دنیا میں اس طرح سے کچھ الجھے ہوئے ہیں سب

دنیا میں اس طرح سے کچھ الجھے ہوئے ہیں سب

عقبیٰ کو اک فسانہ ہی سمجھے ہوئے ہیں سب

اپنے سوا کسی کو کسی کی خبر نہیں

ایسا فریب نفس میں الجھے ہوئے ہیں سب

تاریکیوں سے رات کی اُکتا چکے ہیں دل

منظر تباہیوں کے بھی دیکھے ہوئے ہیں سب

بربادئ حیات کا ماتم ہے ہر طرف

پھر بھی اسی حیات سے چپکے ہوئے ہیں سب

اشکوں کا اک ہجوم ہے گو فیضؔ آنکھ میں

اشکوں کو بھی فریب ہی سمجھے ہوئے ہیں سب

تبصرے بند ہیں۔