقید کو اصلاحی نقطۂ نظر سے لیا جاتا ہے یا منفی انداز میں، یہ قاری کے انداز فکر پر منحصرہے۔
کچھ ایڈیٹر صاحبان صاف لفظوں میں مضمون شائع کرنے سے انکار کر رہے کیونکہ وہ مضمون نگار کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ کیا جو کچھ آپ کے اخبار میں شائع کیا جاتا ہے اس سے آپ متفق ہو؟ پھر صاحب! آپ اخبارات میں کیوں لکھتے ہوکہ مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے؟ بے شرمی کی حد دیکھیے کہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہے کہ ہمارا نام اردو کے غداروں کی فہرست میں شامل کرلو لیکن ہم یہ مضمون شائع نہیں کریں گے۔
راقم الحروف اعلان کر چکا ہے کہ مضمون بے معنی و بے بنیاد ہو سکتا ہے۔اگر ایڈیٹرحضرات مضمون کو قابلِ اشاعت نہیں سمجھ رہے ہیں تو اسے کوڑے دان میں ڈال کر قصہ ختم کرنا چاہییے۔راتوں کی نیند حرام کر کے کیوں وہاٹس ایپ گرو پ و فون کالس کے زریعے مضمون پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔کچھ ایڈیٹر حضرات اپنی نوکری جانے کا خطرہ بتا کر معذرت کر رہے ہیں۔ تو کچھ ہٹ ڈھرمی کی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایسا کیا ہے کہ نوکری خطرے میں پڑ گئی؟ دال میں بہت کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے؟

تبصرے بند ہیں۔